سیرت النبی کریم ﷺ ..قسط 186


سیرت النبی کریم ﷺ ..قسط 186

منافقینِ مدینہ:

عبداللہ بن ابی کو اسلام اور مسلمانوں سے عموماً اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خصوصاً بڑی کَدْ تھی کیونکہ اوس وخزرج اس کی قیادت پر متفق ہوچکے تھے اور اس کی تاج پوشی کے لیے مونگوں کا تاج بنایا جارہا تھا کہ اتنے میں مدینہ کے اندر اسلام کی شعائیں پہنچ گئیں اور لوگوں کی توجہ ابن ابی سے ہٹ گئی.. اس لیے اسے احساس تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی بادشاہت چھین لی ہے..

اس کی یہ کَدْ اور جَلن ابتدائے ہجرت ہی سے واضح تھی جبکہ ابھی اس نے اسلام کا اظہار بھی نہیں کیا تھا.. پھر اسلام کا اظہار کرنے کے بعد بھی اس کی یہی روش رہی.. چنانچہ اس کے اظہار اسلام سے پہلے ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت سعد بن عبادہؓ کی عیادت کے لیے سواری پر تشریف لے جارہے تھے کہ راستے میں ایک مجلس سے گزر ہوا جس میں عبداللہ بن اُبی بھی تھا.. اس نے اپنی ناک ڈھک لی اور بولا.. "ہم پر غبار نہ اڑاؤ.." پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اہل مجلس پر قرآن کی تلاوت فرمائی تو کہنے لگا.. "آپ اپنے گھر میں بیٹھئے.. ہماری مجلس میں ہمیں نہ گھیریے.." (صحیح بخاری ۲/۹۲۴ صحیح مسلم ۲/۱۰۹)

یہ اظہارِ اسلام سے پہلے کی بات ہے لیکن جنگِ بدر کے بعد جب اس نے ہوا کا رُخ دیکھ کر اسلام کا اظہار کیا تب بھی وہ اللہ ، اس کے رسول اور اہل ایمان کا دشمن ہی رہا اور اسلامی معاشرے میں انتشار برپا کرنے اور اسلام کی آواز کمزور کرنے کی مسلسل تدبیریں سوچتا رہا.. وہ اعدائے اسلام سے بڑا مخلصانہ ربط رکھتا تھا.. چنانچہ بنو قینقاع کے معاملے میں نہایت نامعقول طریقے سے دخل انداز ہوا تھا.. (جس کا ذکر پچھلے صفحات میں آچکا ہے) اسی طرح اس نے غزوۂ اُحد میں بھی شر ، بدعہدی , مسلمانوں میں تفریق اور ان کی صفوں میں بے چینی وانتشار اور کھلبلی پیدا کرنے کی کوششیں کی تھیں.. (اس کا بھی ذکر گزر چکا ہے)

اس منافق کے مکر وفریب کا یہ عالم تھا کہ یہ اپنے اظہارِ اسلام کے بعد ہر جمعہ کو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خطبہ دینے کے لیے تشریف لاتے تو پہلے خود کھڑا ہو جاتا اور کہتا.. "لوگو ! یہ تمہارے درمیان اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں.. اللہ نے ان کے ذریعے تمہیں عزت واحترام بخشا ہے.. لہٰذا ان کی مدد کرو ، انہیں قوت پہنچاؤ اور ان کی بات سنو اور مانو.." اس کے بعد بیٹھ جاتا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُٹھ کر خطبہ دیتے.. پھر اس کی ڈھٹائی اور بے حیائی اس وقت انتہا کو پہنچ گئی جب جنگِ اُحد کے بعد پہلا جمعہ آیا کیونکہ یہ شخص اس جنگ میں اپنی بدترین دغابازی کے باوجود خطبہ سے پہلے پھر کھڑا ہوگیا اور وہی باتیں دہرانی شروع کیں جو اس سے پہلے کہا کرتا تھا لیکن اب کی بار مسلمانوں نے مختلف اطراف سے اس کا کپڑا پکڑ لیا اور کہا.. "او اللہ کے دشمن ! بیٹھ جا.. تونے جو جو حرکتیں کی ہیں اس کے بعد اب تو اس لائق نہیں رہ گیا ہے.." اس پر وہ لوگوں کی گردنیں پھلانگتا ہوا اور یہ بڑبڑاتا ہوا باہر نکل گیا کہ "میں ان صاحب کی تائید کے لیے اٹھا تو معلوم ہوتا ہے کہ میں نے کوئی مجرمانہ بات کہہ دی.." اتفاق سے دروازے پر ایک انصاری سے ملاقات ہوگئی.. انہوں نے کہا.. "تیری بربادی ہو.. واپس چل.. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تیرے لیے دعائے مغفرت کردیں گے.." اس نے کہا.. "اللہ کی قسم ! میں نہیں چاہتا کہ وہ میرے لیے دعائے مغفرت کریں.." (ابن ہشام ۲/۱۰۵)

علاوہ ازیں ابن اُبی ّ نے بنونضیر سے بھی رابطہ قائم کررکھا تھا اور ان سے مل کر مسلمانوں کے خلاف درپردہ سازشیں کیا کرتا تھا.. اسی طرح ابن اُبی ّ اور اس کے رفقاء نے جنگ ِ خندق میں مسلمانوں کے اندر اضطراب مچانے اور انہیں مرعوب ودہشت زدہ کرنے کے لیے طرح طرح کے جتن کیے تھے.. ان سب کے باوجود یہود ، منافقین اور مشرکین _ غرض سارے ہی اعدائے اسلام کو یہ بات اچھی طرح معلوم تھی کہ اسلام کے غلبے کا سبب مادّی تفوُّق اور اسلحے لشکر اور تعداد کی کثرت نہیں ہے بلکہ اس کا سبب وہ اللہ پرستی اور اخلاقی قدریں ہیں جن سے پورا اسلامی معاشرہ اور دین ِ اسلام سے تعلق رکھنے والا ہر فرد سرفراز وبہرہ مند ہے.. ان اعدائے اسلام کو یہ بھی معلوم تھا کہ اس فیض کا سرچشمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی ہے جو ان اخلاقی قدروں کا معجزے کی حد تک سب سے بلند نمونہ ہے..

اسی طرح یہ اعدائے اسلام چار پانچ سال تک برسرِ پیکار رہ کر یہ بھی سمجھ چکے تھے کہ اس دین اور اس کے حاملین کو ہتھیاروں کے بل پر نیست و نابود کرنا ممکن نہیں.. اس لیے انہوں نے غالبا ًیہ طے کیا کہ اخلاقی پہلو کو بنیاد بنا کراس دین کے خلاف وسیع پیمانے پر پروپیگنڈے کی جنگ چھیڑ دی جائے اور اس کا پہلا نشانہ خاص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت کو بنایا جائے.. چونکہ منافقین مسلمانوں کی صف میں پانچواں کالم تھے اور مدینہ ہی کے اندر رہتے تھے.. مسلمانوں سے بلا تردُّد مل جل سکتے تھے اور ان کے احساسات کو کسی بھی ''مناسب ''موقع پر بآسانی بھڑ کا سکتے تھے , اس لیے اس پروپیگنڈے کی ذمہ داری ان منافقین نے اپنے سر لی یا ان کے سر ڈالی گئی اور عبداللہ بن اُبیّ رئیس المنافقین نے اس کی قیادت کا بیڑا اٹھایا..

ان کا پروگرام اس وقت ذرا زیادہ کھل کر سامنے آیا جب حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ نے حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو طلاق دی اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے شادی کی.. چونکہ عرب کا دستور یہ چلا آرہا تھا کہ وہ مُتَبَنّیٰ (منہ بولے بیٹے) کو اپنے حقیقی لڑکے کا درجہ دیتے تھے اور اس کی بیوی کو حقیقی بیٹے کی بیوی کی طرح حرام سمجھتے تھے اس لیے جب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے شادی کی تو منافقین کو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف شور وشغب برپا کرنے کے لیے اپنی دانست میں دو کمزور پہلو ہاتھ آئے..

ایک یہ کہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پانچویں بیوی تھیں جبکہ قرآن نے چار سے زیادہ بیویاں رکھنے کی اجازت نہیں دی ہے.. اس لیے یہ شادی کیونکر درست ہوسکتی ہے..؟

دوسرے یہ کہ زینب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منہ بولے بیٹے کی بیوی تھیں , اس لیے عرب دستور کے مطابق ان سے شادی کرنا نہایت سنگین جرم اور زبردست گناہ تھا.. چنانچہ اس سلسلے میں خوب پروپیگنڈہ کیا گیا اور طرح طرح کے افسانے گھڑے گئے.. منافقین نے اس افسانے کا اتنی قوت سے پروپیگنڈہ کیا کہ اس کے اثرات کتب احادیث وتفاسیر میں اب تک چلے آرہے ہیں.. اس وقت یہ سارا پروپیگنڈہ کمزور اور سادہ لوح مسلمانوں کے اندر اتنا مؤثر ثابت ہوا کہ بالآخر قرآن مجید میں اس کی بابت واضح آیات نازل ہوئیں جن کے اندر شکوک ِ پنہاں کی بیماری کا پورا پورا علاج تھا.. اس پروپیگنڈے کی وسعت کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ سورۂ احزاب کا آغاز ہی اس آیت کریمہ سے ہوا..

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ اتَّقِ اللَّـهَ وَلَا تُطِعِ الْكَافِرِ‌ينَ وَالْمُنَافِقِينَ ۗ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا ﴿١﴾ (۳۳: ۱)
''اے نبی ! اللہ سے ڈرو اور کافرین ومنافقین سے نہ دبو.. بے شک اللہ جاننے والا , حکمت والا ہے..''

یہ منافقین کی حرکتوں اور کارروائیوں کی طرف ایک طائرانہ اشارہ اور ان کا ایک مختصر سا خاکہ ہے.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ ساری حرکتیں صبر ، نرمی اور تلطف کے ساتھ برداشت کررہے تھے اور عام مسلمان بھی ان کے شر سے دامن بچا کر صبر و برداشت کے ساتھ رہ رہے تھے.. کیونکہ انہیں تجربہ تھا کہ منافقین قدرت کی طرف سے رہ رہ کر رسوا کیے جاتے رہیں گے.. چنانچہ ارشاد ہے..

أَوَلَا يَرَ‌وْنَ أَنَّهُمْ يُفْتَنُونَ فِي كُلِّ عَامٍ مَّرَّ‌ةً أَوْ مَرَّ‌تَيْنِ ثُمَّ لَا يَتُوبُونَ وَلَا هُمْ يَذَّكَّرُ‌ونَ (۹: ۱۲۶)
''وہ دیکھتے نہیں کہ انہیں ہر سال ایک بار یا دو بار فتنے میں ڈالاجاتا ہے.. پھر وہ (منافقین) نہ توبہ کرتے ہیں نہ نصیحت پکڑتے ہیں..''

=============>> جاری ھے..

سیرت المصطفی.. مولانا ادریس کاندھلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں