سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط:57


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط:57 

حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کا قبول اسلام:

جب مشرکین اپنی چال میں کامیاب نہ ہوسکے اور مہاجرینِ حبشہ کو واپس لانے کی کوشش میں منہ کی کھانی پڑی تو آپے سے باہر ہوگئے اور لگتا تھا کہ غیظ وغضب سے پھٹ پڑیں گے، چنانچہ ان کی درندگی اور بڑھ گئی، جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے تو اب مکہ میں جو مسلمان بچے کھچے رہ گئے تھے وہ بہت ہی تھوڑے تھے اور پھر صاحب شرف وعزت بھی تھے یا کسی بڑے شخص کی پناہ میں تھے، اس کے ساتھ ہی وہ اپنے اسلام کو چھپائے ہوئے بھی تھے اور حتی الامکان سرکشوں اور ظالموں کی نگاہوں سے دور رہتے تھے، مگر اس احتیاط اور بچاؤ کے باوجود بھی وہ ظلم وجور اور ایذاء رسانی سے مکمل طور پر محفوظ نہ رہ سکے۔

مکہ کی فضا ظلم وجور کے ان سیاہ بادلوں سے گھمبیر تھی کہ اچانک ایک بجلی چمکی اور مقہوروں کا راستہ روشن ہوگیا، یعنی حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ مسلمان ہوگئے، ان کے اسلام لانے کا واقعہ 6 نبوی کے اخیر کا ہے اور اغلب یہ ہے کہ وہ ماہ ذی الحجہ میں مسلمان ہوئے تھے۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خاص محبت تھی، وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دو تین سال بڑے تھے اور ساتھ کے کھیلے تھے، دونوں نے ثویبہ رضی اللہ عنہا کا دودھ پیا تھا اور اس رشتہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دودھ شریک بھائی تھے، وہ ابھی تک اسلام قبول نہیں کئے تھے، لیکن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہر ادا کو محبت کی نظر سے دیکھتے تھے۔

ان کا مذاقِ طبیعت شکار اور سپاہ گری تھا، ان کا معمول تھا کہ منہ اندھیرے تیر کمان لے کر نکل جاتے اور دن بھر کے شکار کے بعد شام میں واپس ہوتے تو پہلے حرم میں جاتے اور طواف کے بعد قریش کے سرداروں کے پاس جاتے جو صحنِ حرم میں بیٹھا کرتے تھے، اس طرح سب سے ان کی دوستی تھی اور سب ان کی قدر کرتے تھے۔

ایک روز آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صفا کی پہاڑی پر سے گزر رہے تھے کہ ابوجہل کا سامنا ہوا، وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ازلی دشمن تھا، اس نے آپ کو تنہا دیکھ کر گالیاں دیں اور سخت بدکلامی کی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاموش رہے اور کچھ بھی نہ کہا، لیکن اس کے بعد اس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سر پر ایک پتھر دے مارا، جس سے ایسی چوٹ آئی کہ خون بہہ نکلا، پھر وہ خانہ کعبہ کے پاس قریش کی مجلس میں جا بیٹھا۔

دور سے "عبداللہ بن جدعان" کی آزاد کردہ کنیز کوہ صفاء پر واقع اپنے مکان سے یہ سب دیکھ رہی تھی، جب حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ شکار سے واپس ہوئے تو اس کنیز نے سارا ماجرا سنایا، حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ غصے سے بھڑک اٹھے۔

یہ قریش کے سب سے طاقتور اور مضبوط جوان تھے، ماجرا سن کر کہیں ایک لمحہ رکے بغیر دوڑتے ہوئے اور مشتعل ہو کر ابوجہل کی تلاش میں نکلے تو دیکھا کہ وہ مسجد حرام میں بنی مخزوم کے حلقہ میں بیٹھا ہے، سیدھے وہیں پہنچے اور کہا: "تو میرے بھتیجے کو گالی دیتا ہے؟ (تیری اتنی جرات ؟.. لو) میں بھی اسی کے دین پر ہوں، (اب مجھے بھی گالی دے کر دکھاؤ)، اس کے بعد کمان اس کے سر پر اس زور کی ماری کہ اس کے سر پر زخم آگیا۔

اس پر ابوجہل کے قبیلے بنو مخزوم اور حضرت حمزہ کے قبیلے بنو ہاشم کے لوگ ایک دوسرے کے خلاف بھڑک اٹھے، لیکن ابوجہل نے یہ کہہ کر انہیں خاموش کردیا کہ ابوعمارہ کو جانے دو، میں نے واقعی اس کے بھتیجے کو بہت بُری گالی دی تھی۔

ابتدا میں حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کا اسلام محض اس حمیت کے طور پر تھا کہ ان کے عزیز کی توہین کیوں کی گئی؟ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حمایت میں انہوں نے اسلام کا اظہار تو کردیا، لیکن گھر پر آئے تو متردد تھے کہ آبائی دین کو دفعتاً کیوں کر چھوڑ دوں؟ تمام دن کی غور و فکر کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ دین حق یہی ہے، اس کے بعد حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں "دارِ ارقم" میں حاضر ہوئے اور کہا: "برادر زادے! خوش ہو جاؤ کہ میں نے ابوجہل سے آپ کا بدلہ لے لیا ہے۔"

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: 
"چچا! میں تو اس وقت خوش ہوتا جب آپ دینِ اسلام قبول کر لیتے۔" 

یہ سن کر حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے کلمہ شہادت پڑھ لیا، حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کے بعد قریش نے سمجھ لیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قوت کے ساتھ حفاظت و حمایت بھی حاصل ہو گئی ہے، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ستانا چھوڑ دیا۔

حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے غزوۂ بدر میں عتبہ کو قتل کیا، 3 ہجری میں غزوۂ اُحد میں شہید ہوئے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدالشہدأ کا خطاب دیا، اسداللہ ان کا لقب تھا۔

دارِ ارقم: 

کعبہ کے مقابل کوہِ صفا پر واقع حضرت ارقم بن ابی الارقم مخزومی رضی اللہ عنہ کے مکان کو اسلام کے پہلے مرکز کی حیثیت سے شہرت حاصل ہوئی، یہ مکان سرکشوں کی نگاہوں اور ان کی مجلسوں سے دور کوہ صفا کے دامن میں الگ تھلگ واقع تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اس مقصد کے لیے منتخب فرمایا کہ یہاں مسلمانوں کے ساتھ خفیہ طور پر جمع ہوں، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہاں اطمینان سے بیٹھ کر مسلمانوں پر اللہ کی آیات تلاوت فرماتے، ان کا تزکیہ کرتے اور انہیں کتاب وحکمت سکھاتے، مسلمان بھی امن وسلامتی کے ساتھ اپنی عبادت اور اپنے دینی اعمال انجام دیتے اور اللہ کی نازل کی ہوئی وحی سیکھتے، جو آدمی اسلام لانا چاہتا، یہاں آکر خاموشی سے مسلمان ہوجاتا اور ظلم وانتقام پر اترے ہوئے سرکشوں کو اس کی خبر نہ ہوتی،  روزانہ کوئی نہ کوئی شخص آتا اور اسلام قبول کرتا، اس طرح ایمان لانے والوں کی تعداد بڑھتے بڑھتے 38 ہو گئی۔

دارِ ارقم میں ایمان لانے والے 39 ویں صحابی حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ تھے، یہیں پر حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے مسلمان ہونے کے صرف تین دن بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی آ کر اسلام قبول کیا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ چالیسویں صحابی تھے، ان کے قبول اسلام کا واقعہ تفصیل کے ساتھ اگلی قسط میں بیان کیا جائے گا۔

==================> جاری ہے ۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں