سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 59

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 59 

حضرت عمر ؓ کا قبول اسلام (حصہ دوم)

ادھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اندر تشریف فرما تھے.. آپ پر وحی نازل ہورہی تھی.. وحی نازل ہوچکی تو حضرت عمر رضی الله عنہ کے پاس تشریف لائے.. بیٹھک میں ان سے ملاقات ہوئی.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے کپڑے اور تلوار کا پرتلا سمیٹ کر پکڑا اور سختی سے جھٹکتے ہوئے فرمایا.. "عمر ! کیا تم اس وقت تک باز نہیں آؤ گے جب تک اللہ تعالیٰ تم پر بھی ویسی ہی ذلت ورسوائی اور عبرتناک سزا نازل نہ فرمادے جیسی ولید بن مغیرہ پر نازل ہو چکی ہے..؟"

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پرجلال آواز نے ان کو کپکپا دیا.. نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ عرض کیا.. "ایمان لانے کے لئے.." اور فوراً کلمہ شہادت پڑھ لیا.. آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بے اختیار اللہ اکبر پکار اٹھے اور ساتھ ہی تمام صحابہ نے مل کر اس زور سے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا کہ مکہ کی تمام پہاڑیاں گونج اٹھیں..

یہی روایت تھوڑے سے تغیر کے ساتھ دارقطنی , ابویعلیٰ , حاکم اور بیہقی میں حضرت انس سے مروی ہے..

ان روایتوں کے علاوہ مسند ابن حنبل میں ایک روایت خود حضرت عمر رضی الله عنہ سے مروی ہے جو گو ایک تابعی کی زبان سے مروی ہے تاہم اس باب میں سب سے زیادہ محفوظ ہے.. حضرت عمر رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چھیڑنے نکلا.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بڑھ کر مسجد حرام میں داخل ہوگئے اور نماز شروع کردی جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سورۂ الحاقہ تلاوت فرمائی.. میں کھڑا سنتا رہا اور قرآن کے نظم واسلوب سے حیرت میں تھا.. دل میں کہا.. "جیسا قریش کہا کرتے ہیں خدا کی قسم ! یہ شاعر ہے.." ابھی یہ خیال آیا ہی تھاکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت پڑھی..

اِنَّہٗ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ کَرِیْمٍ O وَّمَا ہُوَبِقَوْلِ شَاعِرٍ O قَلِیْلًا مَّا تُؤْمِنُوْنَ O
"یہ ایک بزرگ قاصد کا کلام ہے اور یہ کسی شاعر کا کلام نہیں.. تم بہت کم ایمان رکھتے ہو.."

میں نے کہا.. "یہ تو کاہن ہے.. میرے دل کی بات جان گیا ہے.." اس کے بعد ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت پڑھی..

وَلَا بِقَوْلِ کَاہِنٍ O قَلِیْلًا مَّا تَذَکَّرُوْنَ O تَنْزِیْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ O
"یہ کاہن کا کلام بھی نہیں.. تم بہت کم نصیحت پکڑتے ہو.. یہ تو جہانوں کے پروردگار کی طرف سے اترا ہے.."

آپ نے یہ سورۃ آخر تک تلاوت فرمائی اور اس کو سن کر اسلام میرے دل میں پوری طرح گھر کرگیا.. (مسند ابن حنبل , ج۱ : ۱۷)

اس کے علاوہ صحیح بخاری میں خود حضرت عمر رضی الله عنہ کی زبانی یہ روایت ہے کہ بعثت سے کچھ پہلے یا اس کے بعد ہی وہ ایک بت خانہ میں سوتے تھے کہ انہوں نے دیکھا کہ ایک بت پر ایک قربانی چڑھائی گئی اور اس کے اندر سے آواز آئی.. "اے جلیج ! ایک فصیح البیان کہتا ہے O لاَ اِلٰہَ اِلاَّاللہ O اس آواز کا سننا تھا کہ لوگ بھاگ کھڑے ہوئے لیکن میں کھڑا رہا کہ دیکھوں اس کے بعد کیا ہوتا ہے کہ پھر وہی آواز آئی.. اس واقعہ پر تھوڑے ہی دن گزرے تھے کہ لوگوں میں چرچا ہوا کہ یہ نبی ہیں..

اس روایت میں اس کا بیان نہیں ہے کہ اس آواز کا حضرت عمر رضی الله عنہ پر کیا اثر ہوا..

پہلی عام روایت بھی اگر صحیح مان لی جائے تو شاید واقعہ کی ترتیب یہ ہوگی کہ اس ندائے غیب پر حضرت عمر رضی الله عنہ نے لبیک نہیں کہا اور اس کا کوئی تعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کی بشارت سے وہ نہ پیدا کرسکے کہ اس میں ان کی رسالت اور نبوت کا کوئی ذکر نہ تھا.. تاہم چونکہ توحید کا ذکر تھا اس لئے ادھر میلان ہوا ہوگا لیکن چونکہ ان کو قرآن سننے کا موقع نہیں ملا , اس لئے اس توحید کی دعوت کی حقیقت نہ معلوم ہوسکی.. 

اس کے بعد جب انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سورۃ الحاقہ جس میں قیامت اور حشر ونشر کا نہایت موثر بیان ہے , نماز میں پڑھتے سنی تو ان کے دل پر ایک خاص اثر ہوا جیسا کہ اس فقرے سے ظاہر ہوتا ہے.. "وقع الاسلام فی قلبی کل موقع O یعنی اسلام میرے دل میں پوری طرح بیٹھ گیا" تاہم چونکہ وہ طبعاً مستقل مزاج اور پختہ کار تھے اس لئے انہوں نے اسلام کا اعلان نہیں کیا بلکہ اس اثر کو شاید وہ روکتے رہے لیکن اس کے بعد جب ان کی بہن کا واقعہ پیش آیا اور سورۂ طہٰ پر نظر پڑی جس میں توحید کی نہایت مؤثر دعوت ہے تو دل پر قابو نہ رہا اور بے اختیار کلمہ توحید پکار اٹھے اور در اقدس پر حاضری کی درخواست کی..

اور اگر وہ پہلی روایت صحیح تسلیم نہ کی جائے تو واقعہ کی سادہ صورت یہ ہوسکتی ہے کہ اس ندائے غیب نے ان کے دل میں توحید کا خیال پیدا کیا لیکن چونکہ تین برس دعوت محدود اور مخفی رہی تھی اس لئے ان کو اس کا حال نہ معلوم ہوسکا اور مخالفت کی شدت کے باعث کبھی خود بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں جانے اور قرآن سننے کا موقع نہ ملا.. پھر جب رفتہ رفتہ اسلام کی حقیقت کی مختلف آوازیں ان کے کانوں میں پڑتی گئیں تو ان کی شدت کم ہوتی گئی.. بالآخر وہ دن آیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان مبارک سے ان کو سورۃ الحاقہ سننے کا موقع ملا اور وہ لبیک کہتے ہوئے اسلام کے آستانہ پر حاضر ہوگئے..

===============>جاری ہے..

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
صدقہ جاریہ کے طور پر آگے شیئر کر دیں

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں