سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 65
تین سال شعب ابی طالب میں:
قریش مکہ کے سماجی مقاطعہ کے بعد حضرت ابوطالب مجبور ہو کر بنو ہاشم اور بنی مطلّب کی حفاظت کی خاطر پہلی محرم 7 نبوی کی شب کو تمام خاندان بنی ہاشم کے ساتھ (بجز ابولہب کے) کوہ ابو قبیس میں واقع گھاٹی "شعب ابی طالب" میں پناہ گزیں ہو گئے، گھاٹی کو عربی میں شعب کہتے ہیں، کوہ ابو قبیس میں کئی گھاٹیاں تھیں، جیسے شعب المطلب، شعب بنی ہاشم، شعب بنی اسد، شعب بنی عامر، شعب بنی کنانہ وغیرہ، یہ شعب بنی ہاشم کی موروثی ملکیت تھی، اس وقت بنی ہاشم کے سردار ابو طالب تھے، اس لئے یہ گھاٹی ان ہی کے نام سے شعب ابی طالب کہلانے لگی، آج کل شعب ابی طالب مکہ کے بازار "سوق اللیل" کے مقابل ایک بستی ہے جو اطراف کی تین گھاٹیوں کے درمیان ہے، اسے محلۂ ہاشمی بھے کہتے ہیں، مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، مولد علی رضی اللہ عنہ اور دارِ خدیجہ رضی اللہ عنہا اس شعب میں واقع ہیں، اسے شعب علی رضی اللہ عنہ یا شعب بنی ہاشم کہا جاتا ہے۔
اس محصوری کے زمانے میں تمام محصورین مصائب و آلام کا شکار تھے، کھانے پینے کی چیزوں کا ذخیرہ چند مہینوں میں ختم ہو گیا، قریش مکہ کے بائیکاٹ کے نتیجے میں غلّے اور سامان خورد ونوش کی آمد بند ہوگئی، کیونکہ مکے میں جو غلہ یا فروختنی سامان آتا تھا اسے مشرکین لپک کر خرید لیتے تھے، اس لئے فقر و فاقہ کی نوبت آگئی، ان کے پاس بمشکل ہی کوئی چیز پہنچ پاتی تھی وہ بھی پس پردہ، بھوک سے بلکتے ہوئے بچوں اور عورتوں کی آوازیں جب گھاٹی کے باہر سنائی دیتیں تو قریش سن سن کر خوش ہوتے تھے۔
حب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اسلام کی خاطر تمام محصورین یہ تکالیف برداشت کر رہے تھے، احادیث میں جو صحابہ کی زبان سے مذکور ہے کہ ہم طلح کی پتیاں کھا کھا کر بسر کرتے تھے، یہ اسی زمانہ کا واقعہ ہے: حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک دفعہ رات کو اونٹ کا سوکھا ہوا چمڑا ہاتھ آگیا، میں نے اس کو پانی سے دھویا، پھر آگ پر بھونا اور پانی میں ملا کر کھایا، اُم المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے جو نازو نعم میں پلی بڑھی تھیں، لیکن ہرطرح کی مصیبت اور فقر و فاقہ برداشت کیا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غم گساری کی اور مسلم خواتین کے لئے ایک بہترین مثال چھوڑ گیئں۔
محصورین صرف ایام حج میں ہی شعب سے باہر نکل سکتے تھے اور اس وقت بھی قریش یہ کرتے کہ کھانے پینے کی چیزوں کو زائد قیمت پر خرید لیتے تاکہ محصورین کو کچھ نہ مل سکے، جس کا منشاء صرف ان کا عرصۂ حیات تنگ کرنا تھا، بعض رحم دل انسانوں کو محصورین کی اس حالت پر ترس بھی آتا تو وہ چوری چھپے کچھ غلہ پہنچانے کی کوشش کرتے، لیکن کڑی نگرانی کے باعث انھیں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا، ایک روز حکیم بن حزام نے (جو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بھتیجے تھے اور ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے) راتوں میں چھپ چھپاتے ہوئے اپنے غلام کے ذریعہ کچھ گیہوں بھیجے تو راستہ میں ابو جہل نے دیکھا اور چھین لینا چاہا، اتفاق سے ابوالبختری بن ہشام وہاں آگیا اور اس نے بیچ بچاؤ کیا، وہ اگرچہ کافر تھا، لیکن اس کو بھی رحم آیا اور کہا کہ ایک شخص اپنی پھوپھی کو کھانے کے لئے کچھ غلہ بھیجتا ہے تو کیوں روکتا ہے؟ لیکن ابوجہل نے سرکشی دکھائی تو ابوالبختری نے قریب میں پڑی اونٹ کے جبڑے کی ہڈی اس پر دے ماری اور خوب زدو کوب کیا، یہ منظر شعب سے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ دیکھ رہے تھے۔
عبد مناف کا ایک رشتہ دار ہشام بن عمرو بن حارث تھا جو بہت شریف اور نیک طینت انسان تھا، محصورین کی حالت پر رحم کھا کر رات میں اونٹ پر اجناس لاد کر شعب میں ہانک دیتا، بنی ہاشم سامان اتار کر اونٹ کو باہر بھیج دیتے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بڑے داماد ابوالعاص بن ربیع (رضی اللہ عنہ۔ حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے شوہر تھے اور ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے) جن کا تعلق بنی اُمیہ سے تھا، وہ بھی اکثر راتوں میں کھجور اور گیہوں شعب میں بھجوا دیتے۔
ادھر محصوری کے دوران حضرت ابو طالب کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں برابر خطرہ لگا رہتا تھا، حضرت ابو طالب اس قدر احتیاط کرتے تھے کہ جب لوگ اپنے بستروں پر سونے کے لئے دراز ہوجاتے تو رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایک بستر پر لیٹنے کے لئے کہتے تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قتل و غارت کا ارادہ رکھنے والا دیکھ لے کہ آپ یہاں سو رہے ہیں، جب لوگ نیند میں مدہوش ہوجاتے تو حضرت ابوطالب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جگہ بدل دیتے، یعنی اپنے بیٹوں، بھائیوں یا بھتیجوں میں سے کسی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بستر پر سلا دیتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہتے کہ آپ اس کے بستر پر چلے جائیں۔
اس محصوری کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دوسرے مسلمان حج کے ایام میں باہر نکلتے تھے اور حج کے لیے آنے والوں سے مل کر انہیں
اسلام کی دعوت دیتے تھے، اس موقع پر ابو لہب کی جو حرکت ہوا کرتی تھی اس کا ذکر پچھلی اقساط میں آچکا ہے۔
==================> جاری ہے ۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں