تدبر سورہ الرحمٰن ۔۔۔ از استاد نعمان علی خان ۔۔۔ حصہ 24



 تدبر سورۃ الرحمن


از استاد نعمان علی خان


پارٹ 24 آیات (45-43)


 هٰذِهٖ جَهَنَّـمُ الَّتِىْ يُكَذِّبُ بِـهَا الْمُجْرِمُوْنَ 

یہی وہ دوزخ ہے جسے مجرم جھٹلاتے تھے. 


 "جہنم" فارسی کا لفظ ہے جو عربی میں آیا اور اس کے معنی ہیں" عقوبت خانہ".  یہ ہے وہ عذاب جسے مجرمین جھٹلاتے تھے. اللہ تعالٰی کہتے ہیں کہ اللہ کی عنایات کو جھٹلانا، اپنے انجامِ کار کو جھٹلانے کے ہی برابر ہے. ان غافلوں نے کبھی یہ سوچا ہی نہ تھا کہ ان کا یہ انجام ہو گا. ہمارے دور میں لوگ اس سے بھی آگے بڑھ چکے ہیں اور عذابِ الہی و جہنم کو مذاق سمجھ کے فلموں و ڈراموں میں دکھایا جاتا ہے. 


 هٰذِهٖ اور تِلْكَ میں کیا فرق ہے؟  "هٰذِهٖ" استعمال ہوتا ہے ایسی چیز کے لیے جو قریب ہو، یہ سامنے کی چیز، جبکہ تِلْكَ یعنی وہ، کچھ ایسا جو دور ہو. اللہ تعالٰی نے یہاں "هٰذِهٖ" کا لفظ استعمال کیا تاکہ ہمیں اندازہ ہو جائے کہ قیامت دور نہیں، نزدیک ہی ہے. 


 يَطُوْفُوْنَ بَيْنَـهَا وَبَيْنَ حَـمِيْـمٍ اٰنٍ

گناہ گار جہنم میں اور کھولتے ہوئے پانی میں تڑپتے پھریں گے.


 اللہ تعالٰی یہ منظر بیان کرتے ہیں کہ دوزخ میں لوگ پانی کو دیکھیں گے.   طُوْف کہتے ہیں آگے پیچھے ہونے کو. وہ  پانی کو ابلتے ہوئے دیکھیں گے . اٰنٍ یعنی پانی ابل کر جل رہا ہو گا. تو وہ واپس آگ کی طرف دوڑیں گے کہ شاید یہ ٹھنڈی ہو اور پھر اسی طرح وہ آگ اور پانی کے درمیان مسلسل طواف کرتے دوڑتے پھریں گے. 


 فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُـمَا تُكَـذِّبَانِ 

پھر(اے گروہ جن و انس) تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے.

 

 یہ جہنمیوں کے لیے طنز بھی ہو سکتا ہے. کہ اگر تم یہ جہنم کا منظر  فرض کرو اور اس کے اثرات پہ غور کرو تو تم کیسے اللہ کی آیات سے انکار کر سکتے ہو؟


جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں