سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 243


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 243

غزوۂ حنین:

اس غزوہ کو غزوۂ ہوازن بھی کہتے ہیں، حنین مکہ اور طائف کے درمیان ایک وادی کا نام ہے، ذو المجاز عرب کا مشہور بازار اور عرفہ سے تین میل ہے، یہ اسی کے دامن میں ہے، اس مقام کو اوطاس بھی کہتے ہیں۔

ہجرت کے آٹھویں سال مکّہ فتح ہوا تو مسلمانوں کو موقع ملا کہ مکّہ کی گلیوں اور بازاروں میں آزادی کے ساتھ گھومیں، اپنے عزیز و اقارب سے ملیں جلیں اور خانہ کعبہ کی زیارت کرسکیں، اب مکّہ میں اسلام آزاد تھا، پانچ وقت حضرت بلالؓ کی روح پرور اذان کی آواز مکّہ کی فضا میں گونجتی تھی اور مسلمان صحن کعبہ میں آزادی کے ساتھ نماز ادا کرتے تھے، بہت سے قبائل نے پیش قدمی کرکے اسلام قبول کرنا شروع کردیا، لیکن بعض طاقتور اور متکبر قبائل پر اس کا الٹا اثر ہوا۔

ان میں ہوازن اور ثقیف سر فہرست تھے، ان کے ساتھ مُضَر، جُشَم اور سعد بن بکر کے قبائل اور بنوہلال کے کچھ لوگ بھی شامل ہوگئے تھے، ان سب قبیلوں کا تعلق قیسِ عیلان سے تھا، انہیں یہ بات اپنی خودی اور عزّتِ نفس کے خلاف معلوم ہورہی تھی کہ مسلمانوں کے سامنے سپر انداز ہو جائیں۔

ابھی فتح مکہ کے دو ہفتے بھی نہ گزرے تھے کہ ہوازن و ثقیف کے جنگجو قبیلوں کے سرداروں نے مالک بن عوف نضری کے پاس جمع ہوکر یہ طے کیا کہ مسلمانوں پر حملہ کردیا جائے، یہ دونوں قبیلے بڑے بہادر اور لڑائی کے دھنی تھے، ثقیف عزت وشوکت میں قریش کے ہمسر سمجھے جاتے تھے، دولت وثروت میں بھی ان سے کم نہ تھے، ہوازن تیر اندازی میں بے مثل مہارت رکھتے تھے اور مویشیوں کی کثرت میں بھی ان کا کوئی حریف نہ تھا، ان قبائل کے ساتھ مضر، جشم اور سعدبن بکر کے قبیلے تھے، ان سب کا تعلق قیس عیلان سے تھا، انہوں نے باہم مشورہ کرکے مالک بن عوف نضری کو سپہ سالار تجویز کیا جس کی عمر اس وقت تیس سال تھی اور مسلمانوں پر عام حملہ کا منصوبہ بنایا.

==================>> جاری ہے ۔۔۔

*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں