سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 64


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 64 

ظلم و ستم کا بیان۔ مکمل بائیکاٹ: 



کفّار قریش دیکھ رہے تھے کہ ان کی مزاحمت کے باوجود اسلام پھیلتا ہی جاتا ہے، حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے لوگ ایمان لا چکے ہیں، نجاشی نے مسلمانوں کو پناہ دی اور وہاں سے ان کے سفراء بے نیل و مرام واپس آئے، اس سے قریش کا رویّہ دن بہ دن سخت سے سخت تر ہوتا جاتا تھا، معاندانہ سرگرمیاں اور سازشیں تیز سے تیز تر ہوتی جارہی تھیں، اس سے بنی ہاشم (نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خاندان) کے سردار کس طرح اپنی آنکھیں بند کر سکتے تھے، انہوں نے بنی ہاشم اور بنی مطلّب کو جمع کیا، عصبیتِ قبیلہ کی بناء پر سب ایک ہو گئے بجز ابو لہب کے۔

یہ کوئی دینی مسئلہ نہیں، بلکہ قبیلہ کی حمایت کا سوال تھا، سرداران قریش نے حضرت ابو طالب کے پاس جاکر یہ دھمکی دی کہ آپ اپنے بھتیجے کو ایسی باتوں سے روکیں یا ہم سے برسر پیکار ہوجائیں، یہاں تک کہ ایک فریق فنا ہوجائے، اس کے بعد حضرت ابو طالب نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بلا کر کہا کہ اے بھتیجے! آپ مجھ پر اور اپنی ذات پر رحم کھائیے اور ناقابل برداشت بوجھ مجھ پر نہ ڈالئے، یہ سن کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "اے چچا جان! والله! اگر وہ میرے دائیں ہاتھ پر آفتاب اور بائیں ہاتھ پر مہتاب بھی رکھ دیں تو میں اپنی دعوت سے باز نہ آؤں گا۔"

جب حضرت ابو طالب نے یہ متحدہ محاذ دیکھا تو انہوں نے یہ طے کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حفاظت و حمایت کی بات بنو ہاشم کے سامنے رکھیں اور ان کو بھی اس کی دعوت دیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حفاظت و حمایت کا عہد ان سے لیں، حضرت ابو طالب کی دعوت پر بجز دشمن اسلام ابو لہب کے بنو ہاشم کا ایک ایک فرد جمع ہوگیا، جب بنو ہاشم کے سامنے ابو طالب نے قریش کی معاندانہ اور ظالمانہ کارروائیوں کی شدت کی روداد کو رکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حفاظت اور حمایت کا مسئلہ ان کے سامنے رکھا اور اپنے عہد و عزیمت کا ان کے سامنے اظہار کیا اور ان کو بھی اس کی دعوت دی تو سبھوں نے ابو طالب کی دعوت پر لبیک کہا اور عہد کیا کہ ہم ہر حال میں آپ کے ساتھ رہیں گے۔

حضرت ابوطالب اپنے نوجوانوں کے اس فیصلہ سے بہت مسرور ہوئے اور انتہائی مسرت میں پرجوش الفاظ میں خاندانی مفاخرت اور ہاشمی شجاعت اور ہمیشہ ظلم کی مدافعت میں سینہ سپر رہنے کی روایات پر اشعار کہے اور قصائد لکھ کر بنو ہاشم کو ان کی عظمت کا احساس دلایا، یہ اشعار کعبہ میں بلند آواز میں پڑھے گئے، اس پُرزور قصیدہ نے قبائلی وقار کی خاطر منتشر قوتوں کو یکجا کردیا اور حضرت ابو طالب کی کوششوں سے بنی ہاشم، بنی مطلّب اور بنی عبد مناف کی عصبیت جاگ اٹھی اور تینوں گھرانے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حفاظت کے لئے متحد ہوگئے۔

جب مشرکین نے یہ دیکھا کہ بنی ہاشم اور بنی مطلب ہر قیمت پر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حفاظت اور بچاؤ کا تہیہ کیے بیٹھے ہیں تو بالآخر وادی مُحصَّب میں خیف بنی کنانہ کے اندر جمع ہو کر انہوں نے بنی ہاشم سے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا اور اس مقاطعہ کا تحریری عہد نامہ مختصر الفاظ میں چمڑہ پر لکھوایا گیا۔

دانشوران کفر نے بعد مشورہ قبیلہ بنی ہاشم کے سماجی و معاشی مقاطعہ کی تجویز منظور کی، اس لئے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تعلق اسی گھرانہ سے تھا اور دوسرے یہ کہ بہ حیثیت سربراہ قبیلہ حضرت ابوطالب نے ان کی بار بار کی درخواست کو ٹھکرا دیا تھا، انہوں نے خیال کیا کہ اگر بنی ہاشم کو یوں بے بس کر دیا جائے تو خود بخود آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان کے حوالے کردیں گے، اس تجویز کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اک عہد نامہ مرتب ہوا جو بنی ہاشم، بنی مطلّب اور بنی عبد مناف کے خلاف تھا۔

یہ مقاطعہ کسی خاص مدت کے لئے نہیں تھا بلکہ غیر معینہ مدت کے لئے تھا جب تک محصورین خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان کے حوالے نہ کردیں، مقاطعہ کی اہم شرائط حسب ذیل ہیں: 

①: ذریعہ معاش تباہ کرنے کے لئے کوئی بھی ان کے ساتھ لین دین اور خرید و فروخت نہ کرے گا۔
②: بنی ہاشم سے صلہ رحمی باقی نہ رکھنے کے لئے کوئی بھی ان کی لڑکیوں سے نکاح نہیں کرے گا اورنہ اپنی بیٹی انہیں دے گا۔
③: انہیں اپنی صحبت میں بھی نہیں بیٹھنے دیا جائے گا، تاکہ کوئی شخص ان کی باتوں سے متاثر نہ ہو۔
④: ان سے قطع تعلق کرنے کے لئے کوئی بھی ان سے بات چیت نہیں کرے گا۔
⑤: انہیں بھوکے رکھنے کے لئے خوراک فراہم نہیں کی جائے گی اور ان کا کوئی حمایتی انہیں خوراک نہیں پہنچائے گا۔
⑥: سب لوگوں سے روابط ختم کرنے کے لئے انھیں بازاروں میں گھومنے پھرنے نہیں دیا جائے گا۔

مشرکین نے اس بائیکاٹ کی دستاویز کے طور پر ایک صحیفہ لکھا، جس میں اس بات کا عہد وپیمان کیا گیا تھا کہ وہ بنی ہاشم کی طرف سے کبھی بھی کسی صلح کی پیش کش قبول نہ کریں گے نہ ان کے ساتھ کسی طرح کی مروت برتیں گے جب تک کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قتل کرنے کے لیے مشرکین کے حوالے نہ کردیں۔

بہر حال یہ عہد وپیمان طے پا گیا اور صحیفہ خانہ کعبہ کے اندر لٹکا دیا گیا، اس کے نتیجے میں ابولہب کے سوا بنی ہاشم اور بنی مطلب کے سارے افراد خواہ مسلمان رہے ہوں یا کافر، سمٹ سمٹا کر "شِعَبِ ابی طالب" میں محبوس ہوگئے، یہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے ساتویں سال محرم کی چاند رات کا واقعہ ہے۔


==================> جاری ہے ۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں