سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 51


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 51

*مسلمانوں کو تعذیب:*

4 نبوی میں اسلامی دعوت کے منظر عام پر آنے کے بعد مشرکین نے اس کے خاتمے کے لیے سابقہ کارروائیاں رفتہ رفتہ انجام دیں، مہینوں اس سے آگے قدم نہیں بڑھایا اور ظلم وزیادتی شروع نہیں کی، لیکن جب دیکھا کہ یہ تدبیریں اسلامی دعوت کو ناکام بنانے میں مؤثر نہیں ہورہی ہیں تو باہمی مشورے سے طے کیا کہ مسلمانوں کو سزائیں دے دے کر ان کو ان کے دین سے باز رکھا جائے، اس کے بعد ہر سردار نے اپنے قبیلے کے ماتحت لوگوں کو جو مسلمان ہوگئے تھے، سزائیں دینی شروع کیں اور ہر مالک اپنے ایمان لانے والے غلاموں پر ٹوٹ پڑا اور یہ بات تو بالکل فطری تھی کہ دم چھلے اور اوباش اپنے سرداروں کے پیچھے دوڑیں اور ان کی مرضی اور خواہش کے مطابق حرکت کریں، چنانچہ مسلمانوں اور بالخصوص کمزوروں پر ایسے ایسے مصائب توڑے گئے اور انہیں ایسی ایسی سزائیں دی گئیں، جنہیں سن کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور دل پھٹ جاتا ہے۔ ذیل میں محض ایک جھلک دی جارہی ہے۔

ابو جہل جب کسی معزز اور طاقتور آدمی کے مسلمان ہونے کی خبر سنتا تو اسے برا بھلا کہتا، ذلیل ورسوا کرتا اور مال کو سخت خسارے سے دوچار کرنے کی دھمکیاں دیتا اور اگر کوئی کمزور آدمی مسلمان ہوتا تو اسے خود بھی مارتا اور دوسروں کو بھی بر انگیختہ کرتا۔

حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کا چچا انہیں کھجور کی چٹائی میں لپیٹ کر دھواں دیتا، 

حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کی ماں کو ان کے اسلام لانے کا علم ہوا تو ان کا دانہ پانی بند کر دیا اور گھر سے نکال دیا، یہ بڑے ناز ونعمت میں پلے تھے، شدت سے دوچار ہوئے تو کھال اس طرح ادھڑ گئی، جیسے سانپ کچلی چھوڑتا ہے۔

حضرت بلال رضی اللہ عنہ امیہ بن خلف جحمی کے غلام تھے، امیہ ان کی گردن میں رسی ڈال کر لڑکوں کے حوالے کردیتا اور وہ انہیں مکہ کے پہاڑوں میں گھماتے اور کھینچتے پھرتے، یہاں تک کہ گردن پر رسی کا نشان پڑ جاتا، پھر بھی أحَد أحَد کہتے رہتے، خود بھی انہیں باندھ کر ڈنڈے مارتا اور چلچلاتی دھوپ میں جبراً بٹھائے رکھتا، بھوکا پیاسا رکھتا اور ان سب سے بڑھ کر یہ ظلم کرتا کہ جب دوپہر کی گرمی شباب پر ہوتی تو مکہ کے پتھریلے کنکروں پر لٹا کر سینے پر بھاری پتھر رکھوا دیتا، پھر کہتا: "واللہ! تو اسی طرح پڑا رہے گا، یہاں تک کہ مر جائے یا محمد ﷺ کے ساتھ کفر کرے اور لات وعزیٰ کی پوجا کرے۔"

حضرت بلال رضی اللہ عنہ اس حالت میں بھی کہتے: "أحد  أحد" اور فرماتے۔ "اگر مجھے کوئی ایسا کلمہ معلوم ہوتا جو تمہیں اس سے بھی زیادہ ناگوار ہوتا تو میں اسے کہتا۔"

ایک روز یہی کارروائی جاری تھی کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا گزر ہوا، انہوں نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو ایک کالے غلام کے بدلے اور کہا جاتا ہے کہ دوسو درہم (۷۳۵ گرام چاندی) یا دوسو اسی درہم (ایک کلو سے زائد چاندی ) کے بدلے خرید کر آزاد کر دیا۔

حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ بنو مخزوم کے غلام تھے، انہوں نے اور ان کے والدین نے اسلام قبول کیا تو ان پر قیامت ٹوٹ پڑی، مشرکین جن میں ابوجہل پیش پیش تھا، سخت دھوپ کے وقت پتھریلی زمین پر لے جا کر اس کی تپش سے سزا دیتے، ایک بار انہیں اسی طرح سزا دی جارہی تھی کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا گزر ہوا، آپ نے فرمایا: "آل یاسر! صبر کرنا، تمہارا ٹھکانہ جنت ہے۔" آخرکار یاسر رضی اللہ عنہ ظلم کی تاب نہ لاکر وفات پاگئے اور حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا جو حضرت عمار رضی اللہ عنہ کی والدہ تھیں، ابوجہل نے ان کی شرمگاہ میں نیزہ مارا اور وہ دم توڑ گئیں، یہ اسلام میں پہلی شہیدہ ہیں، ان کے والد کا نام خیاط تھا اور یہ ابوحذیفہ بن مغیرہ بن عبداللہ بن عمر بن مخزوم کی لونڈی تھیں، بہت بوڑھی اور ضعیف تھیں۔

حضرت عمار رضی اللہ عنہ پر سختی کا سلسلہ جاری رہا، انہیں کبھی دھوپ میں تپایا جاتا تو کبھی ان کے سینے پر سرخ پتھر رکھ دیا جاتا اور کبھی پانی میں ڈبویا جاتا، یہاں تک کہ وہ ہوش حواس کھو بیٹھتے، ان سے مشرکین کہتے تھے کہ جب تک تم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو گالی نہ دو گے یا لات وعزیٰ کے بارے میں کلمۂ خیر نہ کہو گے ہم تمہیں نہیں چھوڑیں گے، مجبوراً انہوں نے مشرکین کی بات مان لی، پھر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس روتے اور معذرت کرتے ہوئے تشریف لائے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی..

''جس نے اللہ پر ایمان لانے کے بعد کفر کیا (اس پر اللہ کا غضب اور عذاب عظیم ہے ) لیکن جسے مجبور کیا جائے اور اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو (اس پر کوئی گرفت نہیں)" (۱۶ : ۱۰۶ )*

حضرت ابو فکیہہ رضی اللہ عنہ جن کا نام افلح تھا، جو اصلاً قبیلہ ازد سے تھے اور بنو عبدالدار کے غلام تھے، ان کے دونوں پاؤں میں لوہے کی بیڑیاں ڈال کر دوپہر کی سخت گرمی میں باہر نکالتے اور جسم سے کپڑے اتار کر تپتی ہوئی زمین پر پیٹ کے بل لٹا دیتے اور پیٹھ پر بھاری پتھر رکھ دیتے کہ حرکت نہ کرسکیں، وہ اسی طرح پڑے پڑے ہوش حواس کھو بیٹھتے، انہیں اسی طرح کی سزائیں دی جاتی رہیں، یہاں تک کہ دوسری ہجرت حبشہ میں وہ بھی ہجرت کر گئے، ایک بار مشرکین نے ان کا پاؤں رسی میں باندھ اور گھسیٹ کر تپتی ہوئی زمین پر ڈال دیا، پھر اس طرح گلا دبایا کہ سمجھے یہ مر گئے ہیں، اسی دوران وہاں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا گزر ہوا، انہوں نے خرید کر اللہ کے لیے آزاد کردیا۔

خباب بن ارت رضی اللہ عنہ قبیلہ خزاعہ کی ایک عورت ام انمار کے غلام تھے اور لوہاری کا کام کرتے تھے، مسلمان ہوئے تو ان کی مالکہ انھیں آگ سے جلانے کی سزا دیتی، وہ لوہے کا گرم ٹکڑا لاتی اور ان کی پیٹھ یا سر پر رکھ دیتی تاکہ وہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کفر کریں، مگر اس سے ان کے ایمان اور تسلیم ورضا میں اور اضافہ ہوتا، انھیں مشرکین بھی طرح طرح کی سزائیں دیتے، کبھی سختی سے گردن مروڑتے تو کبھی سر کے بال نوچتے، ایک بار تو انھیں دہکتے ہوئے انگاروں پر ڈال دیا، اسی پر گھسیٹا اور دبائے رکھا، یہاں تک کہ ان کی پیٹھ کی چربی پگھلنے سے آگ بجھی۔
حضرت زنیرہ رضی اللہ عنہا رومی لونڈی تھیں، وہ مسلمان ہوئیں تو انھیں اللہ کی راہ میں سزائیں دی گئیں، اتفاق سے ان کی آنکھ جاتی رہی، مشرکین نے کہا: "دیکھو! تم پر لات وعزیٰ کی مار پڑگئی ہے۔" انہوں نے کہا: "نہیں  واللہ! یہ لات وعزیٰ کی مار نہیں ہے، بلکہ یہ اللہ کی طرف سے ہے اور اگر وہ چاہے تو دوبارہ بحال کر سکتا ہے۔" پھر اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ دوسرے دن نگاہ پلٹ آئی، مشرکین کہنے لگے: "یہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جادو ہے۔"

غلاموں میں عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ بھی تھے، اسلام لانے پر انھیں بھی اس قدر سزائیں دی جاتیں کہ وہ اپنے ہوش وحواس کھو بیٹھتے اور انھیں پتہ نہ چلتا کہ کیا بول رہے ہیں۔

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان سارے غلاموں اورلونڈیوں کو خرید کو آزاد کردیا، اس پر ان کے والد ابو قحافہ نے ان کو عتاب کیا، کہنے لگے: میں تمہیں دیکھتا ہوں کہ کمزور گردنیں آزاد کر رہے ہو،  توانا لوگوں کو آزاد کرتے تو وہ تمہارا بچاؤ بھی کرتے۔" انہوں نے کہا: "میں اللہ کی رضا چاہتا ہوں۔" اس پر اللہ نے آیت نازل فرمایا، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی مدح کی اور ان کے دشمنوں کی مذمت کی، فرمایا:
"اور اس آگ سے وہ پرہیزگار آدمی دور رکھا جائے گا جو اپنا مال پاکی حاصل کرنے کے لیے خرچ کررہا ہے، اس پر کسی کا احسان نہیں ہے جس کا بدلہ دیا جارہا ہو، بلکہ محض اپنے رب اعلیٰ کی مرضی کی طلب ہے۔" (۹۲: ۱۷ تا ۲۱)
اس سے مقصود حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں۔

یہ اس ظلم وجور کا ایک نہایت مختصر خاکہ ہے جو اہل اللہ اور سُکان حرم ہونے کا دعویٰ رکھنے والے سرکش مشرکین کے ہاتھوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مسلمانوں کو سہنا پڑ رہے تھے، اس سنگین صورت حال کا تقاضا یہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا محتاط اور حزم وتدبیر پر مبنی موقف اختیار کریں کہ مسلمانوں پر جو آفت ٹوٹ پڑی تھی، اس سے بچانے کی کوئی صورت نکل آئے اور ممکن حد تک اس کی سختی کم کی جاسکے، اس مقصد کے لیے رسول اللہ صلی الہ علیہ وسلم نے دو حکیمانہ قدم اٹھائے، جو دعوت کا کام آگے بڑھانے میں بھی مؤثر ثابت ہوئے۔

1... ارقم بن ابی الارقم مخزومی رضی اللہ عنہ کے مکان کو دعوت وتربیت کے مرکز کے طور پر اختیار فرمایا۔
2... مسلمانوں کو ہجرت حبشہ کا حکم فرمایا۔
(ان کا ذکر آگے آئے گا۔)
==================⭅ جاری ہے ۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں