سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 48


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 48 

قریش کی محاذآرائی کی پہلی صورت: 


یہ قرار داد طے پاچکی تو اسے جامۂ عمل پہنانے کی کارروائی شروع ہوئی، کچھ کفارِ مکہ عازمین حج کے مختلف راستوں پر بیٹھ گئے اور وہاں سے ہر گزرنے والے کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ''خطرے'' سے آگاہ کرتے ہوئے آپ کے متعلق تفصیلات بتانے لگے۔

جہاں تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تعلق ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حج کے ایام میں لوگوں کے ڈیروں اور عُکاظ، مجنہ اور ذوالمجاز کے بازاروں میں تشریف لے جاتے اور لوگوں کو اسلام کی دعوت دیتے، ادھر ابولہب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے پیچھے لگا رہتا اور کہتا کہ اس کی بات نہ ماننا یہ جھوٹا بد دین ہے۔ مسند احمد ۳/۴۹۲، ۴/۳۴۱ میں اس کی یہ حرکت مروی ہے۔

اس دوڑ دھوپ کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگ اس حج سے اپنے گھروں کو واپس ہوئے تو ان کے علم میں یہ بات آچکی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعویٰ نبوت کیا ہے اور یوں ان کے ذریعے پورے دیارِ عرب میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چرچا پھیل گیا۔

جب قریش نے دیکھا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تبلیغ دین سے روکنے کی حکمت کارگر نہیں ہورہی ہے تو ایک بار پھر انہوں نے غور وخوض کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت کا قلع قمع کرنے کے لیے مختلف طریقے اختیار کیے جن کا خلاصہ یہ ہے: 

ہنسی، ٹھٹھا، تحقیر، استہزا اور تکذیب۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کو بد دل کرکے ان کے حوصلے توڑ دیئے جائیں۔ اس کے لیے مشرکین نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ناروا تہمتوں اور بیہودہ گالیوں کا نشانہ بنایا، چنانچہ وہ کبھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پاگل کہتے اور کبھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جادوگر اور جھُوٹے ہونے کا الزام لگاتے، یہ کفار آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آگے پیچھے پُر غضب، منتقمانہ نگاہوں اور بھڑکتے ہوئے جذبات کے ساتھ چلتے تھے۔

وَإِن يَكَادُ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا لَيُزْلِقُونَكَ بِأَبْصَارِ‌هِمْ لَمَّا سَمِعُوا الذِّكْرَ‌ وَيَقُولُونَ إِنَّهُ لَمَجْنُونٌ O 

''اور جب کفار اس قرآن کو سنتے ہیں تو آپ کو ایسی نگاہوں سے دیکھتے ہیں کہ گویا آپ کے قدم اکھاڑدیں گے اور کہتے ہیں کہ یہ یقینا ً پاگل ہے۔" (۶۸: ۵۱) 

اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی جگہ تشریف فرما ہوتے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارد گرد کمزور اور مظلوم صحابہ کرام موجود ہوتے تو انہیں دیکھ کر مشرکین استہزاء کرتے ہو ئے کہتے۔

أَهَـٰؤُلَاءِ مَنَّ اللَّـهُ عَلَيْهِم مِّن بَيْنِنَا O 

''اچھا! یہی حضرات ہیں جن پر اللہ نے ہمارے درمیان سے احسان فرمایا ہے۔؟'' (۶: ۵۳) 

جواباً اللہ کا ارشاد ہے:

أَلَيْسَ اللَّـهُ بِأَعْلَمَ بِالشَّاكِرِ‌ينَ O 

''کیا اللہ شکر گزاروں کو سب سے زیادہ نہیں جانتا۔" (۶: ۵۳) 

عام طور پر مشرکین کی کیفیت وہی تھی جس کا نقشہ ذیل کی آیات میں کھینچا گیا ہے: 

إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَ‌مُوا كَانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ O وَإِذَا مَرُّ‌وا بِهِمْ يَتَغَامَزُونَ O وَإِذَا انقَلَبُوا إِلَىٰ أَهْلِهِمُ انقَلَبُوا فَكِهِينَ O وَإِذَا رَ‌أَوْهُمْ قَالُوا إِنَّ هَـٰؤُلَاءِ لَضَالُّونَ O وَمَا أُرْ‌سِلُوا عَلَيْهِمْ حَافِظِينَ O 

''جو مجرم تھے وہ ایمان لانے والوں کا مذاق اڑاتے تھے اورجب ان کے پاس سے گزرتے تو آنکھیں مارتے تھے اور جب اپنے گھروں کو پلٹتے تو لُطف اندوز ہوتے ہوئے پلٹتے تھے اور جب انہیں دیکھتے تو کہتے کہ یہی گمراہ ہیں.. حالانکہ وہ ان پر نگراں بنا کر نہیں بھیجے گئے تھے۔'' (۸۳: ۲۹تا۳۳) 

انہوں نے سخریہ اور استہزاء کی بڑی کثرت کی اور طعن وتضحیک میں رفتہ رفتہ آگے بڑھتے گئے۔ یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طبیعت پر اس کا اثر پڑا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔

وَلَقَدْ نَعْلَمُ أَنَّكَ يَضِيقُ صَدْرُ‌كَ بِمَا يَقُولُونَ O 

''ہم جانتے ہیں کہ یہ لوگ جو باتیں کرتے ہیں اس سے آپ کا سینہ تنگ ہوتا ہے۔" (۱۵: ۹۷) 

لیکن پھر اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ثابت قدمی عطا فرمائی اور بتلایا کہ سینے کی یہ تنگی کس طرح جاسکتی ہے چنانچہ فرمایا:

فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَ‌بِّكَ وَكُن مِّنَ السَّاجِدِينَ O وَاعْبُدْ رَ‌بَّكَ حَتَّىٰ يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ O 

''اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرو اور سجدہ گزاروں میں سے ہو جاؤ اور اپنے پروردگار کی عبادت کرتے جاؤ.. یہاں تک کہ موت آجائے۔" (۱۵:۹۸،۹۹) 

اور اس سے پہلے یہ بھی بتلادیا کہ ان استہزاء کرنے والوں سے نمٹنے کے لیے اللہ ہی کافی ہے چنانچہ فرمایا: 

إِنَّا كَفَيْنَاكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ O الَّذِينَ يَجْعَلُونَ مَعَ اللَّـهِ إِلَـٰهًا آخَرَ‌ ۚ فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ O 

''ہم آپ کے لیے استہزاء کرنے والوں سے (نمٹنے کو) کافی ہیں.. جو اللہ کے ساتھ دوسرے کو معبود ٹھہراتے ہیں انہیں جلد ہی معلوم ہوجائے گا۔" (الحجر: ۹۵، ۹۶) 

اللہ نے یہ بھی بتلایا کہ ان کا یہ فعل جلد ہی وبال بن کر ان پر پلٹے گا، چنانچہ ارشاد ہوا۔

وَلَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُ‌سُلٍ مِّن قَبْلِكَ فَحَاقَ بِالَّذِينَ سَخِرُ‌وا مِنْهُم مَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ O 

''آپ سے پہلے پیغمبروں سے بھی استہزاء کیا گیا.. تو ان کی ہنسی اڑانے والے جو استہزاء کر رہے تھے , اس نے انہیں کو گھیر لیا۔" (الانعام : ۱۰ ۔ الانبیاء :۴۱ ) 


==================> جاری ہے ۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں