سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔ قسط: 46
کھلی دعوت کا پہلا حکم:
جب مومنین کی ایک جماعت اخوت وتعاون کی بنیاد پر قائم ہوگئی جو اللہ کا پیغام پہنچانے اور اس کو اس کا مقام دلانے کا بوجھ اٹھا سکتی تھی تو وحی نازل ہوئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مکلف کیا گیا کہ اپنی قوم کو کھلم کھلا دعوت دیں اور ان کے باطل کا خوبصورتی کے ساتھ رد کریں، اس کے بعد سورہ شعراء کی آیت ۲۱۴ اور ۲۱۵ نازل ہوئیں۔
"اور اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم! آپ اپنے نزدیک ترین قرابتداروں کو (عذاب الٰہی سے) ڈرایئے اور جو مؤمن آپ کے پیچھے چلیں اُن کے لیے انکساری کے ساتھ اپنی شفقت کا بازو جھکادیں۔"(سورہ شعراء:۲۱۴، ۲۱۵)
ان آیات کے نازل ہونے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بلا کر کہا: "اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں اپنے قریب ترین رشتہ داروں کے سامنے اپنی دعوت پیش کروں، اس لئے ایک دعوت کا اہتمام کرو اور بنی عبد المطلب کو اس میں شرکت کے لئے بلا بھیجو۔"
چنانچہ تقریباً چالیس پینتالیس اہل خاندان جمع ہوئے، بعد طعام ابولہب نے بات لپک لی اور بولا: "دیکھو! یہ تمہارے چچا اور چچیرے بھائی ہیں، بات کرو لیکن نادانی چھوڑدو اور یہ سمجھ لو کہ تمہارا خاندان سارے عرب سے مقابلے کی تاب نہیں رکھتا اور میں سب سے زیادہ حق دار ہوں کہ تمہیں پکڑلوں، پس تمہارے لیے تمہارے باپ کا خانوادہ ہی کافی ہے اور اگر تم اپنی بات پر قائم رہے تو یہ بہت آسان ہوگا کہ قریش کے سارے قبائل تم پر ٹوٹ پڑیں اور بقیہ عرب بھی ان کی مدد کریں، پھر میں نہیں جانتا کہ کوئی شخص اپنے باپ کے خانوادے کے لیے تم سے بڑھ کر شر (اور تباہی) کا باعث ہوگا۔"
اس پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خاموشی اختیار کرلی اور اس مجلس میں کوئی گفتگو نہ کی، ابولہب کے کہنے پر سب لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات سنے بغیر ہی منتشر ہو گئے، چنانچہ دوسرے دن پھر ضیافت کی گئی، کھانے کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطاب فرمایا:
"اے بنی عبدالمطلب! مجھے کسی ایسے عرب جوان کا علم نہیں جو اپنی قوم کے لئے میری لائی ہوئی دعوت سے بہتر دعوت لایا ہو، یہ دین حق کی دعوت ہے، ساری حمد اللہ کے لیے ہے، میں اس کی حمد کرتا ہوں اور اس سے مدد چاہتا ہوں، اس پر ایمان رکھتا ہوں، اسی پر بھروسہ کرتا ہوں اور یہ گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی لائقِ عبادت نہیں، وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔"
پھر آپ نے فرمایا:
"رہنما اپنے گھر کے لوگوں سے جھوٹ نہیں بول سکتا، اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں میں تمہاری طرف خصوصاً اور لوگوں کی طرف عموماً اللہ کا رسول (فرستادہ) ہوں، واللہ! تم لوگ اسی طرح موت سے دوچار ہوگے جیسے سو جاتے ہو اور اسی طرح اٹھائے جاؤ گے جیسے سو کر جاگتے ہو، پھر جو کچھ تم کرتے ہو اس کا تم سے حساب لیا جائے گا، اس کے بعد یا تو ہمیشہ کے لیے جنت ہے یا ہمیشہ کے لیے جہنم۔"
اس پر حضرت ابو طالب نے کہا: "(نہ پوچھو ) ہمیں تمہاری معاونت کس قدر پسند ہے، تمہاری نصیحت کس قدر قابلِ قبول ہے اور ہم تمہاری بات کس قدر سچی جانتے اور مانتے ہیں اور یہ تمہارے والد کا خانوادہ جمع ہے اور میں بھی ان کا ایک فرد ہوں، فرق اتنا ہے کہ میں تمہاری پسند کی تکمیل کے لیے ان سب سے پیش پیش ہوں، لہٰذا تمہیں جس بات کا حکم ہوا ہے اسے انجام دو، واللہ! میں تمہاری مسلسل حفاظت واعانت کرتا رہوں گا، البتہ میری طبیعت عبدالمطلب کا دین چھوڑنے پر راضی نہیں۔"
ابو لہب نے کہا: "اللہ کی قسم! برائی ہے، اس کے ہاتھ دوسروں سے پہلے تم لوگ خود ہی پکڑ لو۔"
اس پر حضرت ابوطالب نے کہا: "اللہ کی قسم! جب تک جان میں جان ہے، ہم ان کی حفاظت کرتے رہیں گے۔"
دفعتاً حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اُٹھ کر کہا: "گو مجھ کو آشوب چشم ہے، گو میری ٹانگیں پتلی ہیں اور میں سب سے نوعمر ہوں، تاہم میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ساتھ دوں گا۔"
(طبری، جلد ۳)
اس کے بعد سورہ حجر کی آیت ۹۴ کے ذریعہ علانیہ تبلیغ کا حکم نازل ہوا:
"پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس حکم کو جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا جارہا ہے، کھول کر سنا دیجئے اور مشرکوں سے منہ پھیر لیجئے۔" (سورہ حجر: ۹۴)
==================> جاری ہے ۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں