سیرت النبی کریم ﷺ..قسط 201


سیرت النبی کریم ﷺ..قسط 201

بادشاہوں اور اُمراء کے نام خطوط:

صلح حدیبیہ درحقیقت اسلام اور مسلمانوں کی زندگی میں ایک نئی تبدیلی کا آغاز تھا کیونکہ اسلام کی عداوت ودشمنی میں قریش سب سے زیادہ مضبوط ، ہٹ دھرم اور لڑاکا قوم کی حیثیت رکھتے تھے.. اس لیے جب وہ جنگ کے میدان میں پسپا ہو کرامن وسلامتی کی طرف آگئے تو احزاب کے تین بازوؤں قریش ، غطفان اور یہود میں سب سے مضبوط بازو ٹوٹ گیا اور چونکہ قریش ہی پورے جزیرۃ العرب میں بت پرستی کے نمائندے اور سربراہ تھے اس لیے میدان جنگ سے ان کے ہٹتے ہی بت پرستوں کے جذبات سرد پڑگئے اور دشمنانہ روش میں بڑی حد تک تبدیلی آگئی.. چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس صلح کے بعد غطفان کی طرف سے بھی کسی بڑی تگ ودو اور شور وشر کا مظاہرہ نہیں ہوا بلکہ انہوں نے کچھ کیا بھی تو یہود کے بھڑکانے پر..

جہاں تک یہود کا تعلق ہے تو وہ یثرب سے جلاوطنی کے بعد خیبر کو اپنی دسیسہ کاریوں اور سازشوں کا اڈہ بنا چکے تھے.. وہاں ان کے شیطان انڈے بچے دے رہے تھے اور فتنے کی آگ بھڑکانے میں مصروف تھے.. وہ مدینہ کے گرد وپیش آباد بدوؤں کو بھڑکاتے رہتے تھے اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مسلمانوں کے خاتمے یا کم ازکم انہیں بڑے پیمانے پر زک پہنچانے کی تدبیریں سوچتے رہتے تھے.. اس لیے صلح حدیبیہ کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سب سے پہلا اور فیصلہ کن راست اقدام اسی مرکز شروفساد کے خلاف کیا..

بہر حال امن کے اس مرحلے پر جو صلح حدیبیہ کے بعد شروع ہوا تھا , مسلمانوں کو اسلامی دعوت پھیلانے اور تبلیغ کرنے کا اہم موقع ہاتھ آگیا تھا.. اس لیے اس میدان میں ان کی سرگرمیاں تیز تر ہوگئیں جو جنگی سرگرمیوں پر غالب رہیں.. لہٰذا مناسب ہوگا کہ اس دور کی دو قسمیں کردی جائیں..

1.. تبلیغی سرگرمیاں اور بادشاہوں اور سربراہوں کے نام خُطوط..
2.. جنگی سرگرمیاں..

پھر بے جا نہ ہوگا کہ اس مرحلے کی جنگی سرگرمیاں پیش کرنے سے پہلے بادشاہوں اور سربراہوں کے نام خطوط کی تفصیلات پیش کردی جائیں کیونکہ طبعی طور پر اسلامی دعوت مقدم ہے بلکہ یہی وہ اصل مقصد ہے جس کے لیے مسلمانوں نے طرح طرح کی مشکلات ومصائب ، جنگ اور فتنے ، ہنگامے اور اضطرابات برداشت کیے تھے..

①: نجاشی شاہ حبش کے نام خط:

اس نجاشی کا نام " اَصْحَمہ بن اَبْجَر " تھا.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے نام جو خط لکھا اسے عَمرو بن امیہ ضمری رضی اللہ عنہ کے بدست ۶ ھ کے اخیر یا ۷ ھ کے شروع میں روانہ فرمایا.. بیہقی نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے خط کی عبارت روایت کی ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نجاشی کے پاس روانہ کیا تھا.. اس کا ترجمہ یہ ہے..

''یہ خط ہے محمد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے نجاشی اصحم شاہ ِ حبش کے نام.. اس پر سلام جو ہدایت کی پیروی کرے اور اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے.. میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ وحدہ لا شریک لہ کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں.. اس نے نہ کوئی بیوی اختیار کی نہ لڑکا اور ( میں اس کی بھی شہادت دیتا ہوں کہ ) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کا بندہ اور رسول ہے اور میں تمہیں اسلام کی دعوت دیتا ہوں کیوں کہ میں اس کا رسول ہوں.. لہٰذا تم اسلام لاؤ , سلامت رہوگے.. "اے اہل کتاب ! ایک ایسی بات کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان برابر ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی اور عبادت نہ کریں ، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور ہم میں سے بعض بعض کو اللہ کے بجائے رب نہ بنائے.. پس آگر وہ منہ موڑ یں تو کہہ دو کہ گواہ رہو ہم مسلمان ہیں" اگر تم نے (یہ دعوت ) قبول نہ کی تو تم پر اپنی قوم کے نصاریٰ کا گناہ ہے.. "

(مستدر ک حاکم ۲/۶۲۳،دلائل النبوۃ ، بیہقی ۲/۳۰۸)

ڈاکٹر حمیداللہ صاحب نے ایک اور خط کی عبارت درج فرمائی ہے جو ماضی قریب میں دستیاب ہوا ہے اور صرف ایک لفظ کے اختلاف کے ساتھ یہی خط علامہ ابن قیم کی کتاب زاد المعاد میں بھی موجود ہے.. ڈاکٹرصاحب موصوف نے اس خط کی عبارت کی تحقیق میں بڑی عرق ریزی سے کام لیا ہے.. دَورِ جدید کے اکتشافات سے بہت کچھ استفادہ کیا ہے اور اس خط کا فوٹو کتاب کے اندر ثبت فرمایا ہے.. اس کا ترجمہ یہ ہے..

بسم اللہ الرحمن الرحیم..
محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جانب سے نجاشی عظیم حبشہ کے نام..

اس شخص پرسلام جو ہدایت کی پیروی کرے.. اما بعد ! میں تمہاری طرف اللہ کی حمد کرتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں.. جو قدوس اور سلام ہے , امن دینے والا محافظ ونگراں ہے اور میں شہادت دیتا ہوں کہ عیسیٰ ابن مریم اللہ کی روح اور اس کا کلمہ ہیں.. اللہ نے انہیں پاکیزہ اور پاک دامن مریم بتول کی طرف ڈال دیا اور اس کی روح اور پھونک سے مریم عیسیٰ کے لیے حاملہ ہوئیں جیسے اللہ نے آدم کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا.. میں اللہ وحدہ لاشریک لہ کی جانب اور اس کی اطاعت پر ایک دوسرے کی مدد کی جانب دعوت دیتا ہوں اور اس بات کی طرف (بلاتا ہوں ) کہ تم میری پیروی کرو اور جو کچھ میرے پاس آیا ہے اس پر ایمان لاؤ کیونکہ میں اللہ کا رسول ہوں اور میں تمہیں اور تمہارے لشکر کو اللہ عزوجل کی طرف بلاتا ہوں اور میں نے تبلیغ ونصیحت کردی , لہٰذا میری نصیحت قبول کرو اور اس شخص پر سلام جو ہدایت کی پیروی کرے.."

(رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیاسی زندگی.. مولفہ ڈاکٹر حمید اللہ , ص ۱۰۸ ، ۱۰۹ ، ۱۲۲، ۱۲۳ ، ۱۲۴، ۱۲۵، زاد المعاد میں آخری فقرہ والسلام علی من اتبع الہدی کے بجائے أسلم أنت ہے.. دیکھئے زاد المعاد ۳/۶۰)

ڈاکٹر حمیداللہ صاحب نے بڑے یقینی انداز میں کہا ہے کہ یہی وہ خط ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حدیبیہ کے بعد نجاشی کے پاس روانہ فرمایا تھا..

بہرحال جب عَمرو بن امیہ ضمری رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خط نجاشی کے حوالے کیا تو نجاشی نے اسے لے کر آنکھ پر رکھا اور تخت سے زمین پر اتر آیا اور حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس اس بارے میں خط لکھا جو یہ ہے..

بسم اللہ الرحمن الرحیم..
محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں نجاشی اصحمہ کی طرف سے..

اے اللہ کے نبی ! آپ پر اللہ کی طرف سے سلام اور اس کی رحمت اور برکت ہو.. وہ اللہ جس کے سوا کوئی لائق ِ عبادت نہیں.. اما بعد ! اے اللہ کے رسول ! مجھے آپ کا گرامی نامہ ملا جس میں آپ نے عیسیٰ علیہ السلام کا معاملہ ذکر کیا ہے.. رب آسمان و زمین کی قسم ! آپ نے جو کچھ فرمایا ہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس سے ایک تنکہ بڑھ کر نہ تھے.. وہ ویسے ہی ہیں جیسے آپ نے ذکر فرمایا ہے.. پھر آپ نے جو کچھ ہمارے پاس بھیجا ہے ہم نے اسے جانا اور آپ کے چچیرے بھائی اور آپ کے صحابہ کی مہمان نوازی کی اور میں شہادت دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے سچے اور پکے رسول ہیں اور میں نے آپ سے بیعت کی اور آپ کے چچیرے بھائی سے بیعت کی اور ان کے ہاتھ پر اللہ رب العالمین کے لیے اسلام قبول کیا..

(زادا لمعاد ۳/۶۱)

نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نجاشی سے یہ بھی طلب کیا تھا کہ وہ حضرت جعفر رضی اللہ عنہ اور دوسرے مہاجرین ِ حبشہ کو روانہ کردے.. چنانچہ اس نے حضرت عمرو بن امیہ ضمری رضی اللہ عنہ کے ساتھ دو کشتیوں میں ان کی روانگی کا انتظام کردیا.. ایک کشتی کے سوار جس میں حضرت جعفر اور حضرت ابو موسیٰ اشعری اور کچھ دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم تھے ، براہ راست خیبر پہنچ کر خدمتِ نبوی میں حاضر ہوئے اور دوسری کشتی کے سوار جن میں زیادہ تر بال بچے تھے , سیدھے مدینہ پہنچے.. (ابن ہشام ۲/۳۵۹)

مذکورہ نجاشی نے غزوہ تبوک کے بعد رجب ۹ ھ میں وفات پائی.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی وفات ہی کے دن صحابہ کرام کو اس کی موت کی اطلاع دی اور اس پر غائبانہ نماز جنازہ پڑھی.. اس کی وفات کے بعد دوسرا بادشاہ اس کا جانشین ہو کر سریر آرائے سلطنت ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے پاس بھی ایک خط روانہ فرمایا لیکن یہ نہ معلوم ہوسکا کہ اس نے اسلام قبول کیا یا نہیں..

===============>> جاری ھے..

سیرت المصطفی.. مولانا ادریس کاندھلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..

سیرت النبی کریم ﷺ..قسط 201 بادشاہوں اور اُمراء کے نام خطوط: صلح حدیبیہ درحقیقت اسلام اور مسلمانوں کی زندگی میں ایک نئی تبد...

سیرت النبی کریم ﷺ ..قسط 200


سیرت النبی کریم ﷺ ..قسط 200

مکہ کے کمزور مسلمانوں کا مسئلہ حل ہونا:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ واپس تشریف لا کر مطمئن ہوچکے تو ایک مسلمان جسے مکہ میں اذیتیں دی جا رہی تھیں , چھوٹ کر بھاگ آیا.. ان کا نام ابو بصیر رضی اللہ عنہ تھا.. وہ قبیلہ ثقیف سے تعلق رکھتے تھے اور قریش کے حلیف تھے.. قریش نے ان کی واپسی کے لیے دو آدمی بھیجے اور یہ کہلوایا کہ ہمارے اور آپ کے درمیان جو عہد وپیمان ہے اس کی تعمیل کیجیے..

نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابو بصیر رضی اللہ عنہ کو ان دونوں کے حوالے کردیا.. یہ دونوں انہیں ہمراہ لے کر روانہ ہوئے اور ذُوالحلیفہ پہنچ کر اترے اور کھجور کھانے لگے.. ابو بصیر رضی اللہ عنہ نے ایک شخص سے کہا.. "اے فلاں ! اللہ کی قسم ! میں دیکھتا ہوں کہ تمہاری یہ تلوار بڑی عمدہ ہے.." اس شخص نے اسے نیام سے نکال کر کہا.. "ہاں ہاں ! واللہ یہ بہت عمدہ ہے.. میں نے اس کا بارہا تجربہ کیا ہے.." ابو بصیر رضی اللہ عنہ نے کہا.. "ذرا مجھے دکھلاؤ , میں بھی دیکھوں.." اس شخص نے ابو بصیر رضی اللہ عنہ کو تلوار دے دی اور ابو بصیر رضی اللہ عنہ نے تلوار لیتے ہی اسے مار کر ڈھیر کردیا..

دوسرا شخص بھاگ کر مدینہ آیا اور دوڑتا ہوا مسجد نبوی میں گھس گیا.. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے دیکھ کر فرمایا.. "اس نے خطرہ دیکھا ہے.." وہ شخص نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس پہنچ کر بولا.. "میرا ساتھی اللہ کی قسم قتل کردیا گیا اور میں بھی قتل ہی کیا جانے والا ہوں.." اتنے میں ابو بصیر رضی اللہ عنہ آ گئے اور بولے.. "یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اللہ نے آپ کا عہد پورا کردیا.. آپ نے مجھے ان کی طرف پلٹا دیا , پھر اللہ نے مجھے ان سے نجات دے دی.."

ابو بصیر رضی اللہ عنہ چونکہ جانتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معاہدے کے پابند ہیں , اس لیے وہ مدینہ سے نکل کر ساحل سمندر پر آگئے.. ادھر ابو جندل بن سہیل رضی اللہ عنہ بھی چھوٹ بھاگے اور ابو بصیر رضی اللہ عنہ سے آ ملے.. اب قریش کا جو آدمی بھی اسلام لا کر بھاگتا , وہ ابو بصیر رضی اللہ عنہ سے آ ملتا.. یہاں تک کہ ان کی ایک جماعت اکٹھی ہوگئی..

اس کے بعد ان لوگوں کو ملک شام آنے جانے والے کسی بھی قریشی قافلے کا پتہ چلتا تو وہ اس سے ضرور چھیڑ چھاڑ کرتے اور قافلے والوں کو مار کر ان کا مال لوٹ لیتے.. قریش نے تنگ آکر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ اور قرابت کا واسطہ دیتے ہوئے یہ پیغام دیا کہ آپ انہیں اپنے پاس بلا لیں اور اب جو بھی آپ کے پاس جائے گا مامون رہے گا.. اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انھیں بلوالیا اور وہ مدینہ آگئے..

کبار قریش کا قبولِ اسلام....

اس معاہدہ ٔ صلح کے بعد ۷ھ کے اوائل میں حضرت عَمرو بن عاص ، خالد بن ولید اور عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہم مسلمان ہوگئے.. جب یہ لوگ خدمتِ نبوی میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. "مکہ نے اپنے جگر گوشو ں کو ہمارے حوالے کردیا ہے.."

اس بارے میں سخت اختلاف ہے کہ یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کس سنہ میں اسلام لائے.. اسماء الرجال کی عام کتابوں میں اسے ۸ ھ کا واقعہ بتایا گیا ہے لیکن نجاشی کے پاس حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کا واقعہ معروف ہے جو ۷ ھ کا ہے اور یہ بھی معلوم ہے کہ حضرت خالد رضی اللہ عنہ اور عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ اس وقت مسلمان ہوئے تھے جب عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ حبشہ سے واپس آئے تھے کیونکہ انہوں نے حبشہ سے واپس آکر مدینہ کا قصد کیا تو راستے میں ان دونوں سے ملاقات ہوئی اور تینوں حضرات نے ایک ساتھ خدمت نبوی میں حاضر ہوکر اسلام قبول کیا.. اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ سبھی حضرات ۷ ھ کے اوائل میں مسلمان ہوئے.. واللہ اعلم..

============>> جاری ھے..

سیرت المصطفی.. مولانا ادریس کاندھلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..

سیرت النبی کریم ﷺ ..قسط 200 مکہ کے کمزور مسلمانوں کا مسئلہ حل ہونا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ واپس تشریف لا کر...

سیرت النبی کریم ﷺ..قسط 199


سیرت النبی کریم ﷺ..قسط 199

صلح حدیبیہ: حضور ﷺ کی شاندارسیاسی بصیرت کا ایک نمونہ

صلح حدیبیہ کی مسلمانوں کی فتح عظیم تھی کیونکہ قریش نے اب تک مسلمانوں کا وجود تسلیم نہیں کیا تھا اور انہیں نیست ونابود کرنے کا تہیہ کیے بیٹھے تھے.. انہیں انتظار تھا کہ ایک نہ ایک دن یہ قوت دم توڑ دے گی.. اس کے علاوہ قریش جزیرۃ العرب کے دینی پیشوا اور دنیاوی صدر نشین ہونے کی حیثیت سے اسلامی دعوت اور عام لوگوں کے درمیان پوری قوت کے ساتھ حائل رہنے کے لیے کوشاں رہتے تھے.. اس پس منظر میں دیکھیے تو صلح کی جانب محض جھک جانا ہی مسلمانوں کی قوت کا اعتراف اور اس بات کا اعلان تھا کہ اب قریش اس قوت کو کچلنے کی طاقت نہیں رکھتے.. پھر تیسری دفعہ کے پیچھے صاف طور پر یہ نفسیاتی کیفیت کارفرما نظر آتی ہے کہ قریش کو دنیاوی صدر نشینی اور دینی پیشوائی کا جو منصب حاصل تھا اسے انہوں نے بالکل بھُلا دیا تھا اور اب انہیں صرف اپنی پڑی تھی.. ان کو اس سے کوئی سروکار نہ تھا کہ بقیہ لوگوں کا کیا بنتا ہے یعنی اگر سارے کا سارا جزیرۃ العرب حلقہ بگوش ِ اسلام ہوجائے تو قریش کو اس کی کوئی پروا نہیں اور وہ اس میں کسی طرح کی مداخلت نہ کریں گے..

کیا قریش کے عزائم اور مقاصد کے لحاظ سے یہ ان کی شکستِ فاش نہیں ہے..؟ اور مسلمانوں کے مقاصد کے لحاظ سے یہ فتحِ مبین نہیں ہے..؟ آخر اہلِ اسلام اور اعدائے اسلام کے درمیان جو خونریز جنگیں پیش آئی تھیں ان کا منشاء اور مقصد اس کے سوا کیا تھا کہ عقیدے اور دین کے بارے میں لوگوں کو مکمل آزادی اور خود مختاری حاصل ہوجائے یعنی اپنی آزاد مرضی سے جو شخص چاہے مسلمان ہو اور جو چاہے کافر رہے.. کوئی طاقت ان کی مرضی اور ارادے کے سامنے روڑا بن کر کھڑی نہ ہو.. مسلمانوں کا یہ مقصد تو ہرگز نہ تھا کہ دشمن کے مال ضبط کیے جائیں , انہیں موت کے گھاٹ اتارا جائے اور انہیں زبردستی مسلمان بنایا جائے.. اس صلح کے ذریعے مسلمانوں کا مذکورہ مقصد اپنے تمام اجزا اور لوازم سمیت حاصل ہو گیا اور اس طرح حاصل ہوگیا کہ بسا اوقات جنگ میں فتحِ مبین سے ہم کنارہونے کے باوجود حاصل نہیں ہو پاتا..

پھر اس آزادی کی وجہ سے مسلمانوں نے دعوت وتبلیغ کے میدان میں نہایت زبردست کامیابی حاصل کی.. چنانچہ مسلمان افواج کی تعداد جو اس صلح سے پہلے تین ہزار سے زائد کبھی نہ ہوسکی تھی وہ محض دو سال کے اندر فتح مکہ کے موقع پر دس ہزار ہوگئی..

دفعہ نمبر 2 بھی درحقیقت اس فتح ِ مبین کا ایک جزو ہے کیونکہ جنگ کی ابتدا مسلمانوں نے نہیں بلکہ مشرکین نے کی تھی.. جہاں تک مسلمانوں کی طلایہ گردیوں اور فوجی گشتوں کا تعلق ہے تو مسلمانوں کا مقصود ان سے صرف یہ تھا کہ قریش اپنے احمقانہ غرور میں اللہ کی راہ روکنے سے باز آ جائیں اور مساویانہ بنیاد پر معاملہ کرلیں یعنی ہر فریق اپنی اپنی ڈگر پر گامزن رہنے کے لیے آزاد رہے.. اب غور کیجیے کہ دس سالہ جنگ بند رکھنے کا معاہدہ آخر اس غرور اور اللہ کی راہ میں رکاوٹ سے باز آنے ہی کا توعہد ہے.. جو اس بات کی دلیل ہے کہ جنگ کا آغاز کرنے والا کمزور اور بے دست وپا ہو کر اپنے مقصد میں ناکام ہوگیا..

جہاں تک پہلی دفعہ کا تعلق ہے تو یہ بھی درحقیقت مسلمانوں کی ناکامی کے بجائے کامیابی کی علامت ہے کیونکہ یہ دفعہ درحقیقت اس پابندی کے خاتمے کا اعلان ہے جسے قریش نے مسلمانوں پر مسجد حرام میں داخلے سے متعلق عائد کر رکھی تھی.. البتہ اس دفعہ میں قریش کے لیے بھی تشفی کی اتنی سی بات تھی کہ وہ اس ایک سال مسلمانوں کو روکنے میں کامیاب رہے مگر ظاہر ہے کہ یہ وقتی اور بے حیثیت فائدہ تھا..

اس کے بعد اس صلح کے سلسلے میں یہ پہلو بھی قابل غور ہے کہ قریش نے مسلمانوں کو یہ تین رعایتیں دے کر صرف ایک رعایت حاصل کی جو دفعہ ۴ میں مذکور ہے لیکن یہ رعایت حد درجہ معمولی اور بے وقعت تھی اور اس میں مسلمانوں کا کوئی نقصان نہ تھا کیونکہ یہ معلوم تھا کہ جب تک مسلمان رہے گا , اللہ ، رسول اور مدینۃ الاسلام سے بھاگ نہیں سکتا.. اس کے بھاگنے کی صرف ایک ہی صورت ہوسکتی ہے کہ وہ مرتد ہوجائے.. خواہ ظاہراً خواہ در پردہ.. اور ظاہر ہے کہ جب مُرتد ہوجائے تو مسلمانوں کو اس کی ضرورت نہیں بلکہ اسلامی معاشرے میں اس کی موجودگی سے کہیں بہتر ہے کہ وہ الگ ہوجائے اور یہی وہ نکتہ ہے جس کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اس ارشاد میں اشارہ فرمایا تھا..

''جو ہمیں چھوڑ کران مشرکین کی طرف بھاگا اسے اللہ نے دور (یا برباد) کردیا..'' (صحیح مسلم باب صلح الحدیبیہ ۲/۱۰۵)

باقی رہے مکے کے وہ باشندے جو مسلمان ہوچکے تھے یا مسلمان ہونے والے تھے تو ان کے لیے اگرچہ اس معاہدے کی رو سے مدینہ میں پناہ گزین ہونے کی گنجائش نہ تھی لیکن اللہ کی زمین تو بہر حال کشادہ تھی.. کیا حبشہ کی زمین نے ایسے نازک وقت میں مسلمانوں کے لیے اپنی آغوش وا نہیں کردی تھی جب مدینہ کے باشندے اسلام کا نام بھی نہ جانتے تھے..؟ اسی طرح آج بھی زمین کا کوئی ٹکڑا مسلمانوں کے لیے اپنی آغوش کھول سکتا تھا اور یہی بات تھی جس کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اس ارشاد میں اشارہ فرمایا تھا..

''ان کا جو آدمی ہمارے پاس آئے گا , اللہ اس کے لیے کشادگی اور نکلنے کی جگہ بنادے گا.."

پھر اس قسم کے تحفظات سے اگرچہ نظر بظاہر قریش نے عزّو وقار حاصل کیا تھا مگر یہ درحقیقت قریش کی سخت نفسیاتی گھبراہٹ ، پریشانی ، اعصابی دباؤ اور شکستگی کی علامت ہے.. اس سے پتہ چلتا ہے کہ انہیں اپنے بُت پرست سماج کے بارے میں سخت خوف لاحق تھا اور وہ محسوس کررہے تھے کہ ان کا یہ سماجی گھروندا ایک کھائی کے ایسے کھوکھلے اور اندر سے کٹے ہوئے کنارے پر کھڑا ہے جو کسی بھی دم ٹوٹ گرنے والا ہے.. لہٰذا اس کی حفاظت کے لیے اس طرح کے تحفظات حاصل کر لینا ضروری ہیں..

دوسری طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس فراخ دلی کے ساتھ یہ شرط منظور کی کہ قریش کے یہاں پناہ لینے والے کسی مسلمان کو واپس نہ طلب کریں گے وہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے سماج کی ثابت قدمی اور پختگی پر پورا پورا اعتماد تھا اور اس قسم کی شرط آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے قطعا ً کسی اندیشے کا سبب نہ تھی..

==============>> جاری ھے..

سیرت المصطفی.. مولانا ادریس کاندھلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..

سیرت النبی کریم ﷺ..قسط 199 صلح حدیبیہ: حضور ﷺ کی شاندارسیاسی بصیرت کا ایک نمونہ صلح حدیبیہ کی مسلمانوں کی فتح عظیم تھی کیون...

سیرت النبی کریم ﷺ..قسط 198


سیرت النبی کریم ﷺ..قسط 198

مسلمانوں کا غم اور حضرت عمرؓ کا مناقشہ:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معاہدہ صلح لکھوا کر فارغ ہوچکے تو فرمایا.. "اٹھو اور اپنے اپنے جانور قربان کردو.." کوئی بھی نہ اٹھا.. سبھی بوجوہ سخت غم والم جیسے ایک سکتے کے عالم میں تھے.. حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بات تین مرتبہ دہرائی مگر پھر بھی کوئی نہ اٹھا تو آپ اُم سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے اور لوگوں کے اس طرزِ عمل کا ذکر کیا..

ام المومنین رضی اللہ عنہا نے کہا.. "یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایسا چاہتے ہیں تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے جایئے اور کسی سے کچھ کہے بغیر چُپ چاپ اپنا جانور ذبح کردیجیے اور اپنے حجام کو بلا کر سر منڈا لیجئے.." اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باہر تشریف لائے اور کسی سے کچھ کہے بغیر یہی کیا یعنی اپنا ہَدی کا جانور ذبح کردیا اور حجام بلا کر سرمنڈا لیا..

جب لوگوں نے دیکھا تو خود بھی اٹھ کر اپنے اپنے جانور ذبح کردیے اور اس کے بعد باہم ایک دوسرے کا سر مونڈنے لگے.. کیفیت یہ تھی کہ معلوم ہوتا تھا فرطِ غم کے سبب ایک دوسرے کو قتل کردیں گے.. اس موقعہ پر گائے اور اونٹ سات سات آدمیوں کی طرف سے ذبح کیے گئے.. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابوجہل کا ایک اونٹ ذبح کیا جس کی ناک میں چاندی کا ایک حلقہ تھا.. اس کا مقصد یہ تھا کہ مشرکین جل بھن کر رہ جائیں.. پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سرمنڈانے والوں کے لیے تین بار مغفرت کی دعا کی اور قینچی سے کٹانے والوں کے لیے ایک بار..

اس کے بعد کچھ مومنہ عورتیں آگئیں.. ان کے اولیاء نے مطالبہ کیا کہ حدیبیہ میں جو صلح مکمل ہوچکی ہے اس کی روسے انہیں واپس کیا جائے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ مطالبہ اس دلیل کی بنا پر مسترد کردیا کہ عورتیں اس معاہدے میں سرے سے داخل ہی نہ تھیں.. پھر اللہ تعالیٰ نے اسی سلسلے میں یہ آیت بھی نازل فرمائی..

''اے اہل ایمان جب تمہارے پاس مومنہ عورتیں ہجرت کرکے آئیں تو ان کا امتحان لو.. اللہ ان کے ایمان کو بہتر جانتا ہے.. پس اگر انہیں مومنہ جانو تو کفار کی طرف نہ پلٹاؤ.. نہ وہ کفار کے لیے حلال ہیں اور نہ کفار ان کے لیے حلال ہیں.. البتہ ان کے کافر شوہروں نے جو مہر ان کو دیے تھے اسے واپس دے دو.. (پھر ) تم پر کوئی حرج نہیں کہ ان سے نکاح کر لو جب کہ انہیں ان کے مہر ادا کرو اور کافرہ عورتوں کو اپنے نکاح میں نہ رکھو..'' (۶۰: ۱۰ )

اس آیت کے نازل ہونے کے بعد جب کوئی مومنہ عورت ہجرت کرکے آتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی روشنی میں اس کا امتحان لیتے کہ ''اے نبی ! جب تمہارے پاس مومن عورتیں آئیں اور اس بات پر بیعت کریں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کریں گی ، چوری نہ کریں گی ، زنا نہ کریں گی ، اپنی اولاد کو قتل نہ کریں گی , اپنے ہاتھ  پاؤں کے درمیا ن سے کوئی بہتان گھڑ کر نہ لائیں گی اور کسی معروف بات میں تمہاری نافرمانی نہ کریں گی تو ان سے بیعت لے لو اور ان کے لیے اللہ سے دعائے مغفرت کرو.. یقینا اللہ غفور رحیم ہے..'' (۶۰: ۱۲)

چنانچہ جو عورتیں اس آیت میں ذکر کی ہوئی شرائط کی پابندی کا عہد کرتیں , آپ ان سے فرماتے کہ میں نے تم سے بیعت کر لی ، پھر انہیں واپس نہ پلٹا تے..

اس حکم کے مطابق مسلمانوں نے اپنی کافرہ بیویوں کو طلاق دے دی.. اس وقت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی زوجیت میں دو عورتیں تھیں جو شرک پر قائم تھیں.. آپ نے ان دونوں کوطلاق دے دی..

معاہدۂ صلح کی دفعات میں دو باتیں بظاہر اس قسم کی تھیں کہ ان کی وجہ سے مسلمانوں کو سخت غم والم لاحق ہوا.. ایک یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بتایا تھا کہ آپ بیت اللہ تشریف لے جائیں گے اور اس کا طواف کریں گے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم طواف کیے بغیر واپس ہورہے تھے.. دوسرے یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور حق پر ہیں اور اللہ نے اپنے دین کو غالب کرنے کا وعدہ کیا ہے.. پھر کیا وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قریش کا دباؤ قبول کیا اور دب کر صلح کی..؟

یہ دونوں باتیں طرح طرح کے شکوک وشبہات اور گمان و وسوسے پیدا کر رہی تھیں.. ادھر مسلمانوں کے احساسات اس قدر مجروح تھے کہ وہ صلح کی دفعات کی گہرائیوں اور مآل پر غور کرنے کے بجائے حُزن وغم سے نڈھال تھے.. اور غالباً سب سے زیادہ غم حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو تھا.. چنانچہ انہوں نے خدمت ِ نبوی میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ "اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! کیا ہم لوگ حق پر اور وہ لوگ باطل پر نہیں ہیں..؟"

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. "کیوں نہیں..؟"

انہوں نے کہا.. "کیا ہمارے مقتولین جنت میں اور ان کے مقتولین جہنم میں نہیں ہیں..؟"

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمنے فرمایا.. "کیوں نہیں.."

انہوں نے کہا.. "تو پھر کیوں ہم اپنے دین کے بارے میں دباؤ قبول کریں اور ایسی حالت میں پلٹیں کہ ابھی اللہ نے ہمارے اور ان کے درمیان فیصلہ نہیں کیا ہے..؟"

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. "خطاب کے صاحبزادے ! میں اللہ کا رسول ہوں اور اس کی نافرمانی نہیں کرسکتا.. وہ میری مدد کرے گا اور مجھے ہرگز ضائع نہ کرے گا.."

انہوں نے کہا.. "کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم سے یہ بیان نہیں کیا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیت اللہ کے پاس تشریف لائیں گے اور اس کا طواف کریں گے..؟"

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. "کیوں نہیں.. لیکن کیا میں نے یہ بھی کہا تھا کہ ہم اسی سال آئیں گے..؟"

انہوں نے کہا.. "نہیں.."

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. "تو بہرحال تم بیت اللہ کے پاس آؤگے اور اس کا طواف کرو گے.."

اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے اور ان سے وہی بات کہی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہی تھی اور انہوں نے بھی ٹھیک وہی جواب دیا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیا تھا اور اخیر میں اتنا اور اضافہ کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رکاب تھامے رہو , یہاں تک کہ موت آجائے کیونکہ اللہ کی قسم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حق پر ہیں..

اس کے بعد إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِينًا (۴۸: ۱) کی آیات نازل ہوئیں جس میں اس صلح کو فتح ِ مبین قراردیا گیا ہے.. اس کا نزول ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو بلایا اور پڑھ کر سنایا.. اس سے ان کے دل کو سکون ہوگیا اور واپس چلے گئے..

بعد میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اپنی تقصیر کا احساس ہوا تو سخت نادم ہوئے.. خود ان کا بیان ہے کہ میں نے اس روز جو غلطی کی تھی اور جو بات کہہ دی تھی اس سے ڈر کر میں نے بہت سے اعمال کیے.. برابر صدقہ وخیرات کرتا رہا , روزے رکھتا اور نماز پڑھتا رہا اور غلام آزاد کرتا رہا.. یہاں تک کہ اب مجھے خیر کی امید ہے..

================>> جاری ھے..

سیرت المصطفی.. مولانا ادریس کاندھلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..

سیرت النبی کریم ﷺ..قسط 198 مسلمانوں کا غم اور حضرت عمرؓ کا مناقشہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معاہدہ صلح لکھوا کر فار...

سیرت النبی کریم ﷺ..قسط 197


سیرت النبی کریم ..قسط 197

صلح اور دفعات صلح:

قریش نے صورتِ حال کی نزاکت محسوس کرلی , لہٰذا جھٹ سُہیل بن عَمرو کو معاملات صلح طے کرنے کے لیے روانہ کیا اور یہ تاکید کردی کہ صلح میں لازما ً یہ بات طے کی جائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سال واپس چلے جائیں.. ایسا نہ ہو کہ عرب یہ کہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے شہر میں جبراً داخل ہوگئے..

ان ہدایات کو لے کر سہیل بن عمرو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس حاضر ہوا.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے آتا دیکھ کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا.. "تمہارا کا م تمہارے لیے سہل کردیا گیا.. اس شخص کو بھیجنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ قریش صلح چاہتے ہیں.."

سُہیل نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس پہنچ کر دیر تک گفتگو کی اور بالآخر طَرفَین میں صلح کی دفعات طے ہوگئیں جو یہ تھی..

1.. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سال مکہ میں داخل ہوئے بغیر واپس جائیں گے.. اگلے سال مسلمان مکہ آئیں گے اور تین روز قیام کریں گے.. ان کے ساتھ سوار کا ہتھیار ہوگا , میانوں میں تلواریں ہوں گی اور ان سے کسی قسم کا تعرض نہیں کیا جائے گا..

2.. دس سال تک فریقین جنگ بند رکھیں گے.. اس عرصے میں لوگ مامون رہیں گے.. کوئی کسی پر ہاتھ نہیں اُٹھائے گا..

3.. جو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہدو پیمان میں داخل ہونا چاہے , داخل ہوسکے گا اور جو قریش کے عہدو پیمان میں داخل ہونا چاہے , داخل ہوسکے گا.. جو قبیلہ جس فریق میں شامل ہوگا اس فریق کا ایک جزو سمجھا جائے گا.. لہٰذا ایسے کسی قبیلے پر زیادتی ہوئی تو خود اس فریق پر زیادتی متصور ہوگی..

4.. قریش کا جو آدمی اپنے سرپرست کی اجازت کے بغیر یعنی بھاگ کر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جائے گا , محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسے واپس کردیں گے لیکن محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھیوں میں سے جو شخص پناہ کی غرض سے بھاگ کر قریش کے پاس آئے گا قریش اسے واپس نہ کریں گے..

اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بلایا کہ تحریر لکھ دیں اور یہ املا کرایا.. "بسم اللہ الرحمن الرحیم.." اس پر سہیل نے کہا.. "ہم نہیں جانتے رحمن کیا ہے..؟ آپ یوں لکھئے ,,,, باِسْمِک اللہمَّ (اے اللہ تیرے نام سے )" نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ یہی لکھو..

اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ املا کرایا.. "یہ وہ بات ہے جس پر محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مصالحت کی.." اس پر سہیل نے کہا.. "اگر ہم جانتے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں تو پھر ہم نہ تو آپ کو بیت اللہ سے روکتے اور نہ جنگ کرتے.. لیکن آپ محمد بن عبداللہ لکھوائیے.."

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. "میں اللہ کا رسول ہوں اگرچہ تم لوگ جھٹلاؤ.." پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ محمد بن عبداللہ لکھیں اور لفظ ''رسول اللہ'' مٹادیں.. لیکن حضرت علی رضی اللہ عنہ نے گوارا نہ کیا کہ اس لفظ کو مٹائیں.. لہٰذا نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود اپنے ہاتھ سے مٹادیا.. اس کے بعد پوری دستاویز لکھی گئی..

پھر جب صلح مکمل ہوچکی تو بنو خُزاعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد وپیمان میں داخل ہوگئے.. یہ لوگ درحقیقت عبدالمطلب کے زمانے ہی سے بنو ہاشم کے حلیف تھے جیسا کہ آغازِ کتاب میں گزرچکا ہے.. اس لیے اس عہدو پیمان میں داخلہ درحقیقت اسی قدیم حلف کی تاکید اور پختگی تھی.. دوسری طرف بنو بکر قریش کے عہدو پیمان میں داخل ہوگئے..

نوشتہ صلح ابھی لکھا ہی جا رہا تھا کہ سہیل کے بیٹے ابو جندل رضی اللہ عنہ اپنی بیڑیاں گھسیٹتے آ پہنچے.. وہ زیریں مکہ سے نکل کر آئے تھے.. انہوں نے یہاں پہنچ کر اپنے آپ کو مسلمانوں کے درمیان ڈال دی.. سہیل نے کہا.. "یہ پہلا شخص ہے جس کے متعلق میں آپ سے معاملہ کرتا ہوں کہ آپ اسے واپس کردیں.."

نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. "ابھی تو ہم نے نوشتہ مکمل نہیں کیا ہے.."

اس نے کہا.. "تب میں آپ سے کسی بات پر صلح کا کوئی معاملہ ہی نہ کروں گا.."

نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. "اچھا تو تم اس کو میری خاطر چھوڑ دو.."

اس نے کہا.. "میں آپ کی خاطر بھی نہیں چھوڑ سکتا.." پھر سہیل نے ابو جندل رضی اللہ عنہ کے چہرے پر چانٹا مارا اور مشرکین کی طرف واپس کرنے کے لیے ان کے کرتے کا گلا پکڑ کر گھسیٹا..

ابو جندل رضی اللہ عنہ زور زور سے چیخ کر کہنے لگے.. "مسلمانو ! کیا میں مشرکین کی طرف واپس کیا جاؤں گا کہ وہ مجھے میرے دین کے متعلق فتنے میں ڈالیں..؟"

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. "ابو جندل ! صبر کرو اور اسے باعثِ ثواب سمجھو.. اللہ تمہارے لیے اور تمہارے ساتھ جو دوسرے کمزور مسلمان ہیں , ان سب کے لیے کشادگی اور پناہ کی جگہ بنائے گا.. ہم نے قریش سے صلح کر لی ہے اور ہم نے ان کو اور انہوں نے ہم کو اس پر اللہ کا عہد دے رکھا ہے.. اس لیے ہم بدعہدی نہیں کرسکتے.."

=============>> جاری ھے..

سیرت المصطفی.. مولانا ادریس کاندھلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..

سیرت النبی کریم  ﷺ ..قسط 197 صلح اور دفعات صلح: قریش نے صورتِ حال کی نزاکت محسوس کرلی , لہٰذا جھٹ سُہیل بن عَمرو کو معاملات ...

سیرت النبی کریم ﷺ..قسط 196


سیرت النبی کریم ..قسط 196

حضرت عثمانؓ کی سفارت اور بیعت رضوان:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سوچا کہ ایک سفیر روانہ فرمائیں جو قریش کے سامنے مؤکد طریقے پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موجودہ سفر کے مقصد وموقف کی وضاحت کردے.. اس کام کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو بلایا اور قریش کے پاس روانگی کا حکم دیتے ہوئے فرمایا.. "انہیں بتلادو کہ ہم لڑنے نہیں آئے ہیں , عمرہ کرنے آئے ہیں.. انہیں اسلام کی دعوت بھی دو.."

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو یہ حکم بھی دیا کہ وہ مکہ میں اہل ایمان مردوں اور عورتوں کے پاس جاکر انہیں فتح کی بشارت سنا دیں اور یہ بتلا دیں کہ اللہ عزوجل اب اپنے دین کو مکہ میں ظاہر وغالب کرنے والا ہے.. یہاں تک کہ ایمان کی وجہ سے کسی کو یہاں روپوش ہونے کی ضرورت نہ ہوگی..

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیغام لے کر روانہ ہوئے.. مقام بلدح میں قریش کے پاس سے گذرے تو انہوں نے پوچھا.. "کہاں کا ارادہ ہے..؟" فرمایا.. "مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ اور یہ پیغام دے کر بھیجا ہے.."

قریش نے کہا.. "ہم نے آپ کی بات سن لی.. آپ اپنے کام پر جائیے.." ادھر سعید بن عاص نے اُٹھ کر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو مرحبا کہا اور اپنے گھوڑے پر زین کس کر آپ کو سوار کیا اور ساتھ بٹھا کر اپنی پناہ میں مکہ لے گیا.. وہاں جا کر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے سربراہان ِ قریش کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیغام سنایا.. اس سے فارغ ہوچکے تو قریش نے پیشکش کی کہ آپ بیت اللہ کا طواف کرلیں مگر آپ رضی اللہ عنہ نے یہ پیش کش مسترد کردی اور یہ گورا نہ کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طواف کرنے سے پہلے خود طواف کرلیں..

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کی افواہ اور بیعت رضوان..

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اپنی سفارت کی مہم پوری کر چکے تھے لیکن قریش نے انہیں اپنے پاس روک لیا.. غالباً وہ چاہتے تھے کہ پیش آمدہ صورتِ حال پر باہم مشورہ کرکے کوئی قطعی فیصلہ کرلیں اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو ان کے لائے ہوئے پیغام کا جواب دے کر واپس کریں مگر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دیر تک رُکے رہنے کی وجہ سے مسلمانوں میں یہ افواہ پھیل گئی کہ انہیں قتل کردیا گیا ہے..

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. "ہم اس جگہ سے ٹل نہیں سکتے , یہاں تک کہ لوگوں سے معرکہ آرائی کرلیں.." پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کو بیعت کی دعوت دی.. صحابہ کرام ٹوٹ پڑے اور اس پر بیعت کی کہ میدان جنگ چھوڑ کر بھاگ نہیں سکتے.. ایک جماعت نے موت پر بیعت کی یعنی مر جائیں گے مگر میدان ِ جنگ نہ چھوڑیں گے..

سب سے پہلے ابوسنان اسدی رضی اللہ عنہ نے بیعت کی.. حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے تین بار بیعت کی.. شروع میں ، درمیان میں اور اخیر میں.. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود اپنا ہاتھ پکڑکر فرمایا.. "یہ عثمان کا ہاتھ ہے.." پھر جب بیعت مکمل ہوچکی تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بھی آ گئے اور انہوں نے بھی بیعت کی.. اس بیعت میں صرف ایک آدمی نے جو منافق تھا , شرکت نہیں کی.. اس کا نام جد بن قیس تھا..

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بیعت ایک درخت کے نیچے لی.. حضرت عمر رضی اللہ عنہ دست مبارک تھامے ہوئے تھے اور حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ نے درخت کی بعض ٹہنیاں پکڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اوپر سے ہٹا رکھی تھیں.. اسی بیعت کا نام بیعتِ رضوان ہے اور اسی کے بارے میں اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی ہے..

لَّقَدْ رَ‌ضِيَ اللَّـهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَ‌ةِ (۴۸: ۱۸)
''اللہ مومنین سے راضی ہوا , جب کہ وہ آپ سے درخت کے نیچے بیعت کررہے تھے..''

=============>> جاری ھے..

سیرت المصطفی.. مولانا ادریس کاندھلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..

سیرت النبی کریم  ﷺ ..قسط 196 حضرت عثمانؓ کی سفارت اور بیعت رضوان: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سوچا کہ ایک سفیر روان...

سیرت النبی کریم ﷺ..قسط 195


سیرت النبی کریم ﷺ..قسط 195

قریش کے ایلچی:

مکرز بن حفص کے واپس آجانے کے بعد حلیس بن علقمہ نامی بنوکنانہ کے ایک آدمی نے کہا.. "مجھے ان کے پاس جانے دو.." جب وہ نمودار ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام سے فرمایا.. "یہ فلاں شخص ہے.. یہ ایسی قوم سے تعلق رکھتا ہے جو ہَدْی کے جانوروں کا بہت احترام کرتی ہے , لہٰذا جانوروں کو کھڑا کر دو.."

صحابہ نے جانوروں کو کھڑا کردیا اور خود بھی لبیک پکارتے ہوئے اس کا استقبال کیا.. اس شخص نے یہ کیفیت دیکھی تو کہا.. "سبحان اللہ ! ان لوگوں کو بیت اللہ سے روکنا ہرگز مناسب نہیں.." اور وہیں سے اپنے ساتھیوں کے پاس واپس پلٹ گیا اور بولا.. "میں نے ہدی کے جانور دیکھے ہیں جن کے گلوں میں قلاوے ہیں اور جن کی کوہان چیری ہوئی ہیں.. اس لیے میں مناسب نہیں سمجھتا کہ انہیں بیت اللہ سے روکا جائے.." اس پر قریش اور اس شخص میں کچھ ایسی باتیں ہوئیں کہ وہ تاؤ میں آگیا..

اس موقع پر عروہ بن مسعود ثقفی نے مداخلت کی اور بولا.. "اس شخص نے تمہارے سامنے ایک اچھی تجویز پیش کی ہے.. لہٰذا اسے قبول کرلو اور مجھے ان کے پاس جانے دو.." چنانچہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور گفتگو شروع کی.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے بھی وہی بات کہی جو بدیل سے کہی تھی.. اس پر عروہ نے کہا.. "اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)! یہ بتایئے کہ اگر آپ نے اپنی قوم کا صفایا بھی کردیا تو کیا اپنے آپ سے پہلے کسی عرب کے متعلق سنا ہے کہ اس نے اپنی قوم کا صفایا کردیا ہو اور اگر دوسری صورتِ حال پیش آئی تو اللہ کی قسم ! میں ایسے چہرے دیکھ رہا ہوں جو اسی لائق ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چھوڑ کر بھاگ جائیں.."

اس پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا.. "ہم حضور کو چھوڑ کر بھاگیں گے..؟" عروہ نے کہا.. "یہ کون ہے..؟" لوگوں نے کہا.. "ابوبکر (رضی اللہ عنہ) ہیں.." اس کے بعد عروہ پھر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے گفتگو کرنے لگا.. وہ جب گفتگو کرتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ڈاڑھی پکڑ لیتا.. مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سر کے پاس ہی کھڑے تھے.. ہاتھ میں تلوار تھی اور سر پر خُود.. عروہ جب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی داڑھی پر ہاتھ بڑھاتا تو وہ تلوار کے دستے سے اس کے ہاتھ پر مارتے اور کہتے کہ اپنا ہاتھ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی داڑھی سے پرے رکھ..

اس کے بعد عروہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ صحابہ کے تعلق ِ خاطر کا منظر دیکھنے لگا.. پھر اپنے رفقاء کے پاس واپس آیا اور بولا.. "اے قوم ! واللہ میں قیصر وکسریٰ اور نجاشی جیسے بادشاہوں کے پاس جاچکا ہوں.. واللہ میں نے کسی بادشاہ کو نہیں دیکھا کہ اس کے ساتھی اُس کی اتنی تعظیم کرتے ہوں جتنی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعظیم کرتے ہیں.. جب وہ کوئی حکم دیتے تھے تواس کی بجاآوری کے لیے سب دوڑ پڑتے تھے اور جب وضو کرتے تھے تو معلوم ہوتا تھا کہ اس کے وضو کے پانی کے لیے لوگ لڑ پڑیں گے اور جب کوئی بات بولتے تھے تو سب اپنی آوازیں پست کرلیتے تھے اور فرطِ تعظیم کے سبب انہیں بھرپورنظر نہ دیکھتے تھے اور انہوں نے تم پر ایک اچھی تجویز پیش کی ہے , لہٰذا اسے قبول کرلو.. وہی ہے جس نے ان کے ہاتھ تم سے روکے..

جب قریش کے پُرجوش اور جنگ باز نوجوان نے دیکھا کہ ان کے سر برآوردہ حضرات صلح کے جویا ہیں تو انہوں نے صلح میں ایک رخنہ اندازی کا پروگرام بنایا اور یہ طے کیا کہ رات میں یہاں سے نکل کر چپکے سے مسلمانوں کے کیمپ میں گھس جائیں اور ایسا ہنگامہ برپا کردیں کہ جنگ کی آگ بھڑک اٹھے.. پھر انہوں نے اس پروگرام کی تنفیذ کے لیے عملی قدم بھی اٹھایا.. چنانچہ رات کی تاریکی میں ستر یا اسیّ نوجوانوں نے جبل تنعیم سے اتر کر مسلمانوں کے کیمپ میں چپکے سے گھسنے کی کوشش کی لیکن اسلامی پہرے داروں کے کمانڈر محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے ان سب کو گرفتار کرلیا.. پھر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صلح کی خاطر ان سب کو معاف کرتے ہوئے آزاد کردیا..

=============>> جاری ھے..

سیرت المصطفی.. مولانا ادریس کاندھلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..

سیرت النبی کریم ﷺ..قسط 195 قریش کے ایلچی: مکرز بن حفص کے واپس آجانے کے بعد حلیس بن علقمہ نامی بنوکنانہ کے ایک آدمی نے کہا.. ...

سیرت النبی کریم ﷺ..قسط 194


سیرت النبی کریم ﷺ..قسط 194

بیت اللہ سے مسلمانوں کو روکنے کی کوشش:

قریش کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روانگی کا عِلم ہوا تو اس نے ایک مجلس ِ شوریٰ منعقد کی اور طے کیا کہ جیسے بھی ممکن ہو مسلمانوں کو بیت اللہ سے دور رکھا جائے.. چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب احابیش سے ہٹ کر اپنا سفر جاری رکھا تو بنی کعب کے ایک آدمی نے آکر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اطلاع دی کہ قریش نے مقام ذی طویٰ میں پڑاؤ ڈال رکھا ہے اور خالد بن ولید دو سو سواروں کا دستہ لے کر کُرَاع الغمیم میں تیار کھڑے ہیں.. (کُراع الغمیم ، مکہ جانے والی مرکزی اور کاروانی شاہراہ پر واقع ہے)

خالد نے مسلمانوں کو روکنے کی بھی کوشش کی.. چنانچہ انہوں نے اپنے سواروں کو ایسی جگہ تعینات کیا جہاں سے دونوں فریق ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے.. خالد نے ظہر کی نماز میں یہ بھی دیکھا کہ مسلمان رکوع اور سجدے کررہے ہیں تو کہنے لگے کہ یہ لوگ غافل تھے.. ہم نے حملہ کر دیا ہوتا تو انھیں مار لیا ہوتا.. اس کے بعد طے کیا کہ عصر کی نماز میں مسلمانوں پر اچانک ٹوٹ پڑیں گے لیکن اللہ نے اسی دوران صلوٰۃ خوف (حالت جنگ کی مخصوص نماز) کا حکم نازل کردیا اور خالد کے ہاتھ سے موقع جاتا رہا..

خون ریز ٹکراؤ سے بچنے کی کوشش اور راستے کی تبدیلی..

ادھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کُراع الغمیم کا مرکزی راستہ چھوڑ کر ایک دوسرا پُر پیچ راستہ اختیار کیا جو پہاڑی گھاٹیوں کے درمیان سے ہو کر گزرتا تھا یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم داہنے جانب حمش کے درمیان سے گزرتے ہوئے ایک ایسے راستے پر چلے جو ثنیۃ المرار پر نکلتا تھا.. ثنیۃ المرار سے حدیبیہ میں اترتے ہیں اور حدیبیہ مکہ کے زیریں علاقہ میں واقع ہے.. اس راستے کو اختیار کرنے کا فائدہ یہ ہوا کہ کُراع الغمیم کا وہ مرکزی راستہ جو تنعیم سے گزر کر حرم تک جاتا تھا اور جس پر خالد بن ولید کا رسالہ تعینات تھا , وہ بائیں جانب چھوٹ گیا.. خالد نے مسلمانوں کے گرد وغبار کو دیکھ کر جب یہ محسوس کیا کہ انہوں نے راستہ تبدیل کردیا ہے تو گھوڑے کو ایڑ لگائی اور قریش کو اس نئی صورت حال کے خطرے سے آگاہ کرنے کے لیے بھاگم بھاگ مکہ پہنچے..

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا سفر بدستور جاری رکھا.. جب ثنیۃ المرار پہنچے تو اونٹنی بیٹھ گئی.. لوگوں نے کہا "حل حل" لیکن وہ بیٹھی ہی رہی.. لوگوں نے کہا "قصواء اڑگئی ہے.." آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. "قصواء اڑی نہیں ہے اور نہ اس کی یہ عادت ہے لیکن اسے اس ہستی نے روک رکھا ہے جس نے ہاتھی کو روک دیا تھا.." پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. "اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! یہ لوگ کسی بھی ایسے معاملے کا مطالبہ نہیں کریں گے جس میں اللہ کی حُرمتوں کی تعظیم کررہے ہوں لیکن میں اسے ضرور تسلیم کر لوں گا.." اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اونٹنی کو ڈانٹا تو وہ اچھل کر کھڑی ہوگئی.. پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے راستہ میں تھوڑی سی تبدیلی کی اور اقصائے حدیبیہ میں ایک چشمہ پر نزول فرمایا جس میں تھوڑا سا پانی تھا اور اسے لوگ ذرا ذرا سا لے رہے تھے.. چنانچہ چند ہی لمحوں میں سارا پانی ختم ہوگیا.. اب لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پیاس کی شکایت کی.. آپ نے ترکش سے ایک تیر نکالا اور حکم دیا کہ چشمے میں ڈال دیں.. لوگوں نے ایسا ہی کیا.. اس کے بعد واللہ ! اس چشمے سے مسلسل پانی ابلتا رہا.. یہاں تک کہ تمام لوگ آسودہ ہو کر واپس ہوگئے..

بدیل بن ورقاء کا توسط..

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مطمئن ہوچکے تو بُدَیل بن ورقاء خزاعی اپنے قبیلہ خزاعہ کے چند افراد کی معیّت میں حاضر ہوا.. تہامہ کے باشندوں میں یہی قبیلہ (خزاعہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خیر خواہ تھا.. بدیل نے کہا.. "میں کعب بن لؤی کو دیکھ کر آرہا ہوں کہ وہ حدیبیہ کے فراواں پانی پر پڑاؤ ڈالے ہوئے ہیں.. ان کے ہمراہ عورتیں اور بچے بھی ہیں.. وہ آپ سے لڑنے اور آپ کو بیت اللہ سے روکنے کا تہیہ کیے ہوئے ہیں.."

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. "ہم کسی سے لڑنے نہیں آئے ہیں.. قریش کو لڑائیوں نے توڑ ڈالا ہے اور سخت ضرر پہنچایا ہے.. اس لیے اگر وہ چاہیں تو ان سے ایک مدت طے کرلوں اور وہ میرے اور لوگوں کے درمیان سے ہٹ جائیں اور اگر وہ چاہیں تو جس چیز میں لوگ داخل ہوئے ہیں اس میں وہ بھی داخل ہوجائیں ورنہ ان کو راحت تو حاصل ہی رہے گی اور اگر انہیں لڑائی کے سوا کچھ منظور نہیں تو اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! میں اپنے دین کے معاملے میں ان سے اس وقت تک لڑتا رہوں گا جب تک کہ میری گردن جدا نہ ہوجائے یا جب تک اللہ اپنا امر نافذ نہ کردے.."

بُدَیل نے کہا.. "آپ جو کچھ کہہ رہے ہیں میں اسے قریش تک پہنچادوں گا.." اس کے بعد وہ قریش کے پاس پہنچا اور بولا.. "میں ان صاحب کے پا س سے آرہا ہوں.. میں نے ان سے ایک بات سنی ہے.. اگر چاہو تو پیش کردوں.."

اس پر بیوقوفوں نے کہا.. "ہمیں کوئی ضرورت نہیں کہ تم ہم سے ان کی کوئی بات بیان کرو.." لیکن جو لوگ سوجھ بوجھ رکھتے تھے انہوں نے کہا.. "لاؤ سناؤ تم نے کیا سنا ہے..؟"

بدیل نے کہا.. "میں نے انہیں یہ اور یہ بات کہتے سنا ہے.." اس پر قریش نے مکرز بن حفص کو بھیجا.. اسے دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. "یہ بدعہد آدمی ہے.." چنانچہ جب اس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آ کر گفتگوکی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے وہی بات کہی جو بدیل اور اس کے رفقاء سے کہی تھی.. اس نے واپس پلٹ کر قریش کو پوری بات سے باخبر کیا..

=============>> جاری ھے..

سیرت المصطفی.. مولانا ادریس کاندھلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..

سیرت النبی کریم ﷺ..قسط 194 بیت اللہ سے مسلمانوں کو روکنے کی کوشش: قریش کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روانگی کا ع...

سیرت النبی کریم ﷺ قسط 193


سیرت النبی کریم ﷺ قسط 193

مسلمانوں کی مدینہ سے روانگی:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خواب دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ مسجد حرام میں داخل ہوئے.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خانہ کعبہ کی کنجی لی اور صحابہ سمیت بیت اللہ کا طواف اور عمرہ کیا.. پھر کچھ لوگوں نے سر کے بال منڈائے اور کچھ نے کٹوانے پر اکتفا کی..

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس خواب کی اطلاع دی تو انھیں بڑی مسرت ہوئی اور انہوں نے یہ سمجھا کہ اس سال مکہ میں داخلہ نصیب ہوگا.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام کو یہ بھی بتلایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عمرہ ادا فرمائیں گے لہٰذا صحابہ کرام بھی سفر کے لیے تیار ہوگئے..

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ اور گردوپیش کی آبادیوں میں اعلان فرما دیا کہ لو گ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ روانہ ہوں لیکن بیشتر اعراب نے تاخیر کی.. ادھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے کپڑے دھوئے , مدینہ پر ابن اُم ِ مکتوم رضی اللہ عنہ (یا نمیلہ لیثی رضی اللہ عنہ) کو اپنا جانشین مقرر فرمایا اور اپنی "قصواء" نامی اونٹنی پر سوار ہوکر یکم ذی قعدہ 6 ھ روز دوشنبہ کو روانہ ہوگئے.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ اُم المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بھی تھیں.. چودہ سو (اور کہا جاتا ہے کہ پندرہ سو) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہم رکاب تھے.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسافرانہ ہتھیار یعنی میان کے اندر بند تلواروں کے سوا اور کسی قسم کا ہتھیار نہیں لیا تھا..

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رُخ مکہ کی جانب تھا.. ذوالحلیفہ پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہدی کو قلاوے پہنائے (ہدی ، وہ جانور جسے حج وعمرہ کرنے والے مکہ یا منیٰ میں ذبح کرتے ہیں.. دور جاہلیت میں عرب کا دستور تھا کہ ہَدْی کا جانور اگر بھیڑ بکری ہے تو علامت کے طور پر گلے میں قلادہ ڈال دیا جاتا تھا اور اگر اونٹ ہے تو کوہان چیر کر خون پوت دیا جاتا تھا.. ایسے جانور سے کوئی شخص تعرض نہ کرتا تھا.. شریعت نے اس دستور کو برقرار رکھا) اور عمرہ کا احرام باندھا تاکہ لوگوں کو اطمینان رہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جنگ نہیں کریں گے.. آگے آگے قبیلہ خزاعہ کا ایک جاسوس بھیج دیا تاکہ وہ قریش کے عزائم کی خبر لائے..

عسفان کے قریب پہنچے تو اس جاسوس نے آکر اطلاع دی کہ میں کعب بن لوی کو اس حالت میں چھوڑ کر آرہا ہوں کہ انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مقابلہ کرنے کے لیے احابیش (حلیف قبائل) کو جمع کر رکھا ہے اور بھی جمعیتیں فراہم کی ہیں اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لڑنے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بیت اللہ سے روکنے کا تہیہ کیے ہوئے ہیں.. (یہ حبشی لوگ نہیں ہیں جیسا کہ بظاہر لفظ سے محسوس ہوتا ہے بلکہ بنوکنانہ اور دوسرے عرب قبائل کی چند شاخیں ہیں.. یہ حبشی پہاڑ کی طرف منسوب ہیں جو وادی نعمان اراک سے نیچے واقع ہے.. یہاں سے مکہ کا فاصلہ چھ میل ہے.. اس پہاڑ کے دامن میں بنوحارث بن عبد مناۃ بن کنانہ ، بنومصطلق بن حیا بن سعد بن عمر اور بنو الہون بن خزیمہ نے اکٹھے ہوکر قریش سے عہد کیا تھا اور سب نے مل کر اللہ کی قسم کھائی تھی کہ جب تک رات تاریک اور دن روشن ہے اور حبشی پہاڑ اپنی جگہ برقرار ہے , ہم سب دوسروں کے خلاف ایک ہاتھ ہوں گے..)

اس اطلاع کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا اور فرمایا.. "کیا آپ لوگوں کی یہ رائے ہے کہ یہ لوگ جو قریش کی اعانت پر کمربستہ ہیں , ہم ان کے اہل وعیال پر ٹوٹ پڑیں اور قبضہ کرلیں..؟ اس کے بعد اگر وہ خاموش بیٹھتے ہیں تو اس حالت میں خاموش بیٹھتے ہیں کہ جنگ کی مار اور غم والم سے دوچار ہوچکے ہیں اور بھاگتے ہیں تو وہ بھی اس حالت میں کہ اللہ ایک گردن کاٹ چکا ہوگا یا آپ لوگوں کی یہ رائے ہے کہ ہم خانہ کعبہ کا رُخ کریں اور جو راہ میں حائل ہو اس سے لڑائی کریں..؟"

اس پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں مگر ہم عمرہ ادا کرنے آئے ہیں , کسی سے لڑنے نہیں آئے ہیں.. البتہ جو ہمارے اور بیت اللہ کے درمیان حائل ہوگا اس سے لڑائی کریں گے..

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. "اچھا تب چلو.." چنانچہ لوگوں نے سفر جاری رکھا..ٓٓٓٓٓٓٓٓ

============>>> جاری ھے..

سیرت المصطفی.. مولانا ادریس کاندھلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..

سیرت النبی کریم ﷺ قسط 193 مسلمانوں کی مدینہ سے روانگی: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خواب دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و...

سیرت النبی کریم ﷺ ..قسط 192


سیرت النبی کریم ﷺ ..قسط 192

صلح حدیبیہ (ذیقعدہ، ۶ ہجری)

پس منظر:

ہجرت کا پانچواں سال غزؤہ خندق پر ختم ہوا.. آغاز 6 ہجری سے صلح حُدیبیہ تک جتنے غزوات و سرایہ ہوئے ان کی تعداد سترہ ہے جو تمام تادیبی ہیں.. ہجرت کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ منورہ کی خارجی حفاظت کے لئے یہ تدبیر اختیار کی کہ مدینہ سے باہر کے قبائل کو مصالحت کا پیغام دیا جائے اور ایسی صورت اختیار کی جائے کہ قریش جن کی نخوت اور غرور کا پارہ سارے قبائل عرب سے اونچا ہے , وہ بھی مصالحت پر آمادہ ہو جائیں.. چنانچہ اس کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بذات خود مدینہ سے قبائل عرب کا سفر کیا اور مختلف قبائل سے مصالحت فرمائی..

قریش سے مصالحت کا معاملہ نہایت اہم تھا.. مٹھی بھر بے سروسامان مسلمانوں کے مقابلہ میں مصالحت کے لفظ کا سننا بھی ان کے لئے توہین کا باعث تھا.. ان کے لئے براہ راست پیغام مصالحت کے بجائے ایسے اسباب کا پیدا کرنا مناسب سمجھا گیا جو ان کو صلح پر مجبور کردیں.. اس سارے جتن کا مقصد یہ تھا کہ اس مصالحت سے عالمی مشن کی عالمی دعوت کے لئے راہ کھل جائے جس کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہجرت اور انصار کی بیعت سے پہلے ہر قبیلے کے پاس جاتے تھے اور ان سے کہتے تھے کہ "تم ہماری حفاظت کی ذمہ داری لے لو تاکہ تمھاری پناہ میں دنیا کو میں خدا کا پیغام پہنچا دوں جس کو لے کر میں مبعوث ہوا ہوں.." غزؤہ خندق کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ اعلان فرمایا کہ "اب ہم ان لوگوں پر حملہ کریں گے.. وہ لوگ ہم پر حملہ نہیں کریں گے ، ہم ہی ان کی طرف بڑھیں گے.." (بخاری)

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کا پورا پورا اندازہ فرمالیا کہ قریش میں بداہتاً اب اس کی طاقت نہیں رہی کہ وہ اپنی جنگی طاقت سے اسلام اور مسلمانوں کا استحصال کر سکیں گے بلکہ ہم ہی ان پر چڑھائی کریں گے.. اسی کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی اندازہ فرمایا کہ اب اس حالت میں کہ وہ غزؤہ خندق سے خائب و خاسر لوٹے ہیں اور اپنی کامیابی سے مایوس ہو چکے ہیں اور ان کی امیدیں منقطع ہوچکی ہیں , قدرتی طور پر ان کی نخوت و غرور کا پارہ نیچے اتر چکا ہوگا اور اب ان کا قومی مزاج اس قابل ہوگیا ہوگا کہ صلح کی دعوت کارگر ہو.. اب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے دو صورتیں تھیں..

1....... فدائیوں اور جانثاروں کی جماعت کو لے کر ان پر حملہ آور ہوں اور ان کے ساتھ بھی تادیبی معاملہ کریں اور ان کی ظلم کشی اور مسلمانوں کے ان جانی و مالی نقصان کا بھر پور انتقام لیں جو انھوں نے مسلسل ابتدائے بعثت سے لے کر غزؤہ خندق تک پورے اٹھارہ سال پہنچائے اور اس سلسلہ میں کوئی دقیقہ مسلمانوں کو تباہ و برباد کرنے کے لئے اٹھا نہیں رکھا..

2....... دوسرے یہ کہ صلح کا پیغام دیا جائے اور اس طریقہ سے دیا جائے اور موثر اور کارگر ہو اور ان کو یہ احساس نہ ہو کہ تلوار کے نیچے اپنی طاقت کے بل پر ہم سے جبراً صلح کا معاہدہ لکھوایا جارہا ہے..

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تادیب کی پہلی صورت کے مقابلہ میں دوسری صورت کو پسند فرمایا.. اس کی دو وجوہ تھیں..

اول یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقصد صرف یہ تھا کہ "عالمی مشن کی عالمی دعوت" کی راہ سے مزاحمت ختم ہوجائے اور قریش دعوت حق کو کھلے دل سے بلا جبر و اکراہ اختیار کریں.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقصد اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پالیسی ہرگز یہ نہیں تھی کہ قریش کا یا ان جیسے دشمن اسلام کا استحصال کردیا جائے یا ان کو اسلام لانے پر مجبور کیا جائے یا اسلام قبول نہ کرنے پر اور اس کی دعوت کو رد کردینے کی بنا پر ان کو جانی و مالی نقصان پہنچایا جائے.. کیونکہ اسلام میں نہ ایسے اسلام کی کوئی قیمت ہے اور نہ ایسا اسلام قابل اعتبار ہے جو کھلے دل سے بلا جبر و اکراہ نہ قبول کیا گیا ہو..

دوم یہ کہ اسلامی نقطہ نظر سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صلح ہی کو اسلام کی فتح بھی سمجھتے تھے اور عالمی مشن کی عالمی دعوت کی کامیابی اور اثر اندازی کے لئے اختلاط ، میل جول ، صلح و آتشی اور کھلے دل سے باہمی تبادلہ خیال اور گفتگو کے مواقع کو ضروری سمجھتے تھے جو مصالحت ہی کی راہ سے حاصل ہوسکتے تھے.. چنانچہ صلح حُدیبیہ سے فارغ ہو کر جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چلے تو پہلی منزل یا دوسری منزل پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حق تعالیٰ کی جانب سے اس مصالحت پر ان الفاظ میں مبارکباد دی گئی..

"(اے پیغمبر) بے شک ہم نے تم کو ایک کھلی فتح دی.." (سورہ ٔ فتح : ۱)

واقعتاً صلح حُدیبیہ کے بعد باہمی اختلاط کا کیا اثر ہوا..؟ تمام مورخین کا متفقہ بیان ہے کہ صلح حُدیبیہ سے لے کر فتح مکہ تک یعنی دو برس کے اندر کثرت سے اتنے لوگوں نے کھلے دل سے اسلام قبول کیا کہ اس اٹھارہ انیس سال میں اتنے لوگوں نے اسلام قبول نہیں کیا تھا..

بہر حال آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مصالحت کی راہ کو اختیار کیا اور اس کے لئے یہ موثر صورت اختیار کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عمرہ کا عزم کیا اور اس کے ذیل میں پیغام صلح کو رکھا تا کہ دل میں اس کا معمولی خطرہ بھی پیدا نہ ہو کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ چودہ ، پندرہ سو فدائیوں کا جو جتھا ہے اور سب کے سب احرام باندھے ہوئے ہیں اور جنگی ہتھیاروں سے خالی ہیں , یہ مکہ پر چڑھائی کے لئے آرہے ہیں..

اگلے واقعات بتائیں گے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اندازہ صحیح ثابت ہوا کہ قریش کے قومی مزاج میں مصالحت کی قبولیت کی استعداد پیدا ہوگئی تھی.. چنانچہ جب حُدیبیہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قریش کو پیغام صلح دیا تو رد و کد کے بعد یہ پیغام کامیاب ہوا اور حُدیبیہ میں صلح ہوگئی اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عمرہ کے ذیل میں پیغام صلح کو رکھنا نہایت موثر ثابت ہوا اور معاہدہ صلح پر سکون فضا میں طئے ہوا..(پیغمبر عالم)

=================>> جاری ھے..

سیرت المصطفی.. مولانا ادریس کاندھلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..

سیرت النبی کریم ﷺ ..قسط 192 صلح حدیبیہ (ذیقعدہ، ۶ ہجری) پس منظر: ہجرت کا پانچواں سال غزؤہ خندق پر ختم ہوا.. آغاز 6 ہجری...

سیرت النبی کریم ﷺ ..قسط 191


سیرت النبی کریم ﷺ ..قسط 191

6۔ ہجری کے سرایا:

سریہ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ..

یہ سریہ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی قیادت میں شعبان 6 ھ میں بھیجا گیا.. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اپنے سامنے بٹھا کر خود اپنے دستِ مبارک سے پگڑی باندھی اورلڑائی میں سب سے اچھی صورت اختیار کرنے کی وصیت فرمائی اور فرمایا کہ اگر وہ لوگ تمہاری اطاعت کرلیں تو تم ان کے بادشاہ کی لڑکی سے شادی کرلینا.. حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے وہاں پہنچ کر تین روز پیہم اسلام کی دعوت دی.. بالآخر قوم نے اسلام قبول کرلیا.. پھر حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے "تماضر بنت اصبغ" سے شادی کی.. یہی حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کی ماں ہیں.. اس خاتون کے والد اپنی قوم کے سردار اور بادشاہ تھے..

سریہ دیار بنی سعد.. (علاقہ فدک)

یہ سریہ شعبان 6 ھ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی سرکردگی میں روانہ کیا گیا.. اس کی وجہ یہ ہوئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معلوم ہوا کہ بنو سعد کی ایک جمعیت یہود کو کمک پہنچانا چاہتی ہے لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دو سو آدمی دے کر روانہ فرمایا.. یہ لوگ رات میں سفر کرتے اور دن میں چھپے رہتے تھے.. آخر ایک جاسوس گرفت میں آیا اور اس نے اقرار کیا کہ ان لوگوں نے خیبر کی کھجور کے عوض امداد فراہم کرنے کی پیشکش کی ہے.. جاسوس نے یہ بھی بتلایا کہ بنو سعد نے کس جگہ جتھ بندی کی ہے.. چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان پر شب خون مار کر پانچ سو اونٹ اور دو ہزار بکریوں پر قبضہ کرلیا.. البتہ بنو سعد اپنی عورتوں بچوں سمیت بھاگ نکلے.. ان کا سردار وبر بن علیم تھا..

سریہ وادی القریٰ..

یہ سریہ حضر ت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ (یا حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ) کے زیر قیادت رمضان 6 ھ میں روانہ کیا گیا.. اس کا سبب یہ تھا کہ بنو فزارہ کی ایک شاخ نے دھوکے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قتل کرنے کا پروگرام بنایا تھا.. لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو روانہ فرمایا.. حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ اس سریہ میں , مَیں بھی آپ رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا.. جب ہم صبح کی نماز پڑھ چکے تو آپ کے حکم سے ہم لوگوں نے چھاپہ مارا اور چشمے پر دھاوا بول دیا.. میں نے ایک گروہ کو دیکھا جس میں عورتیں اور بچے بھی تھے.. مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں یہ لوگ مجھ سے پہلے پہاڑ پر نہ پہنچ جائیں , اس لیے میں نے ان کو جالیا اور ان کے اور پہاڑ کے درمیان ایک تیر چلایا.. تیر دیکھ کر یہ لوگ ٹھہر گئے.. ان میں ام قرفہ نامی ایک عورت تھی جس کے اوپر ایک پرانی پوستین تھی.. اس کے ساتھ اس کی بیٹی بھی تھی.. میں ان سب کو ہانکتا ہوا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس لے آیا.. ام قرفہ ایک شیطان عورت تھی.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شہید کرنے کی تدبیریں کیا کرتی تھی اور اس مقصد کے لیے اس نے اپنے خاندان کے تیس سوار بھی تیار کیے تھے لہٰذا اسے ٹھیک بدلہ مل گیا اور اس کے تیسوں سوار مارے گئے..

سریہ عرنییّن..

یہ سریہ شوال 6 ھ میں حضرت کرز بن جابر فہری رضی اللہ عنہ (یہ وہی حضرت کرز بن جابر فہری ہیں جنہوں نے غزوہ بدر سے پہلے غزوہ سفوان میں مدینہ کے چوپایوں پر چھاپہ مارا تھا.. بعد میں انہوں نے اسلام قبول کیا اور فتح مکہ کے موقع پر خلعت شہادت سے سرفراز ہوئے) کی قیادت میں روانہ کیا گیا.. اس کا سبب یہ ہوا کہ عکل اور عُرینہ کے چند افراد نے مدینہ آکر اسلام کا اظہار کیا اور مدینہ ہی میں قیام کیا لیکن ان کے لیے مدینہ کی آب وہوا راس نہ آئی اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انھیں چند اونٹوں کے ساتھ چراگاہ بھیج دیا.. جب یہ لوگ تندرست ہوگئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے راعی کو قتل کردیا , اونٹوں کو ہانک لے گئے اور اظہارِ اسلام کے بعد اب پھر کفر اختیار کیا.. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی تلاش کے لیے کرز بن جابر فہری رضی اللہ عنہ کو بیس صحابہ کی معیت میں روانہ فرمایا اور یہ دعا فرمائی کہ اے اللہ عُرنیوں پر راستہ اندھا کردے اور کنگن سے بھی زیادہ تنگ بنا دے.. اللہ نے یہ دعا قبول فرمائی.. ان پر راستہ اندھا کردیا.. چنانچہ وہ پکڑ لیے گئے اور انہوں نے مسلمان چرواہوں کے ساتھ جو کچھ کیا تھا اس کے قصاص اور بدلے کے طور پر اپنے کیفر ِ کردار کو پہنچ گئے.. ان کا واقعہ صحیح بخاری وغیرہ میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے..

(زاد المعاد ۲/۱۲۲ مع بعض اضافات، صحیح بخاری ۲/۶۰۲)

یہ ہیں وہ سرایا اور غزوات جو جنگ احزاب و بنی قریظہ کے بعد پیش آئے.. ان میں سے کسی بھی سریے یا غزوے میں کوئی سخت جنگ نہیں ہوئی.. صرف بعض بعض میں معمولی قسم کی جھڑپیں ہوئیں.. لہٰذا ان مہموں کو جنگ کے بجائے طلایہ گردی ، فوجی گشت اور تادیبی نقل وحرکت کہا جا سکتا ہے جس کا مقصد ڈھیٹ بدوؤں اور اکڑے ہوئے دشمنوں کو خوفزدہ کرنا تھا..

حالات پر غور کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ غزوۂ احزاب کے بعد صورت حال میں تبدیلی شروع ہوگئی تھی اور اعدائے اسلام کے حوصلے ٹوٹتے جا رہے تھے.. اب انہیں یہ امید باقی نہیں رہ گئی تھی کہ دعوت اسلام کو توڑا اور اس کی شوکت کو پامال کیا جاسکتا ہے مگر یہ تبدیلی ذرا اچھی طرح کھل کر اس وقت رونما ہوئی جب مسلمان صلح حدیبیہ سے فارغ ہوچکے..

یہ صلح دراصل اسلامی قوت کا اعتراف اور اس بات پر مہر تصدیق تھی کہ اب اس قوت کو جزیرہ نمائے عرب میں باقی اور برقراررکھنے سے کوئی طاقت روک نہیں سکتی..

============>> جاری ھے..

سیرت المصطفی.. مولانا ادریس کاندھلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..

سیرت النبی کریم ﷺ ..قسط 191 6۔ ہجری کے سرایا: سریہ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ.. یہ سریہ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی الل...

سیرت النبی کریم ﷺ ..قسط 190


سیرت النبی کریم ﷺ ..قسط 190

غزوہ احزاب وقریظہ کے بعد کی جنگی مہمات:

 4۔ غزوہ بنی المصطلق یا غزوہ مریسیع: 

یہ غزوہ جنگی نقطۂ نظر سے کوئی بھاری بھرکم غزوہ نہیں ہے مگر اس حیثیت سے اس کی بڑی اہمیت ہے کہ اس میں چند واقعات ایسے رُونما ہوئے جن کی وجہ سے اسلامی معاشرے میں اضطراب اور ہلچل مچ گئی اور جس کے نتیجے میں ایک طرف منافقین کا پردہ فاش ہوا تو دوسری طرف ایسے تعزیری قوانین نازل ہوئے جن سے اسلامی معاشرے کو شرف وعظمت اور پاکیزگی کی ایک خاص شکل عطا ہوئی.. ان میں ایک افک کا واقعہ اور دوسرا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے ساتھ شادی کا واقعہ قابل ذکر ہے..

یہ غزوہ عام اہل سیر کے بقول شعبان ۵ ھ میں اور ابن اسحاق کے بقول ۶ ھ میں پیش آیا.. اس کی وجہ یہ ہوئی کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ اطلاع ملی کہ بنو المصطلق کا سردار حارث بن ابی ضرار آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جنگ کے لیے اپنے قبیلے اور کچھ دوسرے عربوں کو ساتھ لے کر آرہا ہے.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بریدہ بن حصیب اسلمی رضی اللہ عنہ کو تحقیق حال کے لیے روانہ فرمایا.. انہوں نے اس قبیلے میں جا کر حارث بن ضرار سے ملاقات کی اور بات چیت کی اور واپس آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حالات سے باخبر کیا..

جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خبر کی صحت کا اچھی طرح یقین آگیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام کو تیاری کا حکم دیا اور بہت جلد روانہ ہوگئے.. روانگی ۲/شعبان کو ہوئی.. اس غزوے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ منافقین کی بھی ایک جماعت تھی جو اس سے پہلے کسی غزوے میں نہیں گئی تھی.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ کا انتظام حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو سونپا تھا.. حارث بن ابی ضرار نے اسلامی لشکرکی خبر لانے کے لیے ایک جاسوس بھیجا تھا لیکن مسلمانوں نے اسے گرفتار کرکے قتل کردیا..

جب حارث بن ابی ضرار اور اس کے رفقاء کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روانگی اور اپنے جاسوس کے قتل کیے جانے کا علم ہوا تو وہ سخت خوفزدہ ہوا اور جو عرب ان کے ساتھ تھے وہ سب بکھر گئے.. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چشمۂ مریسیع ("مریْسیع" قدید کے اطراف میں ساحل سمندر کے قریب بنو مصطلق کے ایک چشمے کا نام تھا) تک پہنچے تو بنو مصطلق آمادہ ٔ جنگ ہوگئے.. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام نے بھی صف بندی کرلی.. پورے اسلامی لشکر کے علمبردار حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے اور خاص انصار کا پھریرا حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں تھا.. کچھ دیر فریقین میں تیروں کا تبادلہ ہوا.. اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم سے صحابہ کرام نے یکبارگی حملہ کیا اور فتح یاب ہوگئے.. مشرکین نے شکست کھائی.. کچھ مارے گئے.. مسلمان کا صرف ایک آدمی مارا گیا.. اسے ایک انصاری نے دشمن کا آدمی سمجھ کر مار دیا تھا..

(صحیح بخاری کتاب العتق ۱/۳۴۵ فتح الباری ۵/۲۰۲ ، ۷/۴۳۱)

قیدیوں میں حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا بھی تھیں جو بنو المصطلق کے سردار حارث بن ابی ضرار کی بیٹی تھیں.. وہ ثابت بن قَیس رضی اللہ عنہ کے حصے میں آئیں.. ثابت رضی اللہ عنہ نے انہیں مکاتب بنالیا.. (مکاتب اس غلام یا لونڈی کو کہتے ہیں جو اپنے مالک سے یہ طے کر لے کہ وہ ایک مقررہ رقم مالک کو ادا کرکے آزاد ہوجائیگا) پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی جانب سے مقررہ رقم ادا کرکے ان سے شادی کرلی..

اس شادی کی وجہ سے مسلمانوں نے بنو المصطلق کے ایک سو گھرانوں کو جو مسلمان ہوچکے تھے , آزاد کردیا کہ یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سسرال کے لوگ ہیں..

(زادالمعاد ۲/۱۱۲، ۱۱۳ ابن ہشام ۲۸۹، ۲۹۰ ، ۲۹۴ ، ۲۹۵)

==============>> جاری ھے..

سیرت المصطفی.. مولانا ادریس کاندھلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..

سیرت النبی کریم ﷺ ..قسط 190 غزوہ احزاب وقریظہ کے بعد کی جنگی مہمات:  4۔ غزوہ بنی المصطلق یا غزوہ مریسیع:  یہ غزوہ جنگی ن...

سیرت النبی کریم ﷺ ..قسط 189


سیرت النبی کریم ﷺ ..قسط 189

غزوہ احزاب وقریظہ کے بعد جنگی مہمات:

3: غزوہ بنو لحیان اور سریہ خبط:

بنو لحیان وہی ہیں جنہوں نے مقام رجیع میں دس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو دھوکے سے گھیر کر آٹھ کو شہید کردیا تھا اور دو کو اہل ِ مکہ کے ہاتھوں فروخت کردیا تھا جہاں وہ بے دردی سے شہید کر دیئے گئے تھے.. لیکن چونکہ ان کا علاقہ حجاز کے اندر بہت دور حدودِ مکہ سے قریب واقع تھا اور اس وقت مسلمانوں اور قریش واعراب کے درمیان سخت کشاکش برپا تھی , اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس علاقے میں بہت اندر گھُس کر ''بڑے دشمن'' کے قریب چلے جانا مناسب نہیں سمجھتے تھے لیکن جب کفار کے مختلف گروہوں کے درمیان پھوٹ پڑگئی , ان کے عزائم کمزور پڑ گئے اور انہوں نے حالات کے سامنے بڑی حد تک گھٹنے ٹیک دیے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے محسوس کیا کہ اب بنو لحیان سے رجیع کے مقتولین کا بدلہ لینے کا وقت آگیا ہے..

چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ربیع الاول یا جمادی الاولیٰ ۶ ھ میں دو سو صحابہ کی معیت میں ان کا رُخ کیا.. مدینے میں حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کو اپنا جانشین بنایا اور ظاہر کیا کہ آپ ملک شام کا ارادہ رکھتے ہیں.. اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یلغار کرتے ہوئے امج اور عسفان کے درمیان بطن غران نامی ایک وادی میں جہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کو شہید کیا گیا , پہنچے اور ان کے لیے رحمت کی دعائیں کیں..

ادھر بنو لحیان کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کی خبر ہوگئی تھی , اس لیے وہ پہاڑ کی چوٹیوں پر نکل بھاگے اور ان کا کوئی آدمی گرفت میں نہ آسکا.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انک ی سرزمین میں دو روز قیام فرمایا.. اس دوران سریے بھی بھیجے لیکن بنو لحیان نہ مل سکے.. اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عسفان کا قصد کیا اور وہاں سے دس شہسوار کو کراع الغمیم بھیجا تاکہ قریش کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کی خبر ہو جائے.. اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کل چودہ دن مدینے سے باہر گزار کر مدینہ واپس آگئے..

سریہ ٔخبط:

اس سریہ کا زمانہ رجب ۸ ھ بتایا جاتا ہے مگر سیاق بتاتا ہے کہ یہ حدیبیہ سے پہلے کا واقعہ ہے.. حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین سو سواروں کی جمعیت روانہ فرمائی.. ہمارے امیر ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ تھے.. قریش کے ایک قافلہ کا پتہ لگانا تھا.. ہم اس مہم کے دوران سخت بھوک سے دوچار ہوئے.. یہاں تک کہ پتے جھاڑ جھاڑ کر کھانا پڑے.. اسی لیے اس کا نام جیش خبط پڑ گیا.. (خبط جھاڑے جانے والے پتوں کو کہتے ہیں) آخر ایک آدمی نے تین اونٹ ذبح کیے.. پھر تین اونٹ ذبح کیے.. پھر تین اونٹ ذبح کیے لیکن اس کے بعد ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے اسے منع کردیا.. پھر اس کے بعد ہی سمندر نے عنبر نامی ایک مچھلی پھینک دی جس سے ہم آدھے مہینے تک کھاتے رہے اور اس کا تیل بھی لگاتے رہے.. یہاں تک کہ ہمارے جسم ہماری طرف پلٹ آئے اور تندرست ہوگئے..

ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے اس کی پسلی کا ایک کانٹا لیا اور لشکر کے اندر سب سے لمبے آدمی اور سب سے لمبے اونٹ کو دیکھ کر آدمی کو اس پر سوار کیا اور وہ (سوار ہو کر) کانٹے کے نیچے سے گزر گیا..

ہم نے اس کے گوشت کے کچھ ٹکڑے توشہ کے طور پر رکھ لیے اور جب مدینہ پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اس کا تذکرہ کیا.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. "یہ ایک رزق ہے جو اللہ نے تمہارے لیے برآمد کیا تھا.. اس کا گوشت تمہارے پاس ہو تو ہمیں بھی کھلاؤ.." ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں کچھ گوشت بھیج دیا..

(صحیح بخاری ۲/۶۲۶۶۲۵ صحیح مسلم ۲/۱۴۵، ۱۴۶)

========>> جاری ھے..

سیرت المصطفی.. مولانا ادریس کاندھلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..

سیرت النبی کریم ﷺ ..قسط 189 غزوہ احزاب وقریظہ کے بعد جنگی مہمات: 3: غزوہ بنو لحیان اور سریہ خبط: بنو لحیان وہی ہیں جنہوں...

سیرت النبی کریم ﷺ ..قسط 188


سیرت النبی کریم ﷺ ..قسط 188

غزوہ احزاب وقریظہ کے بعد جنگی مہمات:

2: سریہ محمد بن مسلمہ:

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم احزاب اور قریظہ کی جنگوں سے فارغ ہوگئے اور جنگی مجرمین سے نمٹ چکے تو ان قبائل اور اعراب کے خلاف تادیبی حملے شروع کی جو امن وسلامتی کی راہ میں سنگ گراں بنے ہوئے تھے اور قُوتِ قاہرہ کے بغیر پُر سکون نہیں رہ سکتے تھے.. ذیل میں اس سلسلے کے سرایا اور غزوات کا اجمالی ذکر کیا جارہا ہے..

سریۂ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ..

احزاب وقریظہ کی جنگوں سے فراغت کے بعد یہ پہلا سریہ ہے جس کی روانگی عمل میں آئی.. یہ تیس آدمیوں کی مختصر سی نفری پر مشتمل تھا..

اس سریہ کو نجد کے اندر بکرات کے علاقہ میں ضریہ کے آس پاس قرطاء نامی مقام پر بھیجا گیا تھا.. ضریہ اور مدینہ کے درمیان سات رات کا فاصلہ ہے.. روانگی ۱۰/محرم ۶ ھ کو عمل میں آئی تھی اور نشانہ بنو بکر بن کلاب کی ایک شاخ تھی.. مسلمانوں نے چھاپہ مارا تو دشمن کے سارے افراد بھاگ نکلے.. مسلمانوں نے چوپائے اور بکریاں ہانک لیں اور محرم میں ایک دن باقی تھا کہ مدینہ آگئے..

یہ لوگ بنو حنیفہ کے سردار ثمامہ بن اثال حنفی کو بھی گرفتار کر لائے تھے.. وہ مسیلمہ کذاب کے حکم سے بھیس بدل کر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قتل کرنے نکلے تھے لیکن مسلمانوں نے انہیں گرفتار کرلیا اور مدینہ لا کر مسجد نبوی کے ایک کھمبے سے باندھ دیا..

نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے تو دریافت فرمایا.. "ثمامہ ! تمہارے نزدیک کیا ہے..؟"

انہوں نے کہا.. "اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میرے نزدیک خیر ہے.. اگر تم قتل کرو تو ایک خون والے کو قتل کرو گے اور اگر احسان کرو تو ایک قدردان پر احسان کرو گے اور اگر مال چاہتے ہو تو جو چاہو مانگ لو.."

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اسی حال میں چھوڑ دیا.. پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دوبارہ گذرے تو پھر وہی سوال کیا اور ثمامہ نے پھر وہی جواب دیا.. اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تیسری بار گذرے تو پھر وہی سوال وجواب ہوا.. اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا کہ ثمامہ کو آزاد کردو.. انہوں نے آزاد کردیا..

ثمامہ مسجد نبوی کے قریب کھجور کے ایک باغ میں گئے , غسل کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس واپس آکر مشرف بہ اسلام ہوگئے.. پھر کہا.. "اللہ کی قسم ! روئے زمین پر کوئی چہرہ میرے نزدیک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرے سے زیادہ مبغوض نہ تھا لیکن اب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ دوسرے تمام چہروں سے زیادہ محبوب ہوگیا ہے اور اللہ کی قسم ! روئے زمین پر کوئی دین میرے نزدیک آپ کے دین سے زیادہ مبغوض نہ تھا مگر اب آپ کا دین دوسرے تمام ادیان سے زیادہ محبوب ہوگیا ہے.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سواروں نے مجھے اس حالت میں گرفتار کیا تھا کہ میں عمرہ کا ارادہ کررہا تھا.."

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بشارت دی اور حکم دیا کہ عمرہ کرلیں.. جب وہ دیارِ قریش میں پہنچے تو انہوں نے کہا.. "ثمامہ ! تم بد دین ہوگئے..؟"

ثمامہ رضی اللہ عنہ نے کہا.. "نہیں ! بلکہ میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ پر مسلمان ہوگیا ہوں.. سنو ! اللہ کی قسم ! تمہارے پاس یمامہ سے گیہوں کا ایک دانہ نہیں آسکتا جب تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کی اجازت نہ دے دیں.."

یمامہ ، اہل ِ مکہ کے لیے کھیت کی حیثیت رکھتا تھا.. حضرت ثمامہ رضی اللہ عنہ نے وطن واپس جاکر مکہ کے لیے غلہ کی روانگی بند کردی جس سے قریش سخت مشکلات میں پڑ گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قرابت کا واسطہ دیتے ہوئے لکھا کہ ثمامہ کو لکھ دیں کہ وہ غلے کی روانگی بند نہ کریں.. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسا ہی کیا..

(زاد المعاد ۲/۱۱۹ صحیح بخاری حدیث نمبر ۴۳۷۳ ، فتح الباری ۷/۶۸۸)

ٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓ===============>> جاری ھے..

سیرت المصطفی.. مولانا ادریس کاندھلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..

سیرت النبی کریم ﷺ ..قسط 188 غزوہ احزاب وقریظہ کے بعد جنگی مہمات: 2: سریہ محمد بن مسلمہ: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ ...