سیرت النبی کریم ﷺ..قسط 196


سیرت النبی کریم ..قسط 196

حضرت عثمانؓ کی سفارت اور بیعت رضوان:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سوچا کہ ایک سفیر روانہ فرمائیں جو قریش کے سامنے مؤکد طریقے پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موجودہ سفر کے مقصد وموقف کی وضاحت کردے.. اس کام کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو بلایا اور قریش کے پاس روانگی کا حکم دیتے ہوئے فرمایا.. "انہیں بتلادو کہ ہم لڑنے نہیں آئے ہیں , عمرہ کرنے آئے ہیں.. انہیں اسلام کی دعوت بھی دو.."

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو یہ حکم بھی دیا کہ وہ مکہ میں اہل ایمان مردوں اور عورتوں کے پاس جاکر انہیں فتح کی بشارت سنا دیں اور یہ بتلا دیں کہ اللہ عزوجل اب اپنے دین کو مکہ میں ظاہر وغالب کرنے والا ہے.. یہاں تک کہ ایمان کی وجہ سے کسی کو یہاں روپوش ہونے کی ضرورت نہ ہوگی..

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیغام لے کر روانہ ہوئے.. مقام بلدح میں قریش کے پاس سے گذرے تو انہوں نے پوچھا.. "کہاں کا ارادہ ہے..؟" فرمایا.. "مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ اور یہ پیغام دے کر بھیجا ہے.."

قریش نے کہا.. "ہم نے آپ کی بات سن لی.. آپ اپنے کام پر جائیے.." ادھر سعید بن عاص نے اُٹھ کر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو مرحبا کہا اور اپنے گھوڑے پر زین کس کر آپ کو سوار کیا اور ساتھ بٹھا کر اپنی پناہ میں مکہ لے گیا.. وہاں جا کر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے سربراہان ِ قریش کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیغام سنایا.. اس سے فارغ ہوچکے تو قریش نے پیشکش کی کہ آپ بیت اللہ کا طواف کرلیں مگر آپ رضی اللہ عنہ نے یہ پیش کش مسترد کردی اور یہ گورا نہ کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طواف کرنے سے پہلے خود طواف کرلیں..

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کی افواہ اور بیعت رضوان..

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اپنی سفارت کی مہم پوری کر چکے تھے لیکن قریش نے انہیں اپنے پاس روک لیا.. غالباً وہ چاہتے تھے کہ پیش آمدہ صورتِ حال پر باہم مشورہ کرکے کوئی قطعی فیصلہ کرلیں اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو ان کے لائے ہوئے پیغام کا جواب دے کر واپس کریں مگر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دیر تک رُکے رہنے کی وجہ سے مسلمانوں میں یہ افواہ پھیل گئی کہ انہیں قتل کردیا گیا ہے..

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. "ہم اس جگہ سے ٹل نہیں سکتے , یہاں تک کہ لوگوں سے معرکہ آرائی کرلیں.." پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کو بیعت کی دعوت دی.. صحابہ کرام ٹوٹ پڑے اور اس پر بیعت کی کہ میدان جنگ چھوڑ کر بھاگ نہیں سکتے.. ایک جماعت نے موت پر بیعت کی یعنی مر جائیں گے مگر میدان ِ جنگ نہ چھوڑیں گے..

سب سے پہلے ابوسنان اسدی رضی اللہ عنہ نے بیعت کی.. حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے تین بار بیعت کی.. شروع میں ، درمیان میں اور اخیر میں.. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود اپنا ہاتھ پکڑکر فرمایا.. "یہ عثمان کا ہاتھ ہے.." پھر جب بیعت مکمل ہوچکی تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بھی آ گئے اور انہوں نے بھی بیعت کی.. اس بیعت میں صرف ایک آدمی نے جو منافق تھا , شرکت نہیں کی.. اس کا نام جد بن قیس تھا..

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بیعت ایک درخت کے نیچے لی.. حضرت عمر رضی اللہ عنہ دست مبارک تھامے ہوئے تھے اور حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ نے درخت کی بعض ٹہنیاں پکڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اوپر سے ہٹا رکھی تھیں.. اسی بیعت کا نام بیعتِ رضوان ہے اور اسی کے بارے میں اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی ہے..

لَّقَدْ رَ‌ضِيَ اللَّـهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَ‌ةِ (۴۸: ۱۸)
''اللہ مومنین سے راضی ہوا , جب کہ وہ آپ سے درخت کے نیچے بیعت کررہے تھے..''

=============>> جاری ھے..

سیرت المصطفی.. مولانا ادریس کاندھلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں