سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 183
4۔ ہجری ۔ شراب کی حرمت:
شراب کے قطعی حرام ہونے کے حکم کے بارے میں اختلاف ہے، 4 ھ ، 6 ھ ، 8 ھ تینوں سنین کے بارے میں روایتیں ملتی ہیں، علامہ قسطلانی نے مواہب لدنیہ میں لکھا ہے کہ شراب کی حرمت 4 ہجری میں غزوہ اُحد کے بعد غزوہ بنی نضیر کے ایام میں نازل ہوئی، اس کتاب میں 4 ہجری میں حُرمت شراب کا ذکر کیا گیا ہے۔
عرب میں شراب لوگوں کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی اور اس کا پینا اور پلانا باعث فخر سمجھا جاتا تھا، مدینہ منورہ چونکہ نخلستانی علاقہ تھا، اس لئے یہاں مکہ کے مقابلہ میں اس کا رواج کچھ زیادہ ہی تھا، اسلام جو عقل کو انسان کے لئے بہترین عطیہ خداوندی قرار دیتا ہے، اس غارت گر عقل وحواس کو کیسے گوارا کرسکتا تھا۔
تاہم جو چیز اہل عرب کے رگ وپے میں سرایت کر چکی تھی، یک لخت اس کو روک دینا بھی قرین مصلحت نہ تھا، اس لئے بڑی حکمت کے ساتھ تدریجاً اس کی ممانعت کے احکام اترے، اس کے ساتھ ساتھ جوئے کی بھی ممانعت کردی گئی۔
سب سے پہلے سورۂ نحل کی آیت 68 میں اس کا ذکر آیا ہے، یہ آیت اس وقت اُتری تھی جب شراب حرام نہیں تھی، اس لئے حلال چیزوں کے ساتھ اس کا بھی ذکر کیا گیا ہے، لیکن اس میں سکّراً کے بعد رزقاً حسناً ہے، جس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ شراب رزق حسن نہیں ہے، نیز یہ سورت مکی ہے جس میں شراب کے بارے میں نا پسندیدگی کا اظہار ہے، پھر مدنی سورتوں میں بتدریج اس کی حرمت نازل ہوگئی۔
ایک بار حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شراب کے بارے میں پوچھا کیوں کہ اس سے دولت کی بربادی کے ساتھ ساتھ عقل میں فتور پیدا ہو رہا تھا، اس پر سورۂ بقرہ کی آیت نمبر 219 نازل ہوئی جس میں فرمایا گیا۔
"(اے پیغمبر!) لوگ تم سے شراب اور جوئے کا حکم دریافت کرتے ہیں، ( ان سے) کہہ دو کہ ان دونوں میں بڑا گناہ ہے اور لوگوں کے لئے کچھ فائدے بھی ہیں، مگر ان کا گناہ (اور نقصان) ان کے فائدے سے کہیں زیادہ ہے۔" (سورہ بقرہ : ۲۱۹)
اس آیت کے نزول سے صحابہ کرام میں شراب اور جوئے کے نقصانات اور گناہ کا احساس پیدا ہو گیا۔
ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطبہ دیا: "اے لوگو! اللہ تعالیٰ نے شراب کو حرام کرنے کا اشارہ دیا، عنقریب اس کی حُرمت کا حکم آئے گا، لہٰذا جس کے پاس شراب ہے اُسے بیچ کر نفع حاصل کر لے۔"
اُسی زمانہ میں حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے اپنے دوستوں کی ضیافت کی اور خوب شراب لنڈھائی، حالت نشہ میں نماز مغرب بھی پڑھی گئی تو امام نے (جو کہ خود بھی حالت نشہ میں تھا) سورۂ قُل یاایھا الکافرون کے لا کو حذف کر دیا، اس موقع پر سورۂ نساء کی آیت نمبر 43 نازل ہوئی:
"اے ایمان والو! جب تم نشہ کی حالت میں ہو تو نماز کے قریب بھی نہ جاؤ، یہاں تک کہ سمجھنے لگو کہ منہ سے کیا کہتے ہو۔" (سورہ نسا : ۴۳)
اس آیت کے نازل ہونے کے بعد صحابہ کرام نے اس تدریجی حکم پر اوقات نماز میں شراب نوشی بالکل ترک کر دی۔
ایک رات حضرت عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ نے اپنے چند دوستوں کی دعوت کی، اونٹ ذبح کیا گیا اور کباب وشراب کا اہتمام ہوا، نشہ کی حالت میں ایک دوسرے پر فخر کرنے لگے، حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے فی البدیہہ قصیدہ میں رئیس انصاری کی ہجو کی، ایک انصاری نے اونٹ کی ہڈی سے ان کا سر پھاڑ دیا، حضرت سعد رضی اللہ عنہ زخمی حالت میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، انصاری کی شکایت کی۔
یہ حالت دیکھ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جو وہاں موجود تھے، بارگاہ رب العزت میں دعا کی: "اے اللہ! شراب کے بارے میں واضح احکام نازل فرما! اس لئے کہ شراب تو مال وعقل دونوں کی دشمن ہے۔" اس پر سورۂ مائدہ کی آیات 90 تا 92 نازل ہوئیں، جن میں شراب کے قطعی حرام ہونے کا ذکر ہے۔
"اے ایمان والو! بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور تھان اور فال نکالنے کے پانسے کے تیر یہ سب گندی باتیں شیطانی کام ہیں، ان سے بالکل الگ رہو! تاکہ تم فلاح پاؤ، شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ شراب اور جوے کے ذریعہ سے تمہارے آپس میں عداوت اور بغض واقع کرا دے اور اللہ تعالیٰ کی یاد سے اور نماز سے تم کو باز رکھے، سو اب بھی باز آجاؤ اور تم اللہ کی اطاعت کرتے رہو اور احتیاط رکھو، اگر اعتراض کرو گے تو یہ جان رکھو کہ ہمارے رسول کے ذمہ صرف صاف صاف پہنچا دینا ہے۔ (سورۂ مائدہ آیات 90 تا 92)
ان آیات کے نازل ہونے کے بعد شراب اور جوئے کی قطعی حرمت کا اعلان ہوگیا، جب منادی حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے مکان پر سے گزرا تو اس وقت ان کے مکان پر محفل ناؤ و نوش برپا تھی، انہوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے کہا: "ذرا سننا کیا اعلان ہے؟" معلوم ہوا کہ شراب کی حُرمت کا اعلان ہے، حکم دیا کہ شراب کے مٹکے اٹھاؤ اور باہر لے جا کر توڑ دو، شراب کے رسیوں نے بےتامل شراب کے خُم توڑ ڈالے اور اس روز یہ حال تھا کہ مدینہ کی گلیوں میں شراب پانی کی طرح بہہ رہی تھی۔
==================>> جاری ہے ۔۔۔
سیرت المصطفی.. مولانا ادریس کاندھلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں