پہلی ہجرتِ حبشہ اور ایک غلط فہمی:
''جن لوگوں نے اس دنیا میں اچھائی کی، ان کے لیے اچھا ئی ہے اور اللہ کی زمین کشادہ ہے، صبر کرنے والوں کو ان کا اجر بلا حساب دیا جائے گا۔" (۳۹: ۱۰ )
ادھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معلوم تھا کہ "اَصحَمَہ" نجاشی شاہ حبش ایک عادل بادشاہ ہے، وہاں کسی پر ظلم نہیں ہوتا، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ فتنوں سے اپنے دین کی حفاظت کے لیے حبشہ ہجرت کر جائیں۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی 9/9)
اس کے بعد ایک طے شدہ پروگرام کے مطابق رجب 5 نبوی میں صحابہ کرام کے پہلے گروہ نے حبشہ کی جانب ہجرت کی، اس گروہ میں بارہ مرد اور چار عورتیں تھیں، حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ ان کے امیر تھے اور ان کے ہمراہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادی حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا بھی تھیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے بارے میں فرمایا کہ حضرت ابراہیم اور حضرت لوط علیہما السلام کے بعد یہ پہلا گھرانہ ہے، جس نے اللہ کی راہ میں ہجرت کی۔
یہ لوگ رات کی تاریکی میں چپکے سے نکل کر اپنی نئی منزل کی جانب روانہ ہوئے، رازداری کا مقصد یہ تھا کہ قریش کو اس کا علم نہ ہوسکے، رُخ بحر احمر کی بندرگاہ شُعَیْبَہ کی جانب تھا، خوش قسمتی سے وہاں دو تجارتی کشتیاں موجود تھیں جو انہیں اپنے دامنِ عافیت میں لے کر سمندر پار حبشہ چلی گئیں، قریش کو کسی قدر بعد میں ان کی روانگی کا علم ہوسکا، تاہم انہوں نے پیچھا کیا اور ساحل تک پہنچے، لیکن صحابہ کرام آگے جاچکے تھے، اس لیے نامراد واپس آئے، ادھرمسلمانوں نے حبشہ پہنچ کر بڑے چین کا سانس لیا۔ (زاد المعاد 1/24)
مسلمانوں کے ساتھ مشرکین کا سجدہ اور مہاجرین کی واپسی:
لیکن اسی سال رمضان شریف میں یہ واقعہ پیش آیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک بار حرم تشریف لے گئے، وہاں قریش کا بہت بڑا مجمع تھا، ان کے سردار اور بڑے بڑے لوگ جمع تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک دم اچانک کھڑے ہو کر سورۂ نجم کی تلاوت شروع کردی، ان کفار نے اس سے پہلے عموماً قرآن سنا نہ تھا، کیونکہ ان کا دائمی وطیرہ قرآن کے الفاظ میں یہ تھا کہ:
''اس قرآن کو مت سنو اور اس میں خلل ڈالو (اودھم مچاؤ) تاکہ تم غالب رہو۔'' (۴۱: ۲۶)
لیکن جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اچانک اس سورۂ نجم کی تلاوت شروع کردی اور ان کے کانوں میں ایک ناقابل بیان رعنائی ودلکشی اور عظمت لیے ہوئے کلام الٰہی کی آواز پڑی تو انہیں کچھ ہوش نہ رہا، سب کے سب گوش برآواز ہوگئے، کسی کے دل میں کوئی خیال ہی نہ آیا، یہاں تک کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سورہ کے اواخر میں دل ہلا دینے والی آیات فرماکر اللہ کا یہ حکم سنایا کہ:
فَاسْجُدُوْا لِلَّہِ وَاعْبُدُوْا O
''اللہ کے لیے سجدہ کرو اور اس کی عبادت کرو.." (۵۳: ۶۲ )
''اللہ کے لیے سجدہ کرو اور اس کی عبادت کرو.." (۵۳: ۶۲ )
اور اس کے ساتھ ہی سجدہ فرمایا تو کسی کو اپنے آپ پر قابو نہ رہا اور سب کے سب سجدے میں گر پڑے، حقیقت یہ ہے کہ اس موقع پر حق کی رعنائی وجلال نے متکبرین ومستہزئین کی ہٹ دھرمی کا پردہ چاک کردیا تھا، اس لیے انہیں اپنے آپ پر قابو نہ رہ گیا اور وہ بے اختیار سجدے میں گر پڑے تھے۔
(صحیح بخاری میں اس سجدے کا واقعہ ابن مسعود اور ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مختصراً مروی ہے۔ دیکھئے: باب سجدۃ النجم اور باب سجود المسلمین والمشرکین ۱/۱۴۶ اور باب ما لقی النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واصحابہ بمکۃ ۱/۵۴۳)
لیکن بعد میں جب انہیں احساس ہوا کہ کلامِ الٰہی کے جلال نے ان کی لگا م موڑ دی اور وہ ٹھیک وہی کام کر بیٹھے، جسے مٹانے اور ختم کرنے کے لیے انہوں نے ایڑی سے چوٹی تک کا زور لگا رکھا تھا اور اس کے ساتھ ہی اس واقعے میں غیر موجود مشرکین نے ان پر ہر طرف سے عتاب اور ملامت کی بوچھاڑ شروع کی تو ان کے ہاتھ کے طوطے اُڑ گئے اور انہوں نے اپنی جان چھڑانے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر یہ افتراء پردازی کی اور یہ جھوٹ گھڑا کہ آپ نے ان بتوں کا ذکر عزت واحترام سے کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ:
تلک الغرانیق العلی وان شفاعتھن لترتجی۔
''یہ بلند پایہ دیویاں ہیں اور ان کی شفاعت کی امید کی جاتی ہے..''
''یہ بلند پایہ دیویاں ہیں اور ان کی شفاعت کی امید کی جاتی ہے..''
حالانکہ یہ صریح جھوٹ تھا، جو محض اس لیے گھڑ لیا گیا تھا تاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سجدہ کرنے کی جو'' غلطی'' ہو گئی ہے اس کے لیے ایک ''معقول'' عذر پیش کیا جاسکے اور ظاہر ہے کہ جو لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ہمیشہ جھوٹ گھڑتے اور آپ کے خلاف ہمیشہ دسیسہ کاری اور افتراء پردازی کرتے رہے تھے وہ اپنا دامن بچانے کے لیے اس طرح کا جھوٹ کیوں نہ گھڑتے۔
بہرحال مشرکین کے سجدہ کرنے کے اس واقعے کی خبر حبشہ کے مہاجرین کو بھی معلوم ہوئی، لیکن اپنی اصل صورت سے بالکل ہٹ کر، یعنی انہیں یہ معلوم ہوا کہ قریش مسلمان ہوگئے ہیں۔
چنانچہ انہوں نے ماہ شوال میں مکہ واپسی کی راہ لی، لیکن جب اتنے قریب آگئے کہ مکہ ایک دن سے بھی کم فاصلے پر رہ گیا تو حقیقت حال آشکارا ہوئی، اس کے بعد کچھ لوگ تو سیدھے حبشہ پلٹ گئے اور کچھ لوگ چھپ چھپا کر یا قریش کے کسی آدمی کی پناہ لے کر مکے میں داخل ہوئے۔
(زاد المعاد ۱/۲۴، ۲/۴۴، ابن ہشام ۱/۳۶۴)
(زاد المعاد ۱/۲۴، ۲/۴۴، ابن ہشام ۱/۳۶۴)
==================> جاری ہے ۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں