سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ آپ ﷺ کا زہد وتقویٰ




آپ ﷺ کا زہد وتقویٰ:

حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اللہ تعالٰی سے دعا کرتے تھے کہ اے اللہ! مجھے مسکینی کی حالت میں زندہ رکھ اور مسکینی کی حالت میں دنیا سے اٹھا اور مسکینوں کے گروہ میں میرا حشر فرما۔ ( جامع الترمذی)

ایک صحابی سے روایت ہے کہ حضور ﷺ کے اہل مجلس ایک مرتبہ دولت مندی اور دنیاوی خوش حالی کا کچھ تذکرہ کرنے لگے۔ ( یہ چیز اچھی ہے یا بری اور دین اور آخرت کے لئے مضر ہے یا مفید ) تو آپ ﷺ نے اس سلسلہ میں ارشاد فرمایا کہ جو شخص اللہ سے ڈرے (اور اس کے حکام کی پابندی کرے ) تو اس کے لئے مالداری میں کوئی مضائقہ نہیں اور کوئی حرج نہیں اور صحت مندی صاحب تقویٰ کے لئے دولت مندی سے بھی بہتر ہے اور خوش دلی بھی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ہے۔ ( جس پر شکر واجب ہے )۔ (معارف الحدیث)

حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے عروہؓ سے فرمایا: میرے بھانجے! ہم ( اہل بیت اس طرح گزارا کرتے تھے ) کہ کبھی کبھی لگاتار تین تین چاند دیکھ لیتے تھے ( یعنی کامل دو مہینے گزر جاتے تھے ) اور حضور ﷺ کے گھروں میں چولہا نہ جلتا تھا (عروہؓ کہتے ہیں ) میں نے عرض کیا پھر آپ کو کونسی چیز زندہ رکھتی تھی؟ حضرت عائشہ ؓ نے جواب دیا بس کھجور کے دانے اور پانی، البتہ حضور ﷺ کے بعض انصاری پڑوسی تھے، ان کے ہاں دودھ دینے والے جانور تھے وہ آپ ﷺ کے لئے دودھ بطور ہدیہ بھیج دیا کرتے تھے، اس میں سے آپ ﷺ ہمیں بھی دیتے تھے۔ (متفق علیہ: بخاری )

عبد اللہ بن شخیر سے روایت ہے کہ آپ ﷺ برابر مغموم رہتے تھے، کسی وقت آپ کو چین نہیں آتا تھا ( یہ کیفیت فکر آخرت کی وجہ سے تھی ) اور دن میں ستّر یا سوبار استغفار فرماتے تھے، یہ یا تو امت کی تعلیم کے لئے تھا یا خود امت کے لئے مغفرت طلب کرنا مقصود تھا، یا پھر اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ ﷺ دریائے قرب وعرفان میں مستغرق رہتے تھے اور آناً فاناً اس میں ترقی ہوتی رہتی تھی۔ (نشر الطیب؛ اشرف علی تھانوی ص ۶۷ : مکتبہ لدھیانوی )

آپ نے زہد و قناعت کی تعلیم دی تو پہلے خود اس پر عمل کرکے دکھایا۔ فتوحات کی وجہ سے جزیہ، زکوٰۃ، عشر اور صدقات کے خزانے لدے چلے آتے تھے، مگر آپ کے گھر میں وہی فقر و فاقہ تھا۔ حضرت عائشہؓ نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ رحلت فرما گئے مگر آپ کو دو وقت بھی سیر ہو کر کھانا نصیب نہ ہوا، آپ کی رہائش ایک کمرہ تھی جس کی دیوار کچی اور چھت کھجور کے پتوں اور اونٹ کے بالوں سے بنی تھی، آپ کا کپڑا کبھی تہہ کرکے نہیں رکھا جاتا تھا، یعنی جو بدنِ مبار ک پر کپڑا ہوتا تھا، اس کے سوا کوئی اور کپڑا ہی نہیں تھا جو تہہ کیا جاتا۔


*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں