سیرت النبی کریم ﷺ..قسط 194


سیرت النبی کریم ﷺ..قسط 194

بیت اللہ سے مسلمانوں کو روکنے کی کوشش:

قریش کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روانگی کا عِلم ہوا تو اس نے ایک مجلس ِ شوریٰ منعقد کی اور طے کیا کہ جیسے بھی ممکن ہو مسلمانوں کو بیت اللہ سے دور رکھا جائے.. چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب احابیش سے ہٹ کر اپنا سفر جاری رکھا تو بنی کعب کے ایک آدمی نے آکر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اطلاع دی کہ قریش نے مقام ذی طویٰ میں پڑاؤ ڈال رکھا ہے اور خالد بن ولید دو سو سواروں کا دستہ لے کر کُرَاع الغمیم میں تیار کھڑے ہیں.. (کُراع الغمیم ، مکہ جانے والی مرکزی اور کاروانی شاہراہ پر واقع ہے)

خالد نے مسلمانوں کو روکنے کی بھی کوشش کی.. چنانچہ انہوں نے اپنے سواروں کو ایسی جگہ تعینات کیا جہاں سے دونوں فریق ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے.. خالد نے ظہر کی نماز میں یہ بھی دیکھا کہ مسلمان رکوع اور سجدے کررہے ہیں تو کہنے لگے کہ یہ لوگ غافل تھے.. ہم نے حملہ کر دیا ہوتا تو انھیں مار لیا ہوتا.. اس کے بعد طے کیا کہ عصر کی نماز میں مسلمانوں پر اچانک ٹوٹ پڑیں گے لیکن اللہ نے اسی دوران صلوٰۃ خوف (حالت جنگ کی مخصوص نماز) کا حکم نازل کردیا اور خالد کے ہاتھ سے موقع جاتا رہا..

خون ریز ٹکراؤ سے بچنے کی کوشش اور راستے کی تبدیلی..

ادھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کُراع الغمیم کا مرکزی راستہ چھوڑ کر ایک دوسرا پُر پیچ راستہ اختیار کیا جو پہاڑی گھاٹیوں کے درمیان سے ہو کر گزرتا تھا یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم داہنے جانب حمش کے درمیان سے گزرتے ہوئے ایک ایسے راستے پر چلے جو ثنیۃ المرار پر نکلتا تھا.. ثنیۃ المرار سے حدیبیہ میں اترتے ہیں اور حدیبیہ مکہ کے زیریں علاقہ میں واقع ہے.. اس راستے کو اختیار کرنے کا فائدہ یہ ہوا کہ کُراع الغمیم کا وہ مرکزی راستہ جو تنعیم سے گزر کر حرم تک جاتا تھا اور جس پر خالد بن ولید کا رسالہ تعینات تھا , وہ بائیں جانب چھوٹ گیا.. خالد نے مسلمانوں کے گرد وغبار کو دیکھ کر جب یہ محسوس کیا کہ انہوں نے راستہ تبدیل کردیا ہے تو گھوڑے کو ایڑ لگائی اور قریش کو اس نئی صورت حال کے خطرے سے آگاہ کرنے کے لیے بھاگم بھاگ مکہ پہنچے..

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا سفر بدستور جاری رکھا.. جب ثنیۃ المرار پہنچے تو اونٹنی بیٹھ گئی.. لوگوں نے کہا "حل حل" لیکن وہ بیٹھی ہی رہی.. لوگوں نے کہا "قصواء اڑگئی ہے.." آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. "قصواء اڑی نہیں ہے اور نہ اس کی یہ عادت ہے لیکن اسے اس ہستی نے روک رکھا ہے جس نے ہاتھی کو روک دیا تھا.." پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. "اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! یہ لوگ کسی بھی ایسے معاملے کا مطالبہ نہیں کریں گے جس میں اللہ کی حُرمتوں کی تعظیم کررہے ہوں لیکن میں اسے ضرور تسلیم کر لوں گا.." اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اونٹنی کو ڈانٹا تو وہ اچھل کر کھڑی ہوگئی.. پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے راستہ میں تھوڑی سی تبدیلی کی اور اقصائے حدیبیہ میں ایک چشمہ پر نزول فرمایا جس میں تھوڑا سا پانی تھا اور اسے لوگ ذرا ذرا سا لے رہے تھے.. چنانچہ چند ہی لمحوں میں سارا پانی ختم ہوگیا.. اب لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پیاس کی شکایت کی.. آپ نے ترکش سے ایک تیر نکالا اور حکم دیا کہ چشمے میں ڈال دیں.. لوگوں نے ایسا ہی کیا.. اس کے بعد واللہ ! اس چشمے سے مسلسل پانی ابلتا رہا.. یہاں تک کہ تمام لوگ آسودہ ہو کر واپس ہوگئے..

بدیل بن ورقاء کا توسط..

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مطمئن ہوچکے تو بُدَیل بن ورقاء خزاعی اپنے قبیلہ خزاعہ کے چند افراد کی معیّت میں حاضر ہوا.. تہامہ کے باشندوں میں یہی قبیلہ (خزاعہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خیر خواہ تھا.. بدیل نے کہا.. "میں کعب بن لؤی کو دیکھ کر آرہا ہوں کہ وہ حدیبیہ کے فراواں پانی پر پڑاؤ ڈالے ہوئے ہیں.. ان کے ہمراہ عورتیں اور بچے بھی ہیں.. وہ آپ سے لڑنے اور آپ کو بیت اللہ سے روکنے کا تہیہ کیے ہوئے ہیں.."

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. "ہم کسی سے لڑنے نہیں آئے ہیں.. قریش کو لڑائیوں نے توڑ ڈالا ہے اور سخت ضرر پہنچایا ہے.. اس لیے اگر وہ چاہیں تو ان سے ایک مدت طے کرلوں اور وہ میرے اور لوگوں کے درمیان سے ہٹ جائیں اور اگر وہ چاہیں تو جس چیز میں لوگ داخل ہوئے ہیں اس میں وہ بھی داخل ہوجائیں ورنہ ان کو راحت تو حاصل ہی رہے گی اور اگر انہیں لڑائی کے سوا کچھ منظور نہیں تو اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! میں اپنے دین کے معاملے میں ان سے اس وقت تک لڑتا رہوں گا جب تک کہ میری گردن جدا نہ ہوجائے یا جب تک اللہ اپنا امر نافذ نہ کردے.."

بُدَیل نے کہا.. "آپ جو کچھ کہہ رہے ہیں میں اسے قریش تک پہنچادوں گا.." اس کے بعد وہ قریش کے پاس پہنچا اور بولا.. "میں ان صاحب کے پا س سے آرہا ہوں.. میں نے ان سے ایک بات سنی ہے.. اگر چاہو تو پیش کردوں.."

اس پر بیوقوفوں نے کہا.. "ہمیں کوئی ضرورت نہیں کہ تم ہم سے ان کی کوئی بات بیان کرو.." لیکن جو لوگ سوجھ بوجھ رکھتے تھے انہوں نے کہا.. "لاؤ سناؤ تم نے کیا سنا ہے..؟"

بدیل نے کہا.. "میں نے انہیں یہ اور یہ بات کہتے سنا ہے.." اس پر قریش نے مکرز بن حفص کو بھیجا.. اسے دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. "یہ بدعہد آدمی ہے.." چنانچہ جب اس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آ کر گفتگوکی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے وہی بات کہی جو بدیل اور اس کے رفقاء سے کہی تھی.. اس نے واپس پلٹ کر قریش کو پوری بات سے باخبر کیا..

=============>> جاری ھے..

سیرت المصطفی.. مولانا ادریس کاندھلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں