تدبر سورہ الرحمٰن ۔۔۔ از استاد نعمان علی خان ۔۔۔ حصہ 20



 تدبر سورۃ الرحمن


از استاد نعمان علی خان


پارٹ 20 آیات(32-31)


بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيم

       

   سَنَفۡرُغُ لَكُمۡ أَيُّهَ ٱلثَّقَلَانِ 

      فَبِاَىِّ اٰلَاۤءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ

اے دونوں جماعتو! ہم عنقریب تمہاری طرف متوجہ ہوتے ہیں۔

تو تم اپنے پروردگار کی کون کون سی قدرتوں / طاقتوں / نعمتوں کا انکار کرو گے ؟


ثقلان کا مطلب ہے "بوجھ"

أَيُّهَ ٱلثَّقَلَان- دو مخلوقات جو اس "زمین کا بوجھ" ہے اسی زمین سے وہ وجود میں آئی ہیں اور اسی میں ان کا مسکن ہے یعنی" انسان اور جن۔"


اللہ نے یہاں یہ نہیں کہا (یا ایھا الجن والانس) بلکہ ثقلان کہا ؛

یعنی اللہ کا قیامت کے دن  اپنی  دو مخلوقات سے مخاطب ہوں گے جو ثقل "بوجھ" اٹھائے ہوئے ہو گیں  ۔جن کے بوجھ اور  اعمال کا حساب ہوگا 


اللہ نے یہاں میں خاص طور پر "ثقلان" کہہ کر مخاطب کیا ہے تاکہ ہم اپنے "بوجھ ،اپنے اعمال" کا خیال کریں ۔۔


جس دن ہمارے اعمال کا وزن ہوگا ۔۔جس کے ثقل بھاری ہوں گے وہ کامیاب ہو جائیں گے اور جس کے ثقل وزن میں کم ہوں گے وہ ناکام ہو جائیں گے؛ یہاں ہماری توجہ آخرت کی طرف دلائی جا رہی ہے ۔


فَأَمَّا مَن ثَقُلَتۡ مَوَٲزِينُهُ  ۥ 

پھر جس کے پلڑے بھاری ہوں گے


فَهُوَ فِى عِيشَةٍ رَّاضِيَةٍ 

وہ دل پسند عیش میں ہو گا

Surah Al-Qariah


سَنَفۡرُغُ لَكُمۡ - عنقریب ہم تمہارے لئے فارغ ہو جائیں گے۔

اس کا مطلب یہ نہیں ہے جیسے میں کہوں ابھی میں مصروف ہوں فارغ ہو کر تم سے پوچھتی ہوں۔ لیکن اللہ تو کبھی بھی مصروف نہیں ہوسکتے کوئی بھی کام ان کو اتنا مشغول نہیں کیا ہوا کہ وہ ہماری طرف متوجہ نہ ہو سکے ۔


پھر اس بات  کا کیا مطلب ہے کہ عنقریب ہم تمہارے لئے فارغ ہو جائیں گے ؟؟


قرآن پاک اس زبان میں نازل ہوا جو انسانوں کی زبان تھی ۔ الفاظ وہی ہوتے ہیں لیکن ان کے معنی میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے ۔

جیسے عالم انسان بھی ہیں اور اللہ کی صفت بھی علیم ہے لیکن دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔

کچھ صفات انسان کے لئے استعمال ہوتی ہیں اور وہی اللہ کے لیے بھی استعمال ہوتی ہیں لیکن دونوں میں بے انتہا فرق ہے۔


سَنَفۡرُغُ لَكُمۡ أَيُّهَ ٱلثَّقَلَان

اسی طرح یہاں الفاظ تو وہی ہیں جن سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ تم نےجو سرکشی کرنی ہے جو بغاوت کرنی ہے کرلو۔۔۔ عنقریب فارغ ہو جائیں گے ہم تمہاری خبر لیں گے ۔۔

الفاظ وہی ہیں لیکن ان کا مفہوم مختلف ہے کیونکہ یہ اللہ کے لئے استعمال ہو رہے ہیں تو ان کا معنی بدل جاتا ہے ۔۔۔


اصل مطلب یہ ہے کہ اللہ نے اس دنیا کے وقت کو جن ادوار میں تقسیم کیا ہے ابھی یہ "دور "جو تیرا ہے وہ "دور امتحان" ہے ۔۔

ابھی جزا سزا کا دور شروع نہیں ہوا یہاں اللہ نے چھوٹ دے رکھی ہے، ابھی میں بڑی سے بڑی سرکشی کر جاوں، اللہ نہیں پکڑتا، ابوجہل نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جو سلوک کیا اللہ نے نہیں پکڑا،

 اللہ تو ہر چیز پر قادر ہے وہ چاہتا تو ابوجہل اسی وقت مر جاتا ۔۔

 اس دور میں جو کرنا ہے وہ کرو۔۔ اگر تمہارے اندر خیر  ہے، تو وہ بھی ظاہر ہو جائے اچھی طرح اور تمہارے اندر اگر کوئی شر ہے تو وہ بھی سامنے آجائے

 

    یہ عالم ۔ ۔ ۔ عالم جزا نہیں ہے ۔

             

یہاں کی جزا اور سزا کا لفظ آتا ہے وہ درحقیقت اپنے اصل مفہوم میں نہیں ہے جیسے موت  درحقیقت سزا نہیں ہے۔۔

 موت ہماری اس زندگی کا خاتمہ ہے اور وہ ہمارے سفر کا ایک اہم سٹاپ ہے یعنی ہمارے امتحان کی مہلت ختم ہو رہی ہے ۔۔

 

اتنی قوموں کو جو ہلاک کیا گیا ہے وہ ان قوموں کی اجتماعی موت ہے، اس میں عذاب کا جو لفظ استعمال ہوا ہے وہ مجازاً ہے  یعنی اصل میں عذاب آخرت میں ملے گا 

"دارالجزا " وہ ہے جو آنے والا ہے ..‼

     

  ۔   ۔  یہ دارالامتحان ہے ۔ ۔ ۔ !

 

 لہذا اس آیت کا مطلب یہ ہو گا کہ اے ثقلان  تم جوسر کشیاں کر رہے ہو، عنقریب وقت آیا چاہتا ہے۔  ۔ ۔ 

    

سَنَفۡرُغُ = "س" کا مطلب ہے "عنقریب" SOON "

اس لفظ کا مفہوم ہمیں سورہ معارج کی آیت سے معلوم ہوگا 


       إِنَّہُمۡ يَرَوۡنَهُ  ۥ بَعِيدًا (6)

وہ ان لوگوں کی نگاہ میں دور ہے

         وَنَرَٮٰهُ قَرِيبًا (7)

اور ہماری نظر میں نزدیک۔


یعنی اللہ کہہ رہے ہیں کہ وہ قیامت انہیں دور نظر آ رہی ہے اور ہماری نگاہوں کے سامنے موجود ہے، ہم اسے قریب دیکھ رہے ہیں۔

اس بات کو مثال سے سمجھتے ہیں جیسے میں لاہور سے کراچی جارہی ہو تو میرے راستے میں ملتان آتا ہے 

اور میں کہوں کے ملتان سے لاہور آدھے گھنٹے کی مسافت پر ہے. اس کا مطلب ہے ملتان ابھی موجود تو ہے لیکن میرے اعتبار سے بھی آدھا گھنٹہ دور ہے  یہ Relative Time کا concept ہے.


لیکن اللہ کے علم کے اعتبار سے ہر شے "ابھی اسی وقت موجود ہے" اس کا علم تو کامل ہے، اس کے لیے Relative Timeاور absolute time کچھ نہیں ہے۔۔ ماضی اور مستقبل کچھ نہیں ہے ۔


اللہ کے نزدیک وقت ہے ہی نہیں۔۔ اس کا علم تو کُل ہے ۔ 


لہذا اللّه کہہ رہے ہیں کہ یہ  لوگ اس کو دور دیکھ رہے ہیں جبکہ ہم اس کو قریب دیکھ رہے ہمارے سامنے وہ گھڑی رکھی ہوئی ہے ۔

ان کے حساب سے بھی ملتان آئے گا لیکن ملتان تو ہمارے سامنے موجود ہے۔

 یہاں اس آیت میں اسی اعتبار سے فرمایا؛


  سَنَفۡرُغُ لَكُمۡ أَيُّهَ ٱلثَّقَلَان

یعنی ہم عنقریب فارغ ہوا چاہتے ہیں یعنی اب عنقریب وہ گھڑی آئی چاہتی ہے وہ زیادہ دور نہیں ہے۔


سَنَفۡرُغُ لَكُمۡ =( 'کم ' Second Person Pronoun )

مطلب ''تم سب''؛ اللہ ہر ایک کی طرف متوجہ ہوں گے انفرادی طور پر "اکیلے اکیلے "


ابھی تم جو سرکشیاں کر رہے ہو کرلو ؛ ابھی تو کوئی کھڑے ہو کر اللہ کو نعوذباللہ گالیاں بھی دے دے ۔

کوئی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں جتنی چاہے گستاخی کرے ابھی تمہارے پاس مہلت ہے۔ ابھی تمہیں کچھ نہیں کہہ رہے لیکن وہ وقت آیا جاتا ہے۔

یہ معنی نہیں ہیں کہ ہم تمہیں اپنی مجبوری کی وجہ سے ڈھیل دے رہے ہیں بلکہ


 كُلَّ يَوۡمٍ هُوَ فِى شَأۡنٍ

 ہم نے ہر اپنے ہر دور کے لئے ایک چیز طے کی ہوئی ہے کہ اس وقت ہم تمہیں نہیں پکڑیں گے ۔

 اس وقت ہم نے تمہیں چھوٹ دی ہوئی ہے ڈھیل دی ہوئی ہے

 

   سَنَفۡرُغُ لَكُمۡ أَيُّهَ ٱلثَّقَلَانِ  

عنقریب وہ وقت آیا چاہتا ہے ، جب ہم تمہاری  رسی کھینچیں گے

          

 فَبِاَىِّ اٰلَاۤءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ‏

اب بتاؤ کون سی قدرت کا انکار ہے؟؟



جاری ہے ۔۔۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں