سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 174


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 174

مسلمانوں کی مجلس شوریٰ کا فیصلہ:

جیسے ہی مخبرین کے ذریعے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کواطلاع ملی کہ دشمن ان کے خلاف حملوں کی منصوبہ بندی کر رہا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حسب سابق صحابہ کی مجلس شوریٰ منعقد کی اور دفاعی منصوبے پر صلاح مشورہ کیا۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ ایرانی النسل ہونے کی وجہ سے خندق کے طریقہ سے واقف تھے، انہوں نے رائے دی کہ کھلے میدان میں نکل کر مقابلہ کرنا مصلحت نہیں، ایک محفوظ مقام میں لشکر جمع کیا جائے اور ایک خندق کھود لی جائے، تمام لوگوں نے اس رائے کو پسند کیا۔

مدینہ میں تین جانب مکانات اور نخلستان کا سلسلہ تھا جو شہر پناہ کا کام دیتا تھا، صرف شامی رُخ کھلا ہواتھا، یہ بڑی باحکمت دفاعی تجویز تھی، چونکہ مدینہ شمال کے علاوہ باقی اطراف سے حَرّے (لاوے کی چٹان) پہاڑوں اور کھجور کے باغات سے گھِرا ہوا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک ماہر اور تجربہ کار فوجی کی حیثیت سے یہ جانتے تھے کہ مدینے پر اتنے بڑے لشکر کی یورش صرف شمال ہی کی جہت سے ہوسکتی ہے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صرف اسی جانب خندق کھدوائی۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تقریبا تین ہزار صحابہ کے ساتھ شہر سے باہر نکل کر اس مقام میں خندق کھودنے کی تیاریاں شروع کیں، خندق کی گہرائی پانچ گز رکھی گئی۔

ذیقعدہ 5 ہجری کی 8 تاریخ تھی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حدود قائم کئے، داغ بیل ڈال کر دس دس آدمیوں پر دس دس گز زمین تقسیم کی، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہ نفس نفیس ان مجاہدوں کے ساتھ خندق کھودنے میں شریک تھے، کئی کئی دن فاقہ سے گزر رہے تھے، اس پر بھی اسلام کے شیدائیوں کا جوش ٹھنڈا نہیں ہوتا تھا، ہاتھوں سے مٹی کھودتے اور پیٹھوں پر اس کو لاد لاد کر پھینکتے تھے اور آواز میں آواز ملا کر یہ شعر گاتے تھے۔

"ہم ہیں جنہوں نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ پر اس عہد پر بیعت کی ہے کہ جب تک جان میں جان ہے، ہم خدا کی راہ میں لڑتے جائیں گے۔" (جامع ترمذی)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کام کی ترغیب بھی دیتے تھے اور عملاً اس میں پوری طرح شریک بھی رہتے تھے۔ صحیح بخاری ہی میں ایک روایت حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ آپ خندق سے مٹی ڈھورہے تھے، یہاں تک کہ غبار نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شکم کی جلد ڈھانک دی تھی۔

مسلمان ایک طرف اس گرم جوشی کے ساتھ کام کررہے تھے تو دوسری طرف اتنی شدت کی بھوک برداشت کررہے تھے کہ اس کے تصور سے کلیجہ شق ہوتا ہے، چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ اہل خندق کے پاس دو مٹھی جَو لایا جاتا تھا اور ہیک دیتی ہوئی چکنائی کے ساتھ بنا کر لوگوں کے سامنے رکھ دیا جاتا تھا، لوگ بھوکے ہوتے تھے اور یہ حلق کے لیے بدلذت ہوتا تھا، اس سے مہک پھُوٹتی رہتی تھی۔ (صحیح بخاری ۲/۵۸۸)

ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھوک کا شکوہ کیا اور اپنے شکم کھول کر ایک ایک پتھر دکھلائے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا شکم کھولا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو پتھر باندھے ہوئے تھے۔

==================>> جاری ہے ۔۔۔

سیرت المصطفی مولانا ادریس کاندھلوی
الرحیق المختوم مولانا صفی الرحمن مبارکپوری

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں