سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 63
مشرکین کی سنجیدہ غور وفکر اور پھر یہود سے رابطہ:
مذکورہ بات چیت، اتنی ترغیبات، سودے بازیوں اور دست برداریوں میں ناکامی کے بعد مشرکین کے سامنے راستے تاریک ہوگئے تھے، وہ حیران تھے کہ اب کیا کریں؟ چنانچہ ان کے ایک شیطان "نضر بن حارث" نے انہیں نصیحت کرتے ہوئے کہا:
"قریش کے لوگو! واللہ! تم پر ایسی افتاد آن پڑی ہے کہ تم لوگ اب تک اس کا کوئی توڑ نہیں لا سکے، محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم میں جوان تھے تو تمہارے سب سے پسندیدہ آدمی تھے، سب سے زیادہ سچے اور سب سے بڑھ کر امانت دار تھے، اب جبکہ ان کی کنپٹیوں پر سفیدی دکھائی پڑنے کو ہے (یعنی ادھیڑ ہوچلے ہیں) اور وہ تمہارے پاس کچھ باتیں لے کر آئے ہیں، تم کہتے ہو کہ وہ جادوگر ہیں، نہیں! واللہ! وہ جادوگر نہیں، ہم نے جادوگر دیکھے ہیں، ان کی چھاڑ پھونک اور گرہ بندی بھی دیکھی ہے اور تم لوگ کہتے ہو وہ کاہن ہیں، نہیں! واللہ! وہ کاہن بھی نہیں، ہم نے کاہن بھی دیکھے ہیں، ان کی الٹی سیدھی حرکتیں بھی دیکھی ہیں اور ان کی فقرہ بندیاں بھی سنی ہیں، تم لوگ کہتے ہو وہ شاعر ہیں، نہیں! واللہ! وہ شاعر بھی نہیں، ہم نے شعر بھی دیکھا ہے اور اس کے سارے اصناف، ہجز، رجز وغیرہ سنے ہیں، تم لوگ کہتے ہو وہ پاگل ہیں، نہیں! واللہ! وہ پاگل بھی نہیں، ہم نے پاگل پن بھی دیکھا ہے، ان کے یہاں نہ اس طرح کی گھٹن ہے نہ ویسی بہکی بہکی باتیں اور نہ ان کے جیسی الٹی سیدھی حرکتیں۔ قریش کے لوگو! سوچو! واللہ! تم پر زبردست افتاد آن پڑی ہے۔"
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جب انہوں نے دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر چیلنج کے مقابل ڈٹے ہوئے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ساری ترغیبات پر لات مار دی ہے اور ہر معاملے میں بالکل کھرے اور ٹھوس ثابت ہوئے ہیں، جبکہ سچائی، پاکدامنی اور مکارم اخلاق سے پہلے ہی سے بہرہ ور چلے آرہے ہیں تو ان کا یہ شبہ زیادہ قوی ہوگیا کہ آپ واقعی رسول برحق ہیں، لہٰذا انہوں نے فیصلہ کیا کہ یہود سے رابطہ قائم کرکے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں ذرا اچھی طرح اطمینان حاصل کرلیا جائے، چنانچہ جب نضر بن حارث نے مذکورہ نصیحت کی تو قریش نے خود اسی کو مکلف کیا کہ وہ ایک یا چند آدمیوں کو ہمراہ لے کر یہود مدینہ کے پاس جائے اور ان سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معاملے کی تحقیق کرے۔
چنانچہ وہ مدینہ آیا تو علماء یہود نے کہا کہ اس سے تین باتوں کا سوال کرو، اگر وہ بتادے تو نبی مرسل ہے، ورنہ سخن ساز۔
①: اس سے پوچھو کہ پچھلے دور میں کچھ نوجوان گزرے ہیں، ان کا کیا واقعہ ہے؟ کیونکہ ان کا بڑا عجیب واقعہ ہے۔
②: اور اس سے پوچھو کہ ایک آدمی نے زمین کے مشرق و مغرب کے چکر لگائے، اس کی کیا خبر ہے؟
③: اور اس سے پوچھو کہ روح کیا ہے؟
اس کے بعد نضر بن حارث مکہ آیا تو اس نے کہا کہ میں تمہارے اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان ایک فیصلہ کن بات لے کر آیا ہوں، اس کے ساتھ ہی اس نے یہود کی کہی ہوئی بات بتائی، چنانچہ قریش نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ان تینوں باتوں کا سوال کیا، چند دن بعد ''سورۂ کہف '' نازل ہوئی جس میں ان جوانوں کا اور اس چکر لگانے والے آدمی کا واقعہ بیان کیا گیا تھا جو ان اصحاب کہف میں سے تھے اور وہ آدمی ذوالقرنین تھا، روح کے متعلق جواب سورۂ اسراء میں نازل ہوا۔
اس سے قریش پر یہ بات واضح ہوگئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سچے اور برحق پیغمبر ہیں، لیکن پھر بھی ان ظالموں نے کفر وانکار ہی کا راستہ اختیار کیا۔
مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت کا جس انداز سے مقابلہ کیا تھا، یہ اس کا ایک مختصر سا خاکہ ہے، انہوں نے یہ سارے اقدامات پہلو بہ پہلو کیے تھے، وہ ایک ڈھنگ سے دوسرے ڈھنگ اور ایک طرز عمل سے دوسرے طرز عمل کی طرف منتقل ہوتے رہتے تھے، سختی سے نرمی کی طرف اور نرمی سے سختی کی طرف، جدال سے سودے بازی کی طرف اور سودے بازی سے جدال کی طرف، دھمکی سے ترغیب کی طرف اور ترغیب سے دھمکی کی طرف، کبھی بھڑکتے کبھی نرم پڑ جاتے، کبھی جھگڑے اور کبھی چکنی چکنی باتیں کرنے لگتے، کبھی مرنے مارنے پر اتر آتے اور کبھی خود اپنے دین سے دست بردار ہونے لگتے، کبھی گرجتے برستے اور کبھی عیش دنیا کی پیشکش کرتے، نہ انہیں کسی پہلو قرار تھا، نہ کنارہ کشی ہی گورا تھی اور ان سب کا مقصود یہ تھا کہ اسلامی دعوت ناکام ہوجائے اور کفر کا پراگندہ شیرازہ پھر سے جڑ جائے۔
لیکن ان ساری کوششوں اور سارے حیلوں کے بعد بھی وہ ناکام ہی رہے اور ان کے سامنے صرف ایک ہی چارۂ کار رہ گیا اور یہ تھا تلوار، مگر ظاہر ہے تلوار سے اختلاف میں اور شدت ہی آتی، بلکہ باہم کشت وخون کا ایسا سلسلہ چل پڑتا جو پوری قوم کو لے ڈوبتا، اس لیے مشرکین حیران تھے کہ وہ کیا کریں۔؟
==================> جاری ہے ۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں