سیرت النبی کریم ﷺ ..قسط 192


سیرت النبی کریم ﷺ ..قسط 192

صلح حدیبیہ (ذیقعدہ، ۶ ہجری)

پس منظر:

ہجرت کا پانچواں سال غزؤہ خندق پر ختم ہوا.. آغاز 6 ہجری سے صلح حُدیبیہ تک جتنے غزوات و سرایہ ہوئے ان کی تعداد سترہ ہے جو تمام تادیبی ہیں.. ہجرت کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ منورہ کی خارجی حفاظت کے لئے یہ تدبیر اختیار کی کہ مدینہ سے باہر کے قبائل کو مصالحت کا پیغام دیا جائے اور ایسی صورت اختیار کی جائے کہ قریش جن کی نخوت اور غرور کا پارہ سارے قبائل عرب سے اونچا ہے , وہ بھی مصالحت پر آمادہ ہو جائیں.. چنانچہ اس کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بذات خود مدینہ سے قبائل عرب کا سفر کیا اور مختلف قبائل سے مصالحت فرمائی..

قریش سے مصالحت کا معاملہ نہایت اہم تھا.. مٹھی بھر بے سروسامان مسلمانوں کے مقابلہ میں مصالحت کے لفظ کا سننا بھی ان کے لئے توہین کا باعث تھا.. ان کے لئے براہ راست پیغام مصالحت کے بجائے ایسے اسباب کا پیدا کرنا مناسب سمجھا گیا جو ان کو صلح پر مجبور کردیں.. اس سارے جتن کا مقصد یہ تھا کہ اس مصالحت سے عالمی مشن کی عالمی دعوت کے لئے راہ کھل جائے جس کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہجرت اور انصار کی بیعت سے پہلے ہر قبیلے کے پاس جاتے تھے اور ان سے کہتے تھے کہ "تم ہماری حفاظت کی ذمہ داری لے لو تاکہ تمھاری پناہ میں دنیا کو میں خدا کا پیغام پہنچا دوں جس کو لے کر میں مبعوث ہوا ہوں.." غزؤہ خندق کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ اعلان فرمایا کہ "اب ہم ان لوگوں پر حملہ کریں گے.. وہ لوگ ہم پر حملہ نہیں کریں گے ، ہم ہی ان کی طرف بڑھیں گے.." (بخاری)

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کا پورا پورا اندازہ فرمالیا کہ قریش میں بداہتاً اب اس کی طاقت نہیں رہی کہ وہ اپنی جنگی طاقت سے اسلام اور مسلمانوں کا استحصال کر سکیں گے بلکہ ہم ہی ان پر چڑھائی کریں گے.. اسی کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی اندازہ فرمایا کہ اب اس حالت میں کہ وہ غزؤہ خندق سے خائب و خاسر لوٹے ہیں اور اپنی کامیابی سے مایوس ہو چکے ہیں اور ان کی امیدیں منقطع ہوچکی ہیں , قدرتی طور پر ان کی نخوت و غرور کا پارہ نیچے اتر چکا ہوگا اور اب ان کا قومی مزاج اس قابل ہوگیا ہوگا کہ صلح کی دعوت کارگر ہو.. اب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے دو صورتیں تھیں..

1....... فدائیوں اور جانثاروں کی جماعت کو لے کر ان پر حملہ آور ہوں اور ان کے ساتھ بھی تادیبی معاملہ کریں اور ان کی ظلم کشی اور مسلمانوں کے ان جانی و مالی نقصان کا بھر پور انتقام لیں جو انھوں نے مسلسل ابتدائے بعثت سے لے کر غزؤہ خندق تک پورے اٹھارہ سال پہنچائے اور اس سلسلہ میں کوئی دقیقہ مسلمانوں کو تباہ و برباد کرنے کے لئے اٹھا نہیں رکھا..

2....... دوسرے یہ کہ صلح کا پیغام دیا جائے اور اس طریقہ سے دیا جائے اور موثر اور کارگر ہو اور ان کو یہ احساس نہ ہو کہ تلوار کے نیچے اپنی طاقت کے بل پر ہم سے جبراً صلح کا معاہدہ لکھوایا جارہا ہے..

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تادیب کی پہلی صورت کے مقابلہ میں دوسری صورت کو پسند فرمایا.. اس کی دو وجوہ تھیں..

اول یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقصد صرف یہ تھا کہ "عالمی مشن کی عالمی دعوت" کی راہ سے مزاحمت ختم ہوجائے اور قریش دعوت حق کو کھلے دل سے بلا جبر و اکراہ اختیار کریں.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقصد اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پالیسی ہرگز یہ نہیں تھی کہ قریش کا یا ان جیسے دشمن اسلام کا استحصال کردیا جائے یا ان کو اسلام لانے پر مجبور کیا جائے یا اسلام قبول نہ کرنے پر اور اس کی دعوت کو رد کردینے کی بنا پر ان کو جانی و مالی نقصان پہنچایا جائے.. کیونکہ اسلام میں نہ ایسے اسلام کی کوئی قیمت ہے اور نہ ایسا اسلام قابل اعتبار ہے جو کھلے دل سے بلا جبر و اکراہ نہ قبول کیا گیا ہو..

دوم یہ کہ اسلامی نقطہ نظر سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صلح ہی کو اسلام کی فتح بھی سمجھتے تھے اور عالمی مشن کی عالمی دعوت کی کامیابی اور اثر اندازی کے لئے اختلاط ، میل جول ، صلح و آتشی اور کھلے دل سے باہمی تبادلہ خیال اور گفتگو کے مواقع کو ضروری سمجھتے تھے جو مصالحت ہی کی راہ سے حاصل ہوسکتے تھے.. چنانچہ صلح حُدیبیہ سے فارغ ہو کر جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چلے تو پہلی منزل یا دوسری منزل پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حق تعالیٰ کی جانب سے اس مصالحت پر ان الفاظ میں مبارکباد دی گئی..

"(اے پیغمبر) بے شک ہم نے تم کو ایک کھلی فتح دی.." (سورہ ٔ فتح : ۱)

واقعتاً صلح حُدیبیہ کے بعد باہمی اختلاط کا کیا اثر ہوا..؟ تمام مورخین کا متفقہ بیان ہے کہ صلح حُدیبیہ سے لے کر فتح مکہ تک یعنی دو برس کے اندر کثرت سے اتنے لوگوں نے کھلے دل سے اسلام قبول کیا کہ اس اٹھارہ انیس سال میں اتنے لوگوں نے اسلام قبول نہیں کیا تھا..

بہر حال آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مصالحت کی راہ کو اختیار کیا اور اس کے لئے یہ موثر صورت اختیار کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عمرہ کا عزم کیا اور اس کے ذیل میں پیغام صلح کو رکھا تا کہ دل میں اس کا معمولی خطرہ بھی پیدا نہ ہو کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ چودہ ، پندرہ سو فدائیوں کا جو جتھا ہے اور سب کے سب احرام باندھے ہوئے ہیں اور جنگی ہتھیاروں سے خالی ہیں , یہ مکہ پر چڑھائی کے لئے آرہے ہیں..

اگلے واقعات بتائیں گے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اندازہ صحیح ثابت ہوا کہ قریش کے قومی مزاج میں مصالحت کی قبولیت کی استعداد پیدا ہوگئی تھی.. چنانچہ جب حُدیبیہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قریش کو پیغام صلح دیا تو رد و کد کے بعد یہ پیغام کامیاب ہوا اور حُدیبیہ میں صلح ہوگئی اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عمرہ کے ذیل میں پیغام صلح کو رکھنا نہایت موثر ثابت ہوا اور معاہدہ صلح پر سکون فضا میں طئے ہوا..(پیغمبر عالم)

=================>> جاری ھے..

سیرت المصطفی.. مولانا ادریس کاندھلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں