سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 40


سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔ قسط: 40 

تنہائی اور یکسوئی کا دور: 


آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اب تک کے تأملات نے قوم سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذہنی اور فکری فاصلہ بہت وسیع کردیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی قوم کے لچر پوچ شرکیہ عقائد اور واہیات تصورات پر بالکل اطمینان نہ تھا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے کوئی واضح راستہ، معین طریقہ اور افراط وتفریط سے ہٹی ہوئی کوئی ایسی راہ نہ تھی جس پر آپ اطمینان وانشراح قلب کے ساتھ رواں دواں ہو سکتے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تنہائی محبوب ہوگئی، جوں جوں آپ کی عمر چالیس سال کے قریب ہوتی گئی، تنہائی اورخلوت نشینی بڑھتی گئی۔

مکہ سے تین میل دور واقع جبل حِرا ہے، (جس کو آج کل جبل نور کہتے ہیں)، اس میں ایک غار "حرا" ہے، حِرا کے لفظی معنی تلاش وجستجو کے ہیں، اس غار کا طول چار گز اور عرض پونے دو گز تھا،  جس طرح بعض انبیائے ماسبق کی زندگی میں بعض پہاڑوں کی اہمیت ہے، اسی طرح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ میں دو پہاڑ یعنی جبل نور (حرا) اور جبل ثور کو بھی بڑی اہمیت حاصل ہے، جبل حِرا کی اس لئے کہ بعثت سے قبل آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دور تحنّث اسی پہاڑ پر گزرا تھا اور غار ثور کی اس سبب سے کہ مکہ سے مدینہ ہجرت کرکے جاتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین دن وہاں قیام فرمایا تھا۔

سابق انبیاء علیہم السلام میں حضرت آدم علیہ السلام اور حوا علیہا السلام کی ملاقات جبلِ رحمت پر ہوئی تھی، حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی جودی پہاڑ پر ٹھہری، صفا اور مروہ کی پہاڑیوں کو حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت ہاجرہ علیہا السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام سے خاص نسبت ہے، حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کوہِ طور سے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی کوہِ زیتون سے خاص نسبت ہے۔

غارِ حرا کو بڑی فضیلت اس لئے حاصل ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دور تحنّث یہیں گزارا اور یہیں حضرت جبریل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پہلی وحی لے کر آئے، یہ غار سطح زمین سے تقریباً دو ہزار فٹ کی اونچائی پر ہے، غار مستطیل شکل کا ہے اور قدرتاً کعبہ رخ ہے، اندر سے تقریباً چار گز لمبا، پونے دو گز چوڑا اور اتنا اونچا ہے کہ ایک آدمی کھڑا ہو کر آسانی سے نماز ادا کر سکتا ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غار حرا جا کر مہینوں قیام کرتے اور مراقبہ فرماتے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھانے پینے کا سامان ساتھ لے جاتے، وہ ختم ہو جاتا تو گھر تشریف لاتے اور پھر واپس جا کر مراقبے میں مصروف ہو جاتے۔

صحیح بخاری میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غارِ حرا میں تحنّث یعنی عبادت کیا کرتے تھے، یہ عبادت کیا تھی؟ شرح بخاری میں ہے: "یہ سوال کیا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عبادت کیا تھی؟ جواب یہ ہے کہ غور و فکر اور عبرت پذیری، یہ وہی عبادت تھی جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دادا ابراہیم علیہ السلام نے نبوت سے پہلے کی تھی، ستاروں کو دیکھا تو چونکہ تجلی کی جھلک تھی، چاند نکلا ہوا تو اور بھی شبہ ہوا، آفتاب پر اس سے زیادہ، لیکن جب سب نظروں سے غائب ہو گئے تو بے ساختہ پکار اُٹھے: "میں فانی چیزوں کو نہیں چاہتا، میں اپنا منہ اس کی طرف کرتا ہوں جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا۔" (سورۃ الانعام : ۷۹)

غار حرا میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دادا عبدالمطلب ماہِ رمضان میں اعتکاف کیا کرتے تھے،  حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ کیفیت حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کی ولادت کے بعد ہی سے شروع ہو چکی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دور تحنُّث پانچ سالوں پر محیط ہے۔

پانچ برس کا زمانہ اسی شوقِ عبادت اور توجہ الی اللہ میں گزرا، مگر آخری چھ مہینے میں گویا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمہ تن عبادت الہی اور غارِ حرا کی خلوت نشینی ہی میں مصروف رہے اور اسی چھ مہینے میں رویائے صادقہ کا سلسلہ بلا انقطاع جاری رہا۔

مستند روایات اور سوانح نگاروں کے بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان روحانی ترقیاتِ مدارج کے سلسلہ میں اولاً آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رویائے صادقہ (سچے خواب) پیش آنے لگے، رویائے صادقہ کو نبوت کا ۴۶ واں حصہ کہا جاتا ہے، بارہا ایسے خواب نظر آتے جن کی بعد میں جلد تعبیر نکل آتی، چالیس سال ہونے کو آئے تو قدرت کی طرف سے وحی و الہام کے لئے تیار کیا جانے لگا اور رسولِ اُمی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رب العالمین نے چاہا کہ "رحمتہ للعالمین" بنا دے۔


==================> جاری ہے ۔۔۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں