سیرت النبی کریم ﷺ ..قسط 188
غزوہ احزاب وقریظہ کے بعد جنگی مہمات:
2: سریہ محمد بن مسلمہ:
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم احزاب اور قریظہ کی جنگوں سے فارغ ہوگئے اور جنگی مجرمین سے نمٹ چکے تو ان قبائل اور اعراب کے خلاف تادیبی حملے شروع کی جو امن وسلامتی کی راہ میں سنگ گراں بنے ہوئے تھے اور قُوتِ قاہرہ کے بغیر پُر سکون نہیں رہ سکتے تھے.. ذیل میں اس سلسلے کے سرایا اور غزوات کا اجمالی ذکر کیا جارہا ہے..
سریۂ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ..
احزاب وقریظہ کی جنگوں سے فراغت کے بعد یہ پہلا سریہ ہے جس کی روانگی عمل میں آئی.. یہ تیس آدمیوں کی مختصر سی نفری پر مشتمل تھا..
اس سریہ کو نجد کے اندر بکرات کے علاقہ میں ضریہ کے آس پاس قرطاء نامی مقام پر بھیجا گیا تھا.. ضریہ اور مدینہ کے درمیان سات رات کا فاصلہ ہے.. روانگی ۱۰/محرم ۶ ھ کو عمل میں آئی تھی اور نشانہ بنو بکر بن کلاب کی ایک شاخ تھی.. مسلمانوں نے چھاپہ مارا تو دشمن کے سارے افراد بھاگ نکلے.. مسلمانوں نے چوپائے اور بکریاں ہانک لیں اور محرم میں ایک دن باقی تھا کہ مدینہ آگئے..
یہ لوگ بنو حنیفہ کے سردار ثمامہ بن اثال حنفی کو بھی گرفتار کر لائے تھے.. وہ مسیلمہ کذاب کے حکم سے بھیس بدل کر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قتل کرنے نکلے تھے لیکن مسلمانوں نے انہیں گرفتار کرلیا اور مدینہ لا کر مسجد نبوی کے ایک کھمبے سے باندھ دیا..
نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے تو دریافت فرمایا.. "ثمامہ ! تمہارے نزدیک کیا ہے..؟"
انہوں نے کہا.. "اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میرے نزدیک خیر ہے.. اگر تم قتل کرو تو ایک خون والے کو قتل کرو گے اور اگر احسان کرو تو ایک قدردان پر احسان کرو گے اور اگر مال چاہتے ہو تو جو چاہو مانگ لو.."
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اسی حال میں چھوڑ دیا.. پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دوبارہ گذرے تو پھر وہی سوال کیا اور ثمامہ نے پھر وہی جواب دیا.. اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تیسری بار گذرے تو پھر وہی سوال وجواب ہوا.. اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا کہ ثمامہ کو آزاد کردو.. انہوں نے آزاد کردیا..
ثمامہ مسجد نبوی کے قریب کھجور کے ایک باغ میں گئے , غسل کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس واپس آکر مشرف بہ اسلام ہوگئے.. پھر کہا.. "اللہ کی قسم ! روئے زمین پر کوئی چہرہ میرے نزدیک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرے سے زیادہ مبغوض نہ تھا لیکن اب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ دوسرے تمام چہروں سے زیادہ محبوب ہوگیا ہے اور اللہ کی قسم ! روئے زمین پر کوئی دین میرے نزدیک آپ کے دین سے زیادہ مبغوض نہ تھا مگر اب آپ کا دین دوسرے تمام ادیان سے زیادہ محبوب ہوگیا ہے.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سواروں نے مجھے اس حالت میں گرفتار کیا تھا کہ میں عمرہ کا ارادہ کررہا تھا.."
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بشارت دی اور حکم دیا کہ عمرہ کرلیں.. جب وہ دیارِ قریش میں پہنچے تو انہوں نے کہا.. "ثمامہ ! تم بد دین ہوگئے..؟"
ثمامہ رضی اللہ عنہ نے کہا.. "نہیں ! بلکہ میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ پر مسلمان ہوگیا ہوں.. سنو ! اللہ کی قسم ! تمہارے پاس یمامہ سے گیہوں کا ایک دانہ نہیں آسکتا جب تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کی اجازت نہ دے دیں.."
یمامہ ، اہل ِ مکہ کے لیے کھیت کی حیثیت رکھتا تھا.. حضرت ثمامہ رضی اللہ عنہ نے وطن واپس جاکر مکہ کے لیے غلہ کی روانگی بند کردی جس سے قریش سخت مشکلات میں پڑ گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قرابت کا واسطہ دیتے ہوئے لکھا کہ ثمامہ کو لکھ دیں کہ وہ غلے کی روانگی بند نہ کریں.. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسا ہی کیا..
(زاد المعاد ۲/۱۱۹ صحیح بخاری حدیث نمبر ۴۳۷۳ ، فتح الباری ۷/۶۸۸)
ٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓ===============>> جاری ھے..
سیرت المصطفی.. مولانا ادریس کاندھلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں