خطبہ جمعہ مسجد الحرام: بلیک میلنگ کی قباحتیں.. بمطابق 04 اکتوبر 2019


خطبہ جمعہ مسجد الحرام 
موضوع:  بلیک میلنگ کی قباحتیں
بتاریخ: 5 صفر 1441 بمطابق 04 اکتوبر 2019
امام و خطیب: فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر سعود بن ابراہیم الشریم
ترجمہ: فرہاد احمد سالم

فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر سعود بن ابراہیم الشریم حفظہ اللہ تعالی نے مسجد حرام میں 5 صفر 1441 کا خطبہ " بلیک میلنگ کی قباحتیں " کے عنوان پر ارشاد فرمایا جس میں انہوں نے کہا کہ: بلیک میلنگ ایک جارحانہ کام ہے جس کے پیچھے غیر قانونی اور ذاتی خواہشات کو پانے کا حد سے زیادہ گھمنڈ ہوتا ہے ، یہ دھوکے کا ایک تیز ہتھیار ہے جسے بزدل اور کمزور لوگ اپنا اخلاقی اور مادی شکار کرنے کے لیے اٹھاتے ہیں۔ ۔ بلیک میلنگ برا اخلاق اور گھٹیا کام ہے ،جو کہ بد طینت نفس اور سفاک دلی کی دلیل ہے ۔ بلیک میلر لوگوں کو ان کے معاملات کو ظاہر کر دینے کی دھمکی دیتا ہے ، جس کی وجہ سے آدمی اس کے سامنے بے بس ہو جاتا ہے اور چار و ناچار اس کے مطالبات پورے کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ بلیک میلر ایک مغرور شخص ہوتا ہے جو اپنے شکار کے نقصانات کی پرواہ کیے بغیر اپنی ذاتی خواہشات کی تکمیل چاہتا ہے ۔ بلیک میلر میں انسانیت نہیں ہوتی، بلکہ وہ انسانی جسم میں سرکش شیطان ہوتا ہے۔ ہمارے موجودہ دور میں سب سے زیادہ بلیک میلنگ اخلاق اور آبرو کے معاملے میں ہوتی ہے۔ بلیک میلنگ کے معاملات میں نوٹ کیا گیا ہے کہ عموماً نوجوان لڑکے نوجوان لڑکیوں کو بلیک میل کرتے ہیں ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ نوجوان لڑکوں میں جوشِ جوانی ہوتا ہے اور لڑکیوں میں جذبات ، اس سلسلے میں دونوں فریق اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش نہیں ہو سکتے، بہرحال یہ ایک اخلاقی جرم ہے ۔ بلیک میلنگ کا مقابلہ کسی خاص فرد کی ذمہ داری نہیں بلکہ یہ تو پورے معاشرے کی ذمہ داری ہے۔



تمام تعریفیں اللہ تعالی کے لیے ہیں ، جو گناہوں کو بخشنے والا ، توبہ قبول کرنے والا، سخت عذاب دینے والا اور صاحب قوت ہے ، اس کے سوا کوئی معبود نہیں نیز اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔

اللہ تعالی نے انسان کو پیدا کیا اور اس کے اعضا ء کو درست کیا، اس کا تخمینہ لگایا اور اس کو راستہ دکھایا۔ اسی کے لیے تمام تعریفیں ہیں اور اسی کے ہاتھ میں ساری بھلائیاں ہیں، نیز اسی کی طرف تمام معاملات لوٹائے جاتے ہیں ، اسی کے لیے دنیا و آخرت کی تعریفیں ہیں، اسی کی بادشاہی ہے اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے۔

میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ، وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔ اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں ، آپ ﷺ متقین کے امام اور جہانوں کے سردار ہیں۔ اللہ نے آپ کو ہدایت اور کھلی نشانیاں دے کر مبعوث فرمایا ، آپ ﷺ تا قیامت سارے جہانوں کے لیے رحمت اور نمونہ ہیں ۔

اللہ تعالی آپ ﷺ پر ، آپ کی پاکیزہ آل ، مومنوں کی مائیں آپ کی بیویاں ، نیز آپ کے روشن بابرکت صحابہ ، اور اچھے طریقے سے قیامت تک ان کی پیروی کرنے والوں پر درود اور کثرت سے سلامتی نازل فرمائے۔

حمد و صلاۃ کے بعد!

اللہ کے بندو! میرے اور آپ کے لیے ،خلوت و جلوت، اقوال و افعال ، اور غضب و رضا مندی میں اللہ جل جلالہ کے تقوی اور اس کی خشیت کی وصیت کی گئی ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے: 
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ وَجَاهِدُوا فِي سَبِيلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ} [المائدة: 35]
 اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف قرب تلاش کرو اور اس کے راستے میں جہاد کرو، تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔

اللہ کے بندو!
 مجموعی طور پر لوگ اس وقت تک الفت ، باہمی محبت ، آپس میں رحم و کرم ، اور خوشحالی میں ہوتے ہیں ، جب تک کہ ان پر سخت فحش زبانیں ، اور تکلیف دینے والے ہاتھ مسلط نہیں ہو جاتے۔ اس لیے کہ زبان اور ہاتھ دو ایسے کدال ہیں، جو معاشرے کی سیسہ پلائی ہوئی عمارت کو ڈھانے اور ان میں دراڑیں ڈالنے کے ذمہ دار ہیں ۔

جس قدر معاشرے کی دیوار پر ان دو کدالوں کی مار ہو گی تو اسی قدر اس معاشرے میں نفسیاتی اور عملی استحکام ہو گا ۔ اسی لیے ہمارے نبی ﷺ نے عمومی طور پر لوگوں اور خاص طور پر ہر فرد کے لئے زبان اور ہاتھ کے اثرات کو بیان کیا ، اور بتایا کہ ہاتھ اور زبان والوں کے لیے اسلام اور ایمان کا یہ وصف کیا معنی رکھتا ہے۔

چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا :
( الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ، وَالْمُؤْمِنُ مَنْ أَمِنَهُ النَّاسُ عَلَى دِمَائِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ) 
مسلمان (کامل ) وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ (کے شر) سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں، اور مومن (کامل ) وہ ہے جس سے لوگ اپنی جانوں اور اپنے مالوں کو محفوظ سمجھیں'۔ ( اسے احمد نے روایت کیا ہے اور اس کی اصل صحیحین میں ہے۔)

اللہ کے بندو !
یہ بات جان لینی چاہیے کہ ہاتھ اور زبان کے ذریعے سب سے بری چیز جو لوگوں میں واقع ہوتی ہے وہ مکروہ کام اور برا تنازعہ ہے ، یہ دونوں چیزیں سیاہ دل میں قرار پکڑتی ہیں ۔ چنانچہ ان برائیوں میں مبتلا شخص دوسروں کی کمزوری کو بلیک میلنگ اور استحصالی کے ذریعے اپنی سیڑھی بناتا ہے ، تاکہ اس پر چڑھ کر اپنے قبیح مقاصد اور برے اہداف حاصل کر سکے۔

اللہ کے بندو!
 بلیک میلنگ وہ تیز ہتھیار ہے جسے بزدل اور کمزور لوگ اپنا اخلاقی اور مادی شکار کرنے کے لیے اٹھاتے ہیں۔ یہ دھوکے کا ہتھیار ہے نہ کہ مدافعت کا ، کیونکہ اسے کبھی بھی بہادر ، طاقتور ، اور درست لوگوں کے ہتھیاروں میں شمار نہیں کیا گیا۔

اللہ کے بندو!
 بلیک میلنگ (استحصالی ) ایک جارحانہ کام ہے، جس کے پیچھے غیر قانونی اور ذاتی خواہشات کو پانے کا حد سے زیادہ گھمنڈ ہوتا ہے۔ چنانچہ بلیک میلر کی معاملات کو ظاہر کر دینے کی دھمکیوں کے آگے آدمی بے بس ہو جاتا ہے اور چار و ناچار اس کے مطالبات کے آگے جکھنے پر مجبور ہو جاتا ہے ۔ کیونکہ آدمی یہ گوارا نہیں کرتا کہ لوگوں کے سامنے اس کا راز کھلے ، اس لئے بادل نا خواستہ اس کے سامنے جھکنے پر مجبور ہو جاتا ہے، تاکہ اس خبیث انسان سے خود کو بچا سکے، جو جانتا ہے کہ اسے اپنے گھوڑے کی لگام کہاں سے کھینچنی ہیں ۔

اللہ کی قسم، یہ منحوس دباؤ ہے جس سے ہمارے رسول ﷺ نے بھی پناہ مانگی ہے ،آپ ﷺ فرماتے تھے:
 «اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الهَمِّ وَالحَزَنِ، وَالعَجْزِ وَالكَسَلِ، وَالبُخْلِ وَالجُبْنِ، وَضَلَعِ الدَّيْنِ، وَغَلَبَةِ الرِّجَالِ»
 "اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں غم اور پریشانی سے، عاجزی اور کاہلی سے، بخل اور بزدلی سے، قرضے کے بوجھ اور لوگوں کے دباؤ سے۔ (اسے بخاری نے روایت کیا ہے)

بلیک میلنگ برا اخلاق اور گھٹیا کام ہے ،جو کہ بد طینت نفس اور سفاک دلی کی دلیل ہے ۔ یہ ایک ایسی خصلت ہے جو کہ سختی ، انتقام، اور استحصال سے بھری ہے، بلاشبہ یہ جھوٹا غلبہ اور جھوٹی فتح ہے۔

بلیک میلنگ ایک ایسی خصلت ہے، کہ جس کا نہ کوئی دین ہے اور نہ کوئی مذہب، چنانچہ بلیک میلر کسی کمزوری میں نہ قرابت کا خیال کرتا ہے اور نہ عہد و پیمان کا۔

اللہ کے بندو ! 
بلیک میلنگ ایک وسیع میدان ہے جس میں مختلف طرح کے لوگ شامل ہوتے ہیں، لیکن کم ظرفی ، شدت ، دشمنی، خود پسندی، اور دوسروں کے شانوں پر چڑھنے میں یہ سب مشترک ہوتے ہیں۔

بلیک میلنگ صرف عداوت اور مخاصمت سے ہی خاص نہیں، بلکہ عین ممکن ہے کہ شوہر اپنی بیوی کے ساتھ ، بہن اپنے بھائی کے ساتھ، اور دوست اپنے دوست کے ساتھ اس میں ملوث ہو ۔اس لئے کہ جب نفس خبیث ہو جاتا ہے تو اس کو کوئی لگام نہیں ہوتی ، اور پھر اس کے سامنے دوست دشمن برابر ہو جاتے ہیں۔ مگر جس پر اللہ تعالی رحم کرے ،جنہوں نے آپﷺ کی بات سنی، اسے سمجھا اور جو سنا اس پر عمل بھی کیا۔

(عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ صَعِدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمِنْبَرَ فَنَادَى بِصَوْتٍ رَفِيعٍ فَقَالَ يَا مَعْشَرَ مَنْ أَسْلَمَ بِلِسَانِهِ وَلَمْ يُفْضِ الْإِيمَانُ إِلَى قَلْبِهِ لَا تُؤْذُوا الْمُسْلِمِينَ وَلَا تُعَيِّرُوهُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا عَوْرَاتِهِمْ فَإِنَّهُ مَنْ تَتَبَّعَ عَوْرَةَ أَخِيهِ الْمُسْلِمِ تَتَبَّعَ اللَّهُ عَوْرَتَهُ وَمَنْ تَتَبَّعَ اللَّهُ عَوْرَتَهُ يَفْضَحْهُ وَلَوْ فِي جَوْفِ رَحْلِهِ)
 عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ منبر پر تشریف لائے ، بلند آواز سے پکارا اور فرمایا:' اے ان لوگوں کی جماعت جو زبانی اسلام لائے ہیں مگر ان کے دلوں تک ایمان نہیں پہنچا ہے! مسلمانوں کو تکلیف مت دو، ان کو عار مت دلاؤ اور ان کے عیب نہ تلاش کرو، اس لیے کہ جو شخص اپنے مسلمان بھائی کے عیب ڈھونڈتا ہے ، اللہ تعالیٰ اس کا عیب ڈھونڈتا ہے ، اور اللہ تعالیٰ جس کے عیب ڈھونڈتا ہے ، اسے رسوا و ذلیل کر دیتا ہے، اگرچہ وہ اپنے گھر کے اندر ہو 

اللہ کے بندو! 
ہمارے موجودہ دور میں سب سے زیادہ بلیک میلنگ اخلاق اور آبرو کے معاملے میں ہوتی ہے۔ یہ سنگین دروازہ ہے، ممکن ہے کہ بلیک میلر اس سے داخل ہو اور اس کا شکار اس کے آگے گھٹنے ٹیک دے۔ بالخصوص سوشل میڈیا کے جدید دور میں کہ جس میں مکاری، پھنساؤ اور دھوکہ عام ہے، اور لوگوں کی عزت و آبرو اس طرح پامال کی جاتی ہے، جیسے پاگل بھیڑیے اور چور لوگوں کی دیواروں پر بے خوف پھرتے ہیں۔

اور اس میں کوئی شک نہیں کہ عزت اور آبرو کا شمار ضروریات خمسہ میں ہوتا ہے، جن کی حفاظت پر تمام مذاہب کا اتفاق ہے، اس لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ بلیک میلر اس ضرورت کی خلاف ورزی کرنے والا، اور معاشرے کے اخلاقی امن کو ختم کرنے والا ہوتا ہے۔

پس بلیک میلر ڈکیت، چور اور حملہ آور فاجر ہوتا ہے ۔ابن قیم ؒ اس اور اس جیسوں کی حقیقت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: کہ خواہش نفس اس کا امام ، شہوت اس کا قائد ، جہالت اس کی رہنما اور غفلت اس کی سواری ہوتی ہے، نیز وہ اپنے دنیاوی اغراض کے حصول میں غرق ، خواہش نفس کے نشے اور دنیا کی محبت میں مست رہتا ہے، اور ہر سرکش شیطان کی پیروی کرتا ہے۔

اللہ کے بندو !
 یہ بلیک میلر کی تصویر ہے ،وہ ایک مغرور شخص ہوتا ہے جو اپنے شکار کے نقصانات کی پرواہ کیے بغیر اپنی ذاتی خواہشات کی تکمیل چاہتا ہے ۔ اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے پاس وہ اچھی عادات نہیں ہیں کہ جس سے وہ بلیک میلنگ کے بغیر، قانونی طریقے سے اپنی ضروریات پوری اور خواہشات کی تکمیل کر سکے۔ چنانچہ وہ بھوکے بھیڑیے کی شکل میں بدل جاتا ہے اور پھر بلیک میلنگ کے دانت اور انانیت کے پنجے نکال کر کاٹ کھانے کو دوڑتا ہے۔ بلیک میلر میں انسانیت نہیں ہوتی، بلکہ وہ انسانی جسم میں سرکش شیطان ہوتا ہے۔

اللہ کے بندو!
 بلیک میلنگ متعدی فعل ہے، جو دوسرے جرائم تک لے جاتا ہے، یہ بسا اوقات مال چھیننے سے شروع ہوتا ہے اور جسمانی اذیت پر ختم ہوتا ہے، اسی لیے یہ ایک کھارے پانی کی طرح ہوتا ہے کہ جب بھی پیاسا اسے پیتا ہے اس کی پیاس بڑھتی چلی جاتی ہے۔

بلیک میلر صرف ایک دفعہ پر ہی اکتفا نہیں کرتا، اور اس کا شکار یہ سوچ کر گھٹنے ٹیک دیتا ہے کہ یہ بلیک میلنگ آخری دفعہ ہے، لیکن اچانک وہ دیکھتا ہے کہ وہ تو بلیک میلنگ کے ایک زاویے سے نکل کر دوسرے سے باندھ دیا گیا ہے۔ اور بلیک میلر اسی حساب سے بلیک میلنگ میں بڑھتا چلا جاتا ہے، وہ ابتدا میں اونچے مطالبات نہیں رکھتا ، یہاں تک کہ جرائم میں اندر تک گھس جاتا ہے، اور پھر شکار کو پوری طرح زخمی کر دیتا ہے۔

بلیک میلنگ کے معاملات میں کثرت اور تنوع کے باوجود نوٹ کیا جاتا ہے کہ عموماً نوجوان لڑکے نوجوان لڑکیوں کو بلیک میل کرتے ہیں ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ نوجوان لڑکوں میں جوش جوانی ہوتا ہے اور لڑکیوں میں جذبات۔ اور بھلا جذبات کب جوانی کا مقابلہ کر سکتے ہیں ، بلکہ یوں سمجھیے کہ قیدی قید کرنے والے کی بیڑیوں کو کیسے کھول سکتا ہے، جبکہ وہ جذباتی وعدوں اور دھوکے کے میدانوں میں داخل ہو چکا ہو۔

اگرچہ نوجوان لڑکے مجرم اور بڑی غلطی پر ہیں، لیکن ان کا یہ جرم نوجوان لڑکیوں کو ان کی ذمہ داری سے سبکدوش نہیں کرتا، کہ جب ایک لڑکی اپنے اعتماد اور عزت کو ایک ایسے شخص کے سامنے پھینکتی ہے کہ جس کے اخلاق ، دین اور امانت کو وہ جانتی ہی نہیں ۔ اور پھر ایسا کیوں نہ ہو ، کہ اسی نے تو حقیقت سے ہٹ کر ظاہر سے دھوکا کھایا اور دل کے فریب پر بھروسہ کر بیٹھی ۔

اس میں تو کوئی تعجب کی بات نہیں کہ اس نے اپنی قبر آپ ہی کھودی ہے۔ اور جو اپنے گھر کا دروازے مضبوطی سے بند نہیں کرتا تو یقیناً وہ اسے چوروں کے نشانے پر چھوڑ دیتا ہے۔

بلیک میلر کو بلیک میلنگ پر ابھارنے والی چیز شکار کو حقیر اور کمزور سمجھنا ہی ہے ،اگر ایسا نہ ہو تو وہ کبھی اپنا گمشدہ مال نہ پاسکے ۔ بلیک میلر کے دل میں اتری ہوئی برائی کی دلیل کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ لوگوں کے بھیدوں اور مخصوص معاملات کا سودا کرتا ہے ۔ اس لیے کہ آدمی جب برا ہوتا ہے تو وہ دوسروں کو حقیر سمجھتا ہے اور پھر ان کی حرمتوں کی پرواہ بھی نہیں کرتا۔

جیسے کہ نبی مصطفی  ﷺ نے فرمایا : 
«بِحَسْبِ امْرِئٍ مِنَ الشَّرِّ أَنْ يَحْقِرَ أَخَاهُ الْمُسْلِمَ، كُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ حَرَامٌ، دَمُهُ، وَمَالُهُ، وَعِرْضُهُ»
 "کسی آدمی کے برے ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کی تحقیر کرے، ہر مسلمان پر (دوسرے) مسلمان کا خون، مال اور عزت حرام ہیں۔" ۔(اسے مسلم نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔)

بلیک میلنگ اپنے تمام مفہوم میں ایذا رسانی سے باہر نہیں ہے، عقل مندوں نے جب بھی اس کی چھان بین کی تو اس کو تکلیف کے دائرہ سے باہر نہیں پایا۔ اللہ تبارک و تعالی کا فرمان ہے:
 {وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوا فَقَدِ احْتَمَلُوا بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُبِينًا} [الأحزاب: 58] 
اور جو لوگ مومن مردوں اور عورتوں کو ان کے کسی قصور کے بغیر دکھ پہنچاتے ہیں تو انہوں نے بہتان اور صریح گناہ کا بار اٹھا لیا۔

جان لیجئے ! بہت سے فکر مند لوگوں نے بلیک میلنگ کے بارے میں بہت سی گفتگو کی ہے ، بعض نے تو بہت گہری اور بعض نے طویل، ان میں سے کچھ نے اس کو مشکل سے تعبیر کیا ہے اور بعض نے ظاہری رجحان سے۔ یہ جو کچھ بھی ہو بہرحال یہ ایک اخلاقی جرم ہے ، اور مسلم معاشرے کے عقلمند لوگوں پر واجب ہے کہ اس کا نوٹس لیں ۔ ان کو یہ بات بھی معلوم ہونی چاہیے کہ دوا تب ہی فائدہ دے گی کہ جب بیماری اور اس کے اسباب کی صحیح تشخیص ہو گی ۔ اسی طرح یہ بات بھی معلوم ہونی چاہیے کہ بلیک میلنگ کا مقابلہ کسی خاص فرد کی ذمہ داری نہیں بلکہ یہ تو پورے معاشرے کی ذمہ داری ہے ، چنانچہ ہر آدمی کو اپنی ذمہ داری کے بقدر اس کا مقابلہ کرنا ہو گا ۔ پس خاندان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس میں شامل لوگوں کو آگاہ کریں، اسی طرح مدارس، تعلیم یافتہ لوگ اور امن و امان کے ذمہ داروں کی بھی ذمی داری ہے۔

بلیک میلنگ کا علاج امنیت ، اخلاقی اور تربیتی ہر سطح پر کرنا ہو گا ،ان میں سے ہر ایک دوسرے کی تکمیل کے لئے ضروری ہے ، اور صرف امنیت ، اخلاقی اور تربیتی گوشہ ہی کافی نہیں ، رہی امنیت کے اعلاج کی بات ہے تو وہ واقع ہونے کے بعد کا اعلاج ہے ، اور جہاں تک اخلاقی اور تربیتی اعلاج کی بات ہے تو وہ واقع ہونے سے پہلے کا علاج ہے ۔اس لئے اگر اسے ختم نہ کیا جا سکے تو کم سے کم اسے روکنا تو ضروری ہے ، نیز تمام عقلمندوں کا اس بات پر اکتفا ہے کہ پرہیز علاج سے بہتر ہے ۔

میں اسی پر اکتفا کرتا ہوں ، اپنے لئے اور آپ سب اور تمام مسلمان مردوں اور عورتوں کے لئے اللہ تعالی سے مغفرت طلب کرتا ہوں ، آپ بھی اسی سے توبہ کریں ، بےشک وہ بہت معاف کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں