سیرت النبی کریم ﷺ..قسط 195
قریش کے ایلچی:
مکرز بن حفص کے واپس آجانے کے بعد حلیس بن علقمہ نامی بنوکنانہ کے ایک آدمی نے کہا.. "مجھے ان کے پاس جانے دو.." جب وہ نمودار ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام سے فرمایا.. "یہ فلاں شخص ہے.. یہ ایسی قوم سے تعلق رکھتا ہے جو ہَدْی کے جانوروں کا بہت احترام کرتی ہے , لہٰذا جانوروں کو کھڑا کر دو.."
صحابہ نے جانوروں کو کھڑا کردیا اور خود بھی لبیک پکارتے ہوئے اس کا استقبال کیا.. اس شخص نے یہ کیفیت دیکھی تو کہا.. "سبحان اللہ ! ان لوگوں کو بیت اللہ سے روکنا ہرگز مناسب نہیں.." اور وہیں سے اپنے ساتھیوں کے پاس واپس پلٹ گیا اور بولا.. "میں نے ہدی کے جانور دیکھے ہیں جن کے گلوں میں قلاوے ہیں اور جن کی کوہان چیری ہوئی ہیں.. اس لیے میں مناسب نہیں سمجھتا کہ انہیں بیت اللہ سے روکا جائے.." اس پر قریش اور اس شخص میں کچھ ایسی باتیں ہوئیں کہ وہ تاؤ میں آگیا..
اس موقع پر عروہ بن مسعود ثقفی نے مداخلت کی اور بولا.. "اس شخص نے تمہارے سامنے ایک اچھی تجویز پیش کی ہے.. لہٰذا اسے قبول کرلو اور مجھے ان کے پاس جانے دو.." چنانچہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور گفتگو شروع کی.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے بھی وہی بات کہی جو بدیل سے کہی تھی.. اس پر عروہ نے کہا.. "اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)! یہ بتایئے کہ اگر آپ نے اپنی قوم کا صفایا بھی کردیا تو کیا اپنے آپ سے پہلے کسی عرب کے متعلق سنا ہے کہ اس نے اپنی قوم کا صفایا کردیا ہو اور اگر دوسری صورتِ حال پیش آئی تو اللہ کی قسم ! میں ایسے چہرے دیکھ رہا ہوں جو اسی لائق ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چھوڑ کر بھاگ جائیں.."
اس پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا.. "ہم حضور کو چھوڑ کر بھاگیں گے..؟" عروہ نے کہا.. "یہ کون ہے..؟" لوگوں نے کہا.. "ابوبکر (رضی اللہ عنہ) ہیں.." اس کے بعد عروہ پھر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے گفتگو کرنے لگا.. وہ جب گفتگو کرتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ڈاڑھی پکڑ لیتا.. مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سر کے پاس ہی کھڑے تھے.. ہاتھ میں تلوار تھی اور سر پر خُود.. عروہ جب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی داڑھی پر ہاتھ بڑھاتا تو وہ تلوار کے دستے سے اس کے ہاتھ پر مارتے اور کہتے کہ اپنا ہاتھ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی داڑھی سے پرے رکھ..
اس کے بعد عروہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ صحابہ کے تعلق ِ خاطر کا منظر دیکھنے لگا.. پھر اپنے رفقاء کے پاس واپس آیا اور بولا.. "اے قوم ! واللہ میں قیصر وکسریٰ اور نجاشی جیسے بادشاہوں کے پاس جاچکا ہوں.. واللہ میں نے کسی بادشاہ کو نہیں دیکھا کہ اس کے ساتھی اُس کی اتنی تعظیم کرتے ہوں جتنی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعظیم کرتے ہیں.. جب وہ کوئی حکم دیتے تھے تواس کی بجاآوری کے لیے سب دوڑ پڑتے تھے اور جب وضو کرتے تھے تو معلوم ہوتا تھا کہ اس کے وضو کے پانی کے لیے لوگ لڑ پڑیں گے اور جب کوئی بات بولتے تھے تو سب اپنی آوازیں پست کرلیتے تھے اور فرطِ تعظیم کے سبب انہیں بھرپورنظر نہ دیکھتے تھے اور انہوں نے تم پر ایک اچھی تجویز پیش کی ہے , لہٰذا اسے قبول کرلو.. وہی ہے جس نے ان کے ہاتھ تم سے روکے..
جب قریش کے پُرجوش اور جنگ باز نوجوان نے دیکھا کہ ان کے سر برآوردہ حضرات صلح کے جویا ہیں تو انہوں نے صلح میں ایک رخنہ اندازی کا پروگرام بنایا اور یہ طے کیا کہ رات میں یہاں سے نکل کر چپکے سے مسلمانوں کے کیمپ میں گھس جائیں اور ایسا ہنگامہ برپا کردیں کہ جنگ کی آگ بھڑک اٹھے.. پھر انہوں نے اس پروگرام کی تنفیذ کے لیے عملی قدم بھی اٹھایا.. چنانچہ رات کی تاریکی میں ستر یا اسیّ نوجوانوں نے جبل تنعیم سے اتر کر مسلمانوں کے کیمپ میں چپکے سے گھسنے کی کوشش کی لیکن اسلامی پہرے داروں کے کمانڈر محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے ان سب کو گرفتار کرلیا.. پھر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صلح کی خاطر ان سب کو معاف کرتے ہوئے آزاد کردیا..
=============>> جاری ھے..
سیرت المصطفی.. مولانا ادریس کاندھلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں