سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ آپ ﷺ کی قناعت، توکل اور انکساری




آپ ﷺ کی قناعت، توکل اور انکساری:

آپ ﷺ کی قناعت وتوکل:

حضرت انس ؓسے روایت ہے کہ حضوراقدس ﷺ دوسرے دن کے لئے کسی چیز کا ذخیرہ کر کے نہیں رکھتے تھے۔ ( شمائل ترمذی)۔

یعنی جو چیز ہوتی کھلا پلا کر ختم فر ما دیتے اس خیال سے کہ کل پھر ضرورت ہو گی، اس کو محفوظ کرکے نہیں رکھتے تھے، یہ آپ ﷺ کا انتہائی درجہ کا توکل تھا کہ جس مالک نے آج دیا ہے وہ کل بھی عطا کرے گا، آپ ﷺ کا یہ عمل اپنی ذات کے لئے تھا ورنہ ازواج مطہرات کو ان کا نفقہ دے دیا جاتا تھا، وہ جس طرح چاہیں تصرف میں لا سکتی تھیں، مگر وہ بھی تو حضور ﷺ کی ازواج تھیں، کہاں جمع کر کے رکھ سکتی تھیں۔

ایک دفعہ حضرت عائشہ ؓ کے پاس دو گونین درہموں کی نذرانہ کے طور پر پیش کی گئی جن میں ایک لاکھ درہم سے زیادہ تھے تو حضرت عائشہؓ نے ایک طباق منگوایا اور بھر بھر کر تقسیم فرمادیا اور خود روزہ سے تھیں، افطار ی زیتون کے تیل اور ایک روٹی سے کی، باندی نے عرض کیا ایک درہم کا آج اگر گوشت منگالیتیں تو ہم بھی اس سے افطار کرلیتے، ارشاد فرمایا کہ ابھی طعن کرنے سے کیا فائدہ اس وقت یاد دلا دیتی تو میں منگوا لیتی۔ (خصائل نبوی :بحوالہ اسوہ رسول اکرم : ۶۴)

حضور ﷺ نے فرمایا: ''مجھے یہ با ت پسند نہیں کہ میرے لئے اُحد پہاڑ سونا بن جائے اور پھر رات کو اس میں سے ایک دینار بھی میرے پاس رہے، سوائے اس دینار کے جس کو کسی مطالبہ ( قرض) کے لئے پاس رکھ لوں، چنانچہ آپ ﷺ اسی کمال سخاوت کی وجہ سے مقروض رہتے تھے یہا ں تک کہ جب آپ ﷺ کا وصال ہوا تو آپ کی زرہ اہل وعیال کے اخراجات کے عوض رہن رکھی ہوئی تھی۔ ( نشر الطیب: اشرف علی تھانوی ص: ۱۳۷)

آپ ﷺ کی انکسار طبعی:

حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ عادت کے اعتبار سے سخت گو نہ تھے اور نہ ہی بتکلف سخت گو بنتے تھے اور نہ بازاروں میں خلاف وقار باتیں کرنے والے تھے اور برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیتے تھے اور غایت حیا کی وجہ سے آپ ﷺ کی نگاہ کسی کے چہرے پر نہیں ٹھہرتی تھی اور اگر کسی نامناسب بات کا ذکر کرنا ہی پڑتا تھا تو کنایہ میں وہ بات فرماتے۔

حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ سب سے بڑھ کر کشادہ دل تھے، بات کے سچے تھے، طبیعت کے نرم تھے، معاشرت میں نہایت کریم تھے اور جو شخص آپ کی دعوت کرتا آپ ﷺ اس کی دعوت قبول فرما لیتے اور ہدیہ بھی قبول فرما لیتے اگرچہ (وہ ہدیہ یا دعوت) گائے یا بکری کا پایہ ہی ہوتا اور ہدیہ کا بدلہ بھی دیتے تھے اور دعوت غلام کرے یا آزاد، لونڈی کرے یا کوئی غریب آدمی، سب کی قبول فرماتے تھے اور مدینہ کی آبادی کے کونے پر بھی اگر کوئی مریض ہوتا تو اس کی بھی عیادت فرماتے، معذرت کرنے والے کا عذر قبول فرماتے، اپنے اصحاب سے مصافحہ کی ابتداء فرماتے اور کبھی اپنے اصحاب میں پاؤں پھیلائے ہوئے نہیں دیکھے گئے جس کی وجہ سے اوروں کے لئے جگہ تنگ ہو جائے اور جو آپ کے پاس آتا اس کی خاطر تواضع کرتے، اور بعض اوقات اپنا کپڑا اس کے بیٹھنے کے لئے بچھا دیتے اور گدہ تکیہ خود چھوڑ کر اس کو دے دیتے اور کسی شخص کی بات درمیان میں نہ کاٹتے اور تبسم فرمانے میں اور خوش مزاجی میں سب سے بڑھ کر تھے، ہاں اگر نزول وحی یا وعظ وخطبہ کی حالت ہوتی تو اس وقت آپ ﷺ کا تبسم اور خوش مزاجی ظاہر نہ ہوتی تھی، کیونکہ ان حالتوں میں آپ ﷺ کو ایک جوش ہوتا تھا۔ ( نشر الطیب : حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ " ص: ۱۴۷ ،مکتبہ لدھیانوی)۔


*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں