سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 180


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 180

غزوہ بنو قریظہ:

غزؤہ خندق کا ایک نہایت افسوس ناک اور رنج دہ واقعہ یہ ہے کہ حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ جو قبیلہ اوس کے سردار تھے، زخمی ہوئے اور یہی زخم ان کی وفات کا باعث ہوا۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جس قلعہ نما عمارت میں تھیں، اسی میں حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کی والدہ ماجدہ بھی تھیں، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو میدان جنگ میں جاتے ہوئے دیکھا تو محسوس کیا کہ زرہ اس قدر چھوٹی تھی کہ ان کے دونوں ہاتھ باہر تھے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ دیکھ کر حضرت سعد رضی اللہ عنہ کی والدہ سے کہا: "کاش زرہ لمبی ہوتی، جس سے ہاتھ بھی محفوظ ہوجاتے۔"

سوء اتفاق دیکھیے کہ حبان بن قیس معروف بہ ابن العرقہ نے تاک کر حضرت سعد رضی اللہ عنہ کی کلائی میں تیر مارا، جس سے ان کی رگ اکحل کٹ گئی، زخمی ہوتے ہی حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے دعا کی:

"باری تعالیٰ! اگر ہمارے اور قریش کے درمیان لڑائیاں باقی ہیں تو مجھے زندہ رکھ! کیونکہ مجھے قریش ہی کے خلاف جہاد سب سے بڑھ کر پسند ہے، انہوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اذیت پہنچائی، اگر قریش کے ساتھ لڑائیاں ختم ہوچکی ہیں تو مجھے بشارت عطاء کر اور مرنے سے پہلے بنو قریظہ کی جانب سے میری آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچا۔"

حضرت سعد رضی اللہ عنہ کی یہ دعا بارگاہ باری تعالیٰ میں قبول ہوئی، قریش پھر کوئی لڑائی نہ کرسکے اور حضرت سعد رضی اللہ عنہ کی زندگی ہی میں، بلکہ ان کی ثالثی سے بنو قریظہ کا فیصلہ ہوگیا، پھر اسی زخم کے باعث انہوں نے وفات پائی۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے احزاب سے فارغ ہو کر بحکم ربی فرمان جاری کیا کہ ہتھیار نا کھولیں اور بنو قریظہ کی طرف چلیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ میں حضرت عبداللہ ابن اُم مکتوم رضی اللہ عنہ کو اپنا نائب مقرر فرمایا اور پھر مہاجرین وانصار کے ساتھ روانہ ہوئے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رات میں محلہ بنو قریظہ میں بیرانا یا بیرانی نام کے ایک کنویں پر اترے، مجاہدین کی تعداد تین ہزار تھی جس میں 36 گھڑ سوار تھے، ان مجاہدین کو دیکھ کر بنو قریظہ کے لوگ قلعوں میں بند ہوگئے، جن کی تعداد تقریباً سات سو تھی، جن کا سالار کعب بن اسد تھا۔

قریظہ اگر صلح سے پیش آتے تو قابل اطمینان تصفیہ کے بعد ان کو امن دے دیا جاتا، لیکن وہ مقابلے کا فیصلہ کرچکے تھے، بنو قریظہ کے پاس مضبوط قلعے تھے، سامان خوراک کافی مقدار میں تھا اور بہت سے پانی کے چشمے موجود تھے، اسلحہ بھی کافی تعداد میں تھے، ان کے مقابلہ میں مسلمانوں کے پاس ان وسائل کی کمی تھی، لیکن نہایت بہادری سے ڈٹ کران کے قلعوں کا محاصرہ کئے ہوئے تھے، طرفین میں تیر اور پتھروں کا تبادلہ ہوتا رہا، محاصرہ طول کھینچتا رہا، جس کی مدت بہ اختلاف روایات پندرہ روز، اکیس روز اور پچیس روز بتلائی گئی ہے، بنو قریظہ نے محاصرہ سے تنگ آکر ایک قاصد بناش بن قیس کو اس پیام کے ساتھ بھیجا کہ جن شرائط پر بنو نضیر کو بستی خالی کرنے کی اجازت دی گئی تھی ہم بھی وہی شرائط قبول کرتے ہیں، ان کی درخواست رد کر دی گئی اور ان سے کہا گیا کہ بلا شرط ہتھیار ڈال دیں۔

بنو قریظہ کا سردار کعب بن اسد تھا، حیی بن اخطب بھی بنو قریظہ کے ساتھ محصور تھا، کعب بن اسد نے جب دیکھا کہ مسلمانوں کا مقابلہ میری قوم سے نہیں ہوسکتا تو اُس نے اپنی قوم کو ایک جگہ جمع کرکے کہا: "محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نبی ہونے میں تو شک نہیں، کیونکہ ان کے متعلق ہماری آسمانی کتاب توریت میں پیش گوئیاں صاف صاف موجود ہیں اور یہ وہی نبی ہیں جن کے ہم منتظر تھے، پس مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم سب اُن کی تصدیق کریں اور اپنے جان ومال واولاد کو محفوظ کرلیں۔" بنو قریظہ نے اس مشورہ کی مخالفت کی اور مسلمان ہونے سے انکار کیا۔

اس کے بعد کعب بن اسد نے کہا: "دوسرا مشورہ میرا یہ ہے کہ اپنی عورتوں اور بچوں کو قتل کردو اور قلعہ سے نکل کر میدان میں مسلمانوں سے جان توڑ کر مقابلہ کرو، اگر فتح مند ہوئے تو عورتیں اور بچے پھر میسر آسکتے ہیں، مارے گئے تو ننگ وناموس کی طرف سے بے فکر مریں گے۔" بنو قریظہ نے اس مشورہ کے قبول کرنے سے بھی انکار کیا۔

کعب بن اسد نے کہا: "تیسرا مشورہ میرا یہ ہے کہ سبت کی رات میں مسلمانوں پر شب خون مارو، کیونکہ اس روز ہمارے یہاں قتل کرنا اور حملہ آور ہونا ناجائز ہے، مسلمان اُس رات کو ہماری طرف سے بالکل بے فکر اور غافل ہوں گے، اس لئے ہمارا شب خون بہت کامیاب رہے گا اور ہم مسلمانوں کا بکُلی استیصال کردیں گے۔" اس بات پر بھی بنو قریظہ رضامند نہ ہوئے اور کہا کہ ہم سبت کی بے حرمتی بھی نہیں کرنا چاہتے۔

یہود نے ان تینوں میں سے کوئی بھی تجویز منظور نہ کی جس پر ان کے سردار کعب بن اسد نے (جھلا کر) کہا: "تم میں سے کسی نے ماں کی کوکھ سے جنم لینے کے بعد ایک رات بھی ہوش مندی کے ساتھ نہیں گزاری ہے۔"

ان تینوں تجاویز کو رد کردینے کے بعد بنو قریظہ کے سامنے صرف ایک ہی راستہ رہ جاتا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے ہتھیار ڈال دیں۔

سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ اور ان کا قبیلہ اوس بنو قریظہ کا حلیف اور ہم عہد تھا اور ان میں تعلق ہم نسبتی سے بڑھ کر تھا، بنو قریظہ نے اپنے حلیف قبیلہ اوس کے لوگوں سے اصراراً کہا کہ بنی نضیر کے لئے خزرج والوں نے سفارش کی تھی، اسی طرح تم بھی ہمارے لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سفارش کرو، جس پر قبیلہ اوس والوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ان کے لئے سفارش کی، قبیلہ اوس کے لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض پرداز ہوئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بنو قینقاع کے ساتھ جو سلوک فرمایا تھا وہ آپ کو یاد ہی ہے، بنو قینقاع ہمارے بھائی خَزْرج کے حلیف تھے اور یہ لوگ ہمارے حلیف ہیں، لہٰذا ان پر احسان فرمائیں۔

یہ سن کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انصار سے فرمایا: "کیا یہ مناسب نہیں کہ ہم میں اور ان میں کوئی شخص حَکم مقرر کر دیا جائے؟"

سب نے کہا: "یہ بہت مناسب ہے۔"

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "ان سے کہو کہ قبیلہ اوس میں سے جس کو چاہیں، حکم مقرر کریں۔"

بنو قریظہ نے قبیلہ اوس کے سردار حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی ثالثی پر رضامندی ظاہر کی، ایک شخص کو بنو قریظہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پیغام بھیجا کہ ہم اپنے آپ کو اس شرط پر آپ کے سپرد کرتے ہیں کہ سعد بن معاذ (رضی اللہ عنہ) ہمارے لئے جو سزا تجویز کریں، وہی سزا ہم کو دی جائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شرط کو قبول فرمالیا۔

==================>> جاری ہے ۔۔۔

سیرت المصطفی.. مولانا ادریس کاندھلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں