سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 245


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 245

رسول اللہ ﷺ کی مکہ سے روانگی:

دشمن کی نقل و حرکت سے واقفیت کے لئے حضور اکرم ﷺ نے حضرت ابو حدردؓ اسلمی کو روانہ کیا تھا، تاکہ ان کے حالات سے واقفیت حاصل کرکے اطلاع دیں، چنانچہ وہ وہاں جاکر واپس آئے اور دشمن کے منصوبوں کی اطلاع دی، حضور اکرم ﷺ نے مجبوراً مقابلہ کی تیاریاں شروع کر دیں، رسد اور سامانِ جنگ کی ضرورت پیش آئی تو آپ ﷺ نے عبداﷲ بن ربیعہ سے جو ابو جہل کے بے مات بھائی تھے اور نہایت دولت مند تھے تیس ہزار درہم قرض لئے۔ (مسند ابن حنبل بحوالہ سیرت النبی)

رسول اﷲ ﷺ کو جب ہوازن و ثقیف کی پیش قدمی کی خبریں ملیں تو آپ ﷺ ۶شوال ۸ ہجری ہفتہ کو مکّہ سے حنین کی طرف روانہ ہوئے، آپ ﷺ کے ہمراہ بارہ ہزارکی فوج تھی جس میں دس ہزار اہلِ مدینہ تھے اور دو ہزار اہل مکّہ، جن میں اکثریت نو مسلموں کی تھی، صفوان بن اُمیہ جو مکّہ کا رئیس اعظم اور مہمان نوازی میں مشہورتھا، لیکن اب تک اسلام نہیں لایا تھا، اس سے حضور اکرم ﷺ نے اسلحہ جنگ مستعار مانگے، اس نے سو زرہیں اور ان کے لوازمات پیش کئے( شبلی نعمانی) اس کے بعد اس سرو سامان سے حنین کی طرف فوجیں بڑھیں کہ بعض صحابہ کی زبان سے بے اختیار یہ الفاظ نکل گئے کہ" آج ہم پر کون غالب آسکتا ہے" لیکن بارگاہ ایزدی میں یہ نازش نا پسند تھی، سورۂ توبہ کی آیت ۴ میں اس کا ذکر ہے:

(ترجمہ ) " بجز ان مشرکوں کے جن سے تمہارا معاہدہ ہو چکا ہے اور انہوں نے تمہیں ذرا سا نقصان پہنچایا نہ کسی کی تمہارے خلاف مدد کی ہے تو تم بھی ان کے معاہدہ کی مدت ان کے ساتھ پوری کرو، اللہ تعالیٰ پرہیز گاروں کو دوست رکھتاہے " ( سورہ ٔ توبہ : ۴ )

ابوسفیان بن حرب بھی شریک غزوہ تھے، مسلمان سپاہیوں کی زرہوں کی چمک دیکھنے والوں کی آنکھوں کو خیرہ کر رہی تھی، مقدمہ فوج میں گھڑ سواروں کا دستہ تھا جس کی نگرانی میں رسد کے بار بردار اونٹ بھی تھے، عرب نے اتنا بڑا لشکر آج تک نہیں دیکھا تھا، دوپہر میں ایک سوار نے آکر بتایا کہ میں نے فلاں پہاڑ پر چڑھ کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ بنو ہوازن پورے کے پورے آگئے ہیں، ان کے بال بچے اور مویشی بھی ساتھ ہیں، حضور اکرم ﷺ نے مسکراتے ہوئے فرمایا: " ان شاءﷲ! یہ سب کل مسلمانوں کا مالِ غنیمت ہوگا" رات میں حضرت انسؓ بن ابی مرثد نے رضاکارانہ طور پر سنتری کے فرائض انجام دئیے۔

حنین جاتے ہوئے راستے میں بیر کا ایک بہت بڑا سرسبز درخت نظرآیا جس کو عرب ایام جاہلیت میں ذات انواط کے نام سے یاد کرتے اور وہاں سالانہ ایک روزہ میلہ لگاتے تھے، اس پر اسلحہ لٹکاتے اور جانور ذبح کرتے، لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اﷲ! ہمارے لئے بھی ایک ذات انواط مقرر فرما دیجیے جیسا کہ ان کے لئے ہے، حضور اکرم ﷺ نے اس سوال سے ناراض ہوکر ارشاد فرمایا: تم نے مجھ سے ویسا ہی کہا ہے جیسا کہ قومِ موسیٰ نے کہا تھا کہ ہمارے لئے بھی ایک معبود بنادیجیے جیسے کہ ان کے معبود ہیں، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے مجھے اس بات کا اندیشہ ہے کہ تم لوگ ان لوگوں کا راستہ اختیار کروگے جو تم سے پیشتر گزر چکے ہیں، خبردار! ایسے خیالات کو اپنے دل میں ہرگز جگہ نہ دو"۔ (سیرت النبی- ابن کثیر)

ہر ایک قبیلہ کا دستہ اپنا اپنا علم اٹھائے ہوئے تھا، مہاجرین کے ہمراہ ایک لواء (چھوٹا عَلم) تھا جسے حضرت علیؓ بن ابی طالب اٹھائے ہوئے تھے اور ایک رایۃ (بڑا علم) تھا جسے حضرت سعد بن ابی وقاص اٹھائے ہوئے تھے، ایک روایت میں(بڑا علم) حضرت عمرؓ بن الخطاب اٹھائے ہوئے تھے۔

خزرج کا لواء(چھوٹا جھنڈا )حضرت خباب بن المنذر اٹھائے ہوئے تھے اور کہا جاتا ہے کہ خزرج کا ایک دوسرا لواء حضرت سعدؓ بن عبادہ کے ہمراہ تھا، اوس کا لواء حضرت اسیدؓ بن حضیر کے ہمراہ تھا، اوس و خزرج کے ہر بطن (شاخ قبیلہ )میں لواء یا رایۃ تھا جسے انہیں کا ایک نامزد شخص اٹھائے ہوئے تھا۔

==================>> جاری ہے ۔۔۔

*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں