سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔ قسط: 39
عہدِ جہالت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے معمولات:
جب خانہ کعبہ تعمیر ہوگیا تو بُت پرست اہل مکہ نے اس کی آرائش و زیبائش بھی شروع کی، کعبہ کی دیواروں پر عمارت کے اندر قسم قسم کی تصویریں بنائیں، جن میں فرشتے بھی تھے اور مختلف انبیاء کے ساتھ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام بھی تیروں سے فال دیکھتے دکھائے گئے، نیز بی بی مریم علیہا السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تصویریں بھی بنائی گئیں، اس کے علاوہ کعبہ کے اطراف تین سو ساٹھ بُت بھی رکھے گئے، جو تمام ہی قبائل کے تھے، کعبہ کو اس طرح ایک ہمہ مذہبی "دیوستھان" بنا دینے سے قریش کی ذہنیت کا پتہ چلتا ہے۔
بنو جرہم کی شہوت پرستی کو اتنا اُجاگر کیا گیا کہ خانۂ کعبہ کے مجرم بھی دیوتا بنا دئیے گئے، مثال کے طور پر "نائیلہ بنت دیک" ایک حسین عورت تھی جو نیم عریاں لباس میں اپنے حُسن کی نمائش کرتی اور اسی حالت میں کعبہ کا طواف بھی کرتی، اسے دیکھنے کے لئے اس کے پیچھے شیدائیوں کا ہجوم رہتا تھا، اس کے شیدائیوں میں ایک نوجوان سردار "اساف بن بغی" بھی تھا، دوران طواف ایک دن اساف بے خود ہوکر دست درازی سے بھی آگے بڑھ گیا، بنو جرہم کے لوگ جو شراب پئے ہوئے اور بد مست تھے، کعبہ کی اس بے حرمتی پر احتجاج کرنے کے بجائے اساف اور نائیلہ کے حسن و عشق کی داستان فخر سے بیان کرنے لگے، نہ صرف یہ بلکہ نائیلہ اور اساف کے مرنے کے بعد ان کے بت بنائے اور انہیں عشق و محبت کا مظہر قرار دے کر ان کی پرستش کرنے لگے، یہ بت چاہ زم زم کے کنارے نصب تھے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی قوم کی ان ذلیل حرکتوں کو دیکھتے تو بہت افسردہ اور غمگین ہوجاتے اور ان سے بچنے کے لئے کسی پہاڑ کے دامن میں وقت گزارا کرتے، مکہ میں اس وقت چند اور سلیم الطبع افراد بھی تھے، جنہیں قوم کی یہ حرکتیں پسند نہ تھیں، وہ اس فکری ہم آہنگی کی بدولت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شریک صحبت رہتے، ان میں بنو تیم کے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی تھے جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دو سال چھوٹے تھے، وہ بھی اپنی قوم کی ذہنی گراوٹ پر افسوس کرتے، بعثت کے بعد ان لوگوں میں سب سے پہلے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا۔
اسی طرح حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بھتیجے حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ بھی قریش کے ایک معزز فرد تھے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پانچ سال بڑے تھے، لیکن فطری طور پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہم آہنگ تھے، فتح مکہ کے بعد انہوں نے اسلام قبول کیا، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک دوست ضماد بن ثعلبہ رضی اللہ عنہ بھی تھے، جن کا پیشہ طب اور جراحی تھا، بعثت کے بعد قریش نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مجنون مشہور کردیا تو وہ آپ کے علاج کی خاطر ملنے کے لئے آئے، ان کے پوچھنے پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چند آیاتِ قرآنی کی تلاوت فرمائی جنہیں سن کر وہ ایمان لائے۔
حضرت صہیب بن سنان رومی رضی اللہ عنہ اور حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ بھی بت پرستوں سے نفرت کرتے تھے، مکہ کے دیگر ہم خیال حضرات میں حضرت عثمان بن عفان، زبیر بن عوام، عبدالرحمن بن عوف، سعد بن ابی وقاص، جعفر بن ابو طالب، عبیداللہ بن جحش اور ابو سلمہ رضی اللہ عنہم شامل ہیں۔ مکہ سے باہر بنی غفار کے سردار ابو ذر رضی اللہ عنہ بھی ہم فکر تھے۔ عرب کے باہر سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے ایران سے تلاش حق میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر اسلام قبول کیا۔
گو کہ کعبہ تین سو ساٹھ بتوں کی آماجگاہ بن چکا تھا، لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی بُتوں کے آگے سر نہیں جھکایا اور نہ کبھی دیگر رسوم جاہلیت میں شرکت کی، قریش نے اس بناء پر کہ خود کو عام لوگوں سے ممتاز رہنا چاہئیے، یہ قاعدہ قرار دیا تھا کہ ایام حج میں قریش کے لئے عرفات جانا ضروری نہیں اور یہ کہ جو لوگ باہر سے آئیں وہ قریش کا لباس اختیار کریں ورنہ ان کو عریاں ہو کر کعبہ کا طواف کرنا ہوگا، چنانچہ اسی بناء پر طواف عریاں کا عام رواج ہوگیا تھا، لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان باتوں میں کبھی اپنے خاندان کا ساتھ نہ دیا۔
عہد جاہلیت میں عرب میں افسانہ گوئی کا عام رواج تھا، راتوں کو لوگ تمام کاموں سے فارغ ہو کر کسی مقام میں جمع ہوتے، ایک شخص جس کو اس فن میں کمال ہوتا تھا، داستان شروع کرتا تھا، لوگ بڑے ذوق و شوق سے رات رات بھر سنتے تھے، بچپن میں ایک دفعہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی اس جلسہ میں شریک ہونا چاہا تھا، لیکن اتفاق سے راہ میں شادی کا کوئی جلسہ تھا, دیکھنے کے لئے کھڑے ہو گئے، وہیں نیند آگئی، اٹھے تو صبح ہو چکی تھی۔ ایک دفعہ اور ایسا ہی اتفاق ہوا، چالیس برس کی مدت میں صرف دو دفعہ اس قسم کا ارادہ کیا، لیکن دونوں دفعہ ہی توفیق الٰہی نے بچا لیا کہ اللہ کے نبی کی شان ان مشاغل سے بالاتر ہوتی ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شراب کو کبھی منہ نہ لگایا، آستانوں کا ذبیحہ نہ کھایا اور بتوں کے لیے منائے جانے والے تہوار اور میلوں ٹھیلوں میں کبھی شرکت نہ کی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شروع ہی سے ان باطل معبودوں سے اتنی نفرت تھی کہ ان سے بڑھ کر آپ کی نظر میں کوئی چیز مبغوض نہ تھی، حتیٰ کی لات وعزیٰ کی قسم سننا بھی آپ کو گوارا نہ تھا، تاہم لوگوں کا جو کام اچھا ہوتا اس میں شرکت فرماتے، مثلاً قریش جاہلیت میں عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی یہ روزہ رکھتے تھے۔
یہ فطرت سلیم اور نیک سرشتی کا تقاضا تھا، لیکن ایک شریعت کبریٰ کی تاسیس کے لئے کچھ اور درکار تھا، اسی زمانہ میں دیگر افراد (ورقہ، زید، عثمان بن حویرث) تلاش حق میں سرگرداں تھے، ان کے دل میں خیال آیا کہ بتوں کے آگے سر جھکانا حماقت ہے، چنانچہ سب مذہب حق کی تلاش کے لئے نکلے، لیکن ناکامی ہوئی، ورقہ اور عثمان عیسائی ہوگئے اور زید یہ کہتے کہتے مر گئے۔ "اے خدا! اگر مجھ کو یہ معلوم ہوتا کہ تجھ کو کس طرح سے پوجنا چاہئے تو میں اسی طریقے سے تجھ کو پوجتا۔''
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی ہمیشہ یہ فکر دامن گیر رہتی، طبیعت تنہائی کی طرف مائل ہونے لگی، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ کے مزاج کو سمجھتی تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی بے چین فطرت کی آسودگی کے لئے شہر اور ان کے ہنگاموں سے دور پہاڑوں کی طرف نکل جانے لگے۔
==================> جاری ہے ۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں