سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 177
خندق عبور کرنے کی کوشش:
محاصرین نے ایک طرف خندق کا محاصرہ کر رکھا تھا تو دوسری طرف اس غرض سے مدینہ پر حملہ کرنا چاہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کے اہل و عیال یہیں قلعوں میں پناہ گزیں تھے، محاصرین خندق کو عبور نہیں کر سکتے تھے اس لئے دور سے تیر اور پتھر برساتے تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خندق کے مختلف حصوں پر فوجیں تقسیم کر دی تھیں جو محاصرین کے حملوں کا مقابلہ کرتی تھیں، ایک حصہ خود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہتمام میں تھا۔
محاصرہ کی سختی دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خیال ہوا کہ ایسا نہ ہو کہ انصار ہمت ہار جائیں، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غطفان سے اس شرط پر معاہدہ کرنا چاہا کہ مدینہ کی پیداوار کا ایک ثلث ان کو دے دیا جائے، حضرت سعد بن عبادہ اور حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہم کو جو رؤسائے انصار تھے، بلا کر مشورہ کیا، دونوں نے عرض کیا کہ: "اگر یہ اللہ کا حکم ہے تو انکار کی مجال نہیں، لیکن اگر رائے ہے تو یہ عرض ہے کہ کفر کی حالت میں بھی کوئی شخص ہم سے خراج مانگنے کی جرأت نہ کرسکا اور اب تو اسلام نے ہمارا پایہ بہت بلند کر دیا ہے، ان لوگوں سے جو بن آئے، کر دکھائیں۔" یہ استقلال دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اطمینان ہوا۔
مشرکین کی طرف سے حملہ کا یہ انتظام کیا گیا تھا کہ قریش کے مشہور جنرل یعنی ابوسفیان، خالد بن ولید، عمرو بن العاص، ضرار بن الخطاب، جبیرہ، کا ایک ایک دن مقرر ہوا، ہر جنرل اپنی باری کے دن پوری فوج کو لے کر لڑتا تھا، خندق کو عبور نہیں کر سکتے تھے، لیکن خندق کا عرض چونکہ زیادہ نہ تھا، اس لئے باہر سے پتھر اور تیر برساتے تھے، چونکہ اس طریقہ میں کامیابی نہیں ہوئی اس لئے قرار پایا کہ اب عام حملہ کیا جائے، تمام فوجیں یکجا ہوئیں، قبائل کے تمام سردار آگے آگے تھے، خندق ایک جگہ اتفاقاً کم عریض تھی، یہ موقع حملہ کے لئے انتخاب کیا گیا۔
چنانچہ ان کی ایک جماعت نے جن میں عَمرو بن عبدِ وُدّ، عکرمہ بن ابی جہل اور ضرار بن خطاب وغیرہ تھے، اس تنگ مقام سے خندق پار کرلی اور ان کے گھوڑے خندق اور سلع کے درمیان میں چکر کاٹنے لگے، ادھرسے حضرت علی رضی اللہ عنہ چند مسلمانوں کے ہمراہ نکلے اور جس مقام سے انہوں نے گھوڑے کدائے تھے، اسے قبضے میں لے کر ان کی واپسی کا راستہ بند کردیا، اس پر عَمرو بن عبدِ وُدّ نے مبارَزَت کے لیے للکارا۔
وہ ایک ہزار سوار کے برابر مانا جاتا تھا، بڑا بہادر اور شہ زور تھا، جنگ بدر میں زخمی ہو کر واپس چلا گیا تھا اور قسم کھائی تھی کہ جب تک انتقام نہ لوں گا، بالو ں میں تیل نہ ڈالوں گا، سب سے پہلے وہی آگے بڑھا اور عرب کے دستور کے مطابق پکارا کہ مقابلہ کو کون آتا ہے۔؟
حضرت علی رضی اللہ عنہ دو دو ہاتھ کرنے کے لیے مدمقابل پہنچے اور ایک ایسا فقرہ چست کیا کہ وہ طیش میں آکر گھوڑے سے کود پڑا اور اس کی کوچیں کاٹ کر، چہرہ مار کر حضرت علی کے دو بدو آگیا، دونوں میں پُر زور ٹکر ہوئی، ایک نے دوسرے پر بڑھ بڑھ کر وار کیے، بالآخر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس کا کام تمام کردیا، باقی مشرکین بھاگ کر خندق پار چلے گئے، وہ اس قدر مرعوب تھے کہ عکرمہ نے بھاگتے ہوئے اپنا نیزہ بھی چھوڑ دیا۔
حملہ کا دن بہت سخت تھا، تمام دن لڑآئی جاری رہی، کفار ہر طرف سے تیر اور پتھر برسا رہے تھے اور ایک دن کے لئے بارش تھمنے نہ پاتی تھی، یہی دن ہے جس کا ذکر اکثر احادیث میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مسلسل چار نمازیں ظہر، عصر، مغرب، عشاء قضاء ہوئیں، مسلسل تیر اندازی اور سنگ باری سے جگہ سے ہٹنا ناممکن تھا، جب دونوں جماعتیں متفرق ہوکر اپنی اپنی جگہ واپس ہوئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو اذان کا حکم دیا، پہلے ظہر کی اقامت کہی گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز پڑھی، پھر ہر نماز کے لئے علیحدہ علیحدہ اقامت کہی گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام نے قضاء نمازیں پڑھیں۔ (طبقات ابن سعد)
مشرکین کی طرف سے خندق عبور کرنے کی کوشش اور مسلمانوں کی طرف سے پیہم دفاع کئی روز تک جاری رہا، مگر چونکہ دونوں فوجوں کے درمیان خندق حائل تھی، اس لیے دست بدست اور خونریز جنگ کی نوبت نہ آسکی، بلکہ صرف تیر اندازی ہوتی رہی،
اسی تیر اندازی میں فریقین کے چند افراد مارے بھی گئے، لیکن انہیں انگلیوں پر گنا جاسکتا ہے، یعنی چھ مسلمان اور دس مشرک جن میں سے ایک یا دو آدمی تلوار سے قتل کیے گئے تھے۔
==================>> جاری ہے ۔۔۔
سیرت المصطفی.. مولانا ادریس کاندھلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں