سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ آپ ﷺ کی نرمی وشفقت، ایثار وتحمل




آپ ﷺ کی نرمی وشفقت، ایثار وتحمل:

آپ ﷺ کی نرمی وشفقت:

حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ بڑے خوش اخلاق تھے، ایک روز مجھے کسی ضرورت کے لئے بھیجا، میں نےکہا خدا کی قسم نہیں جاؤں گا اور میرے دل میں تھا کہ جو حکم رسول اللہ ﷺ نے دیا ہے اس کے لئے ضرور جاؤں گا۔ (حضرت انس ؓ اس وقت بچے تھے اور حضور ﷺ کی خدمت میں ہی رہا کرتے تھے) پھر میں نکلا اور میرا گزر کچھ بچوں پر ہوا جو بازار میں کھیل رہے تھے، ( میں وہاں رکا ہوا تھا) اتنے میں رسول اللہ ﷺ نے اچانک میرے سر کے بال پیچھے سے پکڑے، جب میں نے پیچھے مڑ کے دیکھا تو حضور ﷺ کو ہنستا ہوا پایا، حضور ﷺ نے فرمایا: انس تم وہاں گئے تھے جہاں میں نے تم کو بھیجا تھا؟ میں نےکہا: جاؤں گا یارسول اللہ! ( مشکوۃ : بحوالہ أسوہ رسول اکرم : ص:۶۸)

حضرت انس ؓ سے مروی ہے کہ میں نے حضور ﷺ کی خدمت اس وقت سے کی ہے جب میں آٹھ برس کا تھا، میں نے آپ ﷺ کی خدمت دس برس تک کی، آپ نے کبھی بھی مجھے کسی بات پر ملامت نہیں کیا، اگر اہل بیت میں سے کسی نے ملامت کیا بھی تو آپ ﷺنے فرمایا اس کو چھوڑ دو اگر تقدیر میں کوئی بات ہوتی ہے تو وہ ہوکر رہتی ہے۔ ( مشکوۃ: بحوالہ أسوۂ رسول اکرم : ص: ۶۸)

آپ ﷺ کا ایثار و تحمل:

ایک روایت میں ہے کہ زید بن شعنہ پہلے یہودی تھے، ایک مرتبہ کہنے لگے کہ نبوت کی نشانیوں میں سے کوئی ایسی نہیں رہی جس کو میں نے حضور ﷺ میں نہ دیکھ لیا ہو، سوائے دو علامات کے جس کے تجربے کی ابھی تک نوبت نہیں آئی تھی، ایک یہ کہ آپ ﷺ کا حلم آپ ﷺ کے غصے پر غا لب ہوگا، دوسرا یہ کہ آپ ﷺ کے ساتھ کوئی جتنا بھی جہالت کا برتاؤ کرے گا آپﷺ کا تحمل اسی قدر زیادہ ہو گا، میں ان دونوں کے امتحان کا موقع تلاش کرتا رہا اور آمد ورفت بڑھاتا رہا، ایک دن آپ ﷺ حجرے سے باہر تشریف لائے، حضرت علی ؓ آپ کے ساتھ تھے، ایک بدوی شخص آیا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میری قوم مسلمان ہوچکی ہے اور میں نے ان سے مسلمان ہو جانے کے بعد رزق کی فراوانی کا وعدہ کیا تھا، جبکہ ابھی قحط کی حا لت ہے، مجھے ڈر ہے کہیں وہ اسلام سے نہ پھر جائیں اگر ان کی کچھ اعانت کردی جائے؟ حضور ﷺ نے غالباً حضرت علی ؓ کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا، انہوں نے عرض کیا حضور ﷺ اس وقت تو کچھ موجود نہیں، زید (جو اس وقت تک یہودی تھے اس منظر کو دیکھ رہے تھے) کہنے لگے: محمد (ﷺ) اگر آپ فلاں شخص کے باغ کی اتنی کھجوریں وقت معّین پر مجھے دے دیں تو میں پیشگی قیمت ادا کر دیتا ہوں اور وقت معیّن پر کھجور لے لوں گا، حضور ﷺ نے فرمایا کہ یہ تو نہیں ہو سکتا، البتہ اگر باغ کی تعیین نہ کرو تو میں معاملہ کر سکتا ہوں، میں نے اسے قبول کرلیا اور اس کے بدلے کھجوروں کی قیمت اسّی مثقال سونا دے دیا، آپ ﷺ نے وہ سونا اس بدوی کے حوالے کر دیا اور اس سے کہا کہ انصاف کی رعایت رکھنا اور اس سے ان کی ضرورت پوری کرنا۔

زید کہتے ہیں جب کھجوروں کی ادائیگی میں دو تین دن باقی رہ گئے تھے، حضور ﷺ صحابہ کرام ؓ کی جماعت کے ساتھ جن میں حضرت ابو بکرؓ، عمر ؓ، عثمانؓ بھی تھے، کسی جنازے کی نماز سے فارغ ہوکر ایک دیوار کے قریب تشریف فرما تھے، میں آیا اور آپ کے کرتے اور پلّو کو پکڑ کر نہایت ترش روئی سے کہا: اے محمد! آپ میرا قرض ادا نہیں کرتے، خدا کی قسم میں تم سب اولاد عبد المطلب کو اچھی طرح سے جانتا ہوں کہ بڑے نا دہندہ ہو، حضرت عمر ؓ نے غصہ سے مجھے گھُورا اور کہا: اے خدا کے دشمن! یہ کیا بک رہا ہے؟ خدا کی قسم اگر مجھے حضور ﷺ کا ڈر نہ ہوتا تو میں تیری گردن اڑا دیتا، لیکن حضور ﷺ نہایت سکون سے مجھے دیکھ رہے تھے اور تبسّم کے لہجے میں حضرت عمر ؓ سے فرمایا کہ عمر! میں اور یہ ایک اور چیز کے زیادہ محتاج تھے، وہ یہ کہ مجھے حق ادا کرنے میں خوبی برتنے کو کہتے اور اس کو مطالبہ کرنے میں بہتر طریقے کی نصیحت کرتے، جاؤ اس کو لے جاؤ اور اس کا حق ادا کر دو اور جو تم نے اسے ڈانٹا ہے اس کے بدلے میں اس کو بیس صاع ( تقریباًٍ دو من کھجوریں ) زیادہ دینا، حضرت عمر مجھے لے گئے اور پورا مطالبہ اور بیس صاع کھجوریں زیادہ دیں، میں نے پوچھا کہ یہ بیس صاع کیسے؟ حضرت عمر ؓ نے کہا حضور ﷺ کا یہی حکم ہے، زید نے کہا عمر! تم مجھے پہچانتے ہو؟ انہوں نے فرمایا کہ نہیں۔ میں نے کہا کہ میں زید بن شعنہ ہوں، انہوں نے کہا جو یہود کا بڑا علامہ ہے؟ میں نے کہا ہاں وہی ہوں، انہوں نے کہا اتنا بڑا آدمی ہو کر حضور ﷺ سے تم نے یہ کیسا سلوک کیا؟ میں نے کہا علامات نبوت میں سے دو علامتیں ایسی رہ گئی تھیں جن کے تجربے کا مجھے موقع نہیں ملا تھا، ایک یہ کہ آپ ﷺ کا حلم آپ کے غصے پر غالب ہو گا اور دوسری یہ کہ ان کے ساتھ جہالت کا برتاؤ ان کے حلم کو بڑھائے گا، اب ان دونوں کا بھی امتحان کرلیا اور اب میں آپ کو اپنے اسلام کا گواہ بناتا ہوں اور میرا آدھا مال امت محمدیہ پر صدقہ ہے، اس کے بعد حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسلام لے آئے، اس کے بعد بہت سے غزاوات میں شریک ہوئے اور غزوۂ تبوک میں شہید ہوئے۔
( جمیع الفوائد ، خصائل نبوی :بحوالہ أسوۂ رسول اکرم : ص: ۷۰)

حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ میں حضور ﷺ کے ساتھ جا رہا تھا اور حضور ﷺ کی گردن مبارک میں سخت کناروں والی نجرانی چادر تھی، ایک اعرابی آیا اور اس چادر کو پکڑ کر حضور ﷺ کو کھینچنے لگا اور چادر کو سختی سے لپیٹنے لگا، حضرت انس ؓ فرماتے ہیں میں نے حضور ﷺ کی گردن مبارک کی طرف دیکھا تو آپﷺ کی گردن اس سخت چادر کی وجہ سے چھیل گئی تھی، اس کے بعد اس اعرابی نے کہا: اے محمد! ( ﷺ) اللہ کے اس مال میں سے جو آپ کے پاس ہے، اس میں سے مجھے دیجئے، حضور ﷺ نے اس کی طرف دیکھ کر تبسّم فرمایا اور مجھے اس کو دینے کا حکم دیا۔ (مدارج النبوۃ : بحوالہ اسوۂ رسول اکرم : ص:۷۱)

ایک دفعہ مکہ میں قحط پڑا ۔۔۔ لوگ ہڈیاں اور مردار کھانے پر مجبور ہوئے، ابو سفیان جو ان دنوں حضور ﷺ کے سخت ترین دشمن تھے، آپ ﷺ کی خدمت میں آئے اور کہا: " محمد (ﷺ) تم لوگوں کو صلہ رحمی کی تعلیم دیتے ہو، تمہاری قوم ہلاک ہورہی ہے اپنے خدا سے دعا کیوں نہیں کرتے؟" اگرچہ قریش کی ایذا رسانیاں اور شرارتیں حد سے تجاوز کر چکی تھیں، لیکن ابو سفیان کی بات سن کر حضور ﷺ نے فوراً دعا کے لئے دست مبارک اٹھا ئے، اللہ تعالٰی نے اس قدر بارش نازل فرمائی کہ جل تھل ہو گیا اور قحط دور ہو گیا۔ ( صحیح بخاری: تفسیر سور ۂ دخان: بحوالہ أسوہ رسول اکرم :ص:۷۱)


*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں