سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 58
حضرت عمر ؓ کا قبول اسلام (حصہ اول):
حضرت عمر رضی الله عنہ کے قبول اسلام کا واقعہ 6 نبوی کا ہے، وہ حضرت حمزہ رضی الله عنہ کے صرف تین دن بعد مسلمان ہوئے تھے، قریش کے سربر آوردہ اشخاص میں ابوجہل اور حضرت عمر رضی الله عنہ اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دشمنی میں سب سے زیادہ سرگرم تھے، اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خصوصیت کے ساتھ ان ہی دونوں کے لئے اسلام کی دعا فرمائی۔
اللھم اعز الاسلام باحدالرجلین اما ابن ہشام واماعمر بن الخطاب
"اے اللہ! اسلام کو ابو جہل یا عمر بن الخطاب (رضی الله عنہ) سے معزز کر۔"
(جامع ترمذی، مناقب عمر)
اسی طرح طبرانی نے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے اور حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اَللھُمَّ اَعِزَّ الاِسلاَمِ بِاَحَبِّ الَّرجُلَینِ اِلَیکَ بعمر بن الخطاب اَو بِاَبِی جہل بن ہشام
"اے اللہ! عمر بن الخطاب (رضی الله عنہ) اور ابوجہل بن ہشام میں سے جو شخص تیرے نزدیک زیادہ محبوب ہے، اس کے ذریعے سے اسلام کو قوّت پہنچا۔"
مگر یہ دولت تو قسّام ازل نے حضرت عمر رضی الله عنہ کی قسمت میں لکھ دی تھی، ابوجہل کے حصہ میں کیونکر آتی؟ اس دعائے مستجاب کا اثر یہ ہوا کہ کچھ دنوں کے بعد اسلام کا یہ سب سے بڑا دشمن، اس کا سب سے بڑا دوست اور سب سے بڑا جاں نثار بن گیا، یعنی حضرت عمر رضی الله عنہ کا دامن دولت ایمان سے بھر گیا۔
ذٰلِکَ فَضْلُ اللہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَاءُ"
تاریخ و سیر کی کتابوں میں حضرت عمر کی تفصیلاتِ اسلام میں اختلاف ہے۔ ایک مشہور واقعہ جس کو عام طور پر ارباب سیر لکھتے ہیں، یہ ہے:
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے وقت حضرت عمر رضی الله عنہ کی عمر ستائیس سال تھی، حضرت عمر رضی الله عنہ اپنی تند مزاجی اور سخت خوئی کے لیے مشہور تھے، مسلمانوں نے طویل عرصے تک ان کے ہاتھوں طرح طرح کی سختیاں جھیلی تھیں۔
حضرت عمر رضی الله عنہ کی بہن فاطمہ رضی الله عنہا کا نکاح حضرت سعید بن زید رضی الله عنہ سے ہوا تھا جو اسلام قبول کر چکے تھے، حضرت فاطمہ رضی الله عنہا بھی اسلام قبول کر چکی تھیں، لیکن حضرت عمر رضی الله عنہ ابھی تک اسلام سے بیگانہ تھے، قبیلہ کے جو لوگ اسلام لا چکے تھے، حضرت عمر رضی الله عنہ ان کے دشمن ہو گئے، لبینہ رضی الله عنہا ان کے خاندان کی کنیز تھی جس نے اسلام قبول کرلیا تھا، اس کو بے تحاشہ مارتے، مارتے مارتے تھک جاتے تو کہتے کہ "دم لے لوں تو پھر ماروں گا"۔ لبینہ رضی الله عنہا کے علاوہ اور جس جس پر قابو چلتا اس کو خوب مارتے تھے، لیکن ایک شخص کو بھی وہ اسلام سے دل بر داشتہ نہ کرسکے، آخر مجبور ہو کر (نعوذ باللہ) خود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قتل کا ارادہ کیا اور تلوار حمائل کرکے سیدھے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مکان کی طرف چلے۔
راستہ میں بنی زہرہ کے نعیم بن عبداللہ النّحام رضی الله عنہ سے ملاقات ہوئی، پوچھا "کدھر کا ارادہ ہے؟" جواب دیا کہ "محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فیصلہ کرنے جاتا ہوں" انہوں نے کہا: "محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قتل کرکے بنو ہاشم اور بنو زہرہ سے کیسے بچ سکو گے؟"
حضرت عمر رضی الله عنہ نے کہا: "معلوم ہوتا ہے تم بھی اپنا پچھلا دین چھوڑ کر بے دین ہو چکے ہو"
نعیم بن عبداللہ رضی الله عنہ نے کہا: "عمر! ایک عجیب بات نہ بتا دوں؟ تمہاری بہن اور بہنوئی بھی تمہارا دین چھوڑ کر "بے دین" ہوچکے ہیں، پہلے اپنے گھر کی خبر لو۔"
یہ سن کے غصے سے بے قابو ہوگئے اور سیدھے بہن بہنوئی کا رخ کیا، وہاں انہیں حضرت خباب بن ارت رضی الله عنہ سورۂ طہٰ پر مشتمل ایک صحیفہ پڑھا رہے تھے اور قرآن پڑھانے کے لیے وہاں آنا جانا حضرت خباب رضی الله عنہ کا معمول تھا، بات یہ تھی کہ جب کوئی محتاج شخص مسلمان ہوتا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے کسی آسودہ حال صحابی کے سپرد کر دیتے تاکہ اس کی ضروریات کی کفالت کرے، اُم انمار کے غلام حضرت خبّاب بن ارت رضی الله عنہ ایمان لائے تو انہیں حضرت سعید بن زید رضی الله عنہ کے سپرد کیا گیا، یہ دونوں حضرت خبّاب بن ارت رضی الله عنہ ہی سے قرآن سیکھ رہے تھے۔
جب حضرت خباب رضی الله عنہ نے حضرت عمر رضی الله عنہ کی آہٹ سنی تو گھر کے اندر چھپ گئے، ادھر حضرت عمر رضی الله عنہ کی بہن فاطمہ رضی الله عنہا نے صحیفہ چھپا دیا، لیکن حضرت عمر رضی الله عنہ گھر کے قریب پہنچ کر حضرت خباب رضی الله عنہ کی قراءت سن چکے تھے، چنانچہ پوچھا، "یہ کیسی دھیمی دھیمی آواز تھی جو تم لوگوں کے پاس میں نے سنی تھی؟"
انہوں نے کہا: "کچھ بھی نہیں، بس ہم آپس میں باتیں کر رہے تھے۔" حضرت عمر رضی الله عنہ نے کہا: "غالباً تم دونوں بے دین ہوچکے ہو۔"
بہنوئی نے کہا: "اچھا عمر! یہ بتاؤ اگر حق تمہارے دین کے بجائے کسی اور دین میں ہو تو؟"
حضرت عمر رضی الله عنہ کا اتنا سننا تھا کہ اپنے بہنوئی پر چڑھ بیٹھے اور انہیں بری طرح کچل دیا، ان کی بہن نے لپک کر انہیں اپنے شوہر سے الگ کیا تو بہن کو ایسا چانٹا مارا کہ چہرہ خون آلود ہوگیا۔
بہن نے جوش غضب میں کہا: "عمر! اگر تیرے دین کے بجائے دوسرا ہی دین برحق ہو تو؟ ''أشھد أن لا الٰہ الا اللہ وأشھد أنَّ محمدًا رسول اللہ '' میں شہادت دیتی ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں اور میں شہادت دیتی ہوں کہ محمد اللہ کے رسول ہیں۔"
یہ سن کر حضرت عمر رضی الله عنہ پر مایوسی کے بادل چھا گئے اور انہیں اپنی بہن کے چہرے پر خون دیکھ کر شرم و ندامت بھی محسوس ہوئی، کہنے لگے: "اچھا یہ کتاب جو تمہارے پاس ہے ذرا مجھے بھی پڑھنے کو دو۔"
بہن نے کہا: "تم ناپاک ہو، اس کتاب کو صرف پاک لوگ ہی چھو سکتے ہیں، اٹھو غسل کرو۔" حضرت عمر رضی الله عنہ نے اٹھ کر غسل کیا، پھر کتاب لی اور پڑھی، کہنے لگے: "یہ تو بڑے پاکیزہ نام ہیں" اس کے بعد سے (۲۰: ۱۴) تک قراءت کی، کہنے لگے: "یہ تو بڑا عمدہ اور بڑا محترم کلام ہے، مجھے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا پتہ بتاؤ۔"
حضرت خباب رضی الله عنہ حضرت عمر رضی الله عنہ کے یہ فقرے سن کر اندر سے باہر آگئے، کہنے لگے: "عمر! خوش ہو جاؤ، مجھے امید ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جمعرات کی رات تمہارے متعلق جو دعا کی تھی (کہ اے اللہ! عمر بن خطاب یا ابو جہل بن ہشام کے ذریعے اسلام کو قوت پہنچا) یہ وہی ہے اور اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوہ صفا کے پاس حضرت ارقم کے مکان میں تشریف فرما ہیں۔"
یہ سن کر حضرت عمر رضی الله عنہ نے اپنی تلوار حمائل کی اور اس گھر کے پاس آکر دروازے پر دستک دی، ایک آدمی نے اٹھ کر دروازے کی دراز سے جھانکا تو دیکھا کہ عمر تلوار حمائل کیے موجود ہیں، لپک کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اطلاع دی اور سارے لوگ سمٹ کر یکجا ہوگئے۔
حضرت حمزہ رضی الله عنہ نے پوچھا: "کیا بات ہے؟"
لوگوں نے کہا: "عمر ہیں۔"
حضرت حمزہ رضی الله عنہ نے کہا: "بس! عمر ہے، دروازہ کھول دو، اگر وہ خیر کی نیت سے آیا ہے تو بہتر ہے اور اگر کوئی برا ارادہ لے کر آیا ہے تو اسی کی تلوار سے اس کا سر قلم کر دوں گا۔"
==================> جاری ہے ۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں