سیرت النبی کریم ﷺ ..قسط 187


سیرت النبی کریم ﷺ ..قسط 187

غزوہ احزاب وقرہظہ کے بعد جنگی مہمات:

①۔ سلام بن ابی الحقیق کا قتل:

سلام بن ابی الحقیق جس کی کنیت ابو رافع تھی , یہود کے ان اکابر مجرمین میں تھا جنہوں نے مسلمانوں کے خلاف مشرکین کو ورغلانے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا اور مال و رسد سے ان کی امداد کی تھی.. اس کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایذا بھی پہنچاتا تھا.. اس لیے جب مسلمان بنو قریظہ سے فارغ ہوچکے تو قبیلہ خزرج کے لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس کے قتل کی اجازت چاہی.. چونکہ اس سے پہلے کعب بن اشرف کا قتل قبیلہ اوس کے چند صحابہ کے ہاتھوں ہوچکا تھا ، اس لیے قبیلہ خزرج کی خواہش تھی کہ ایسا ہی کوئی کارنامہ ہم بھی انجام دیں.. اس لیے انہوں نے اجازت مانگنے میں جلدی کی..

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اجازت تو دے دی لیکن تاکید فرمادی کہ عورتوں اور بچوں کو قتل نہ کیا جائے.. اس کے بعد ایک مختصر سا دستہ جو پانچ آدمیوں پر مشتمل تھا , اپنی مہم پر روانہ ہوا.. یہ سب کے سب قبیلہ خزرج کی شاخ بنو سلمہ سے تعلق رکھتے تھے اور ان کے کمانڈر حضرت عبداللہ بن عتیک رضی اللہ عنہ تھے..

اس جماعت نے سیدھے خیبر کا رخ کیا کیونکہ ابورافع کا قلعہ وہیں تھا.. جب قریب پہنچے تو سورج غروب ہوچکا تھا اور لوگ اپنے ڈھور ڈنگر لے کر واپس ہو چکے تھے.. عبداللہ بن عتیک رضی اللہ عنہ نے کہا.. "تم لوگ یہیں ٹھہرو.. میں جاتا ہوں اور دروازے کے پہرے دار کے ساتھ کوئی لطیف حیلہ اختیار کرتا ہوں.. ممکن ہے اندر داخل ہو جاؤں.."

اس کے بعد وہ تشریف لے گئے اور دروازے کے قریب جا کر سر پر کپڑا ڈال کر یوں بیٹھ گئے گویا قضائے حاجت کررہے ہیں.. پہرے دار نے زور سے پکار کر کہا.. "او اللہ کے بندے ! اگر اندر آنا ہے تو آجاؤ ورنہ میں دروازہ بند کرنے جا رہا ہوں.."

عبداللہ بن عتیک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اندر گھس گیا اور چھپ گیا.. جب سب لوگ اندر آگئے تو پہرے دار نے دروازہ بند کرکے ایک کھونٹی پر چابیاں لٹکا دیں.. (کچھ دیر بعد جب ہر طرف سکون ہو گیا تو ) میں نے اٹھ کر چابیاں لیں اور دروازہ کھول دیا..

ابو رافع بالاخانے میں رہتا تھا اور وہاں مجلس ہواکرتی تھی.. جب اہل مجلس چلے گئے تو میں اس کے بالاخانے کی طرف چڑھا.. میں جو کوئی دروازہ بھی کھولتا تھا , اسے اندر کی جانب سے بند کر لیتا تھا.. میں نے سوچا کہ اگر لوگوں کو میرا پتہ لگ بھی گیا تو اپنے پاس ان کے پہنچنے سے پہلے پہلے ابو رافع کو قتل کرلوں گا.. اس طرح میں اس کے پاس پہنچ تو گیا لیکن وہ اپنے بال بچوں کے درمیان ایک تاریک کمرے میں تھا اور مجھے معلوم نہ تھا کہ وہ اس کمرے میں کس جگہ ہے.. اس لیے میں نے کہا.. "ابو رافع _ "

اس نے کہا.. "یہ کون ہے..؟" میں نے جھٹ آواز کی طرف لپک کر اس پر تلوار کی ایک ضرب لگائی لیکن میں اس وقت ہڑبڑایا ہوا تھا , اس لیے کچھ نہ کر سکا.. ادھر اس نے زور کی چیخ ماری لہٰذا میں جھٹ کمرے سے باہر نکل گیا اور ذرا دور ٹھہر کر پھر آ گیا اور (آواز بدل کر) بولا.. "ابو رافع ! یہ کیسی آوازتھی..؟"

اس نے کہا.. "تیری ماں برباد ہو , ایک آدمی نے ابھی مجھے اس کمرے میں تلوار ماری ہے.."

عبداللہ بن عتیک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اب میں نے ایک زور دار ضرب لگائی جس سے وہ خون میں لت پت ہوگیا لیکن اب بھی میں اسے قتل نہ کرسکا تھا , اس لیے میں نے تلوار کی نوک اس کے پیٹ پر رکھ کر دبا دیا اور وہ اس کی پیٹھ تک جارہا.. میں سمجھ گیا کہ میں نے اسے قتل کرلیا ہے , اس لیے اب میں ایک ایک دروازہ کھولتا ہوا واپس ہوا اور ایک سیڑھی کے پاس پہنچ کر یہ سمجھتے ہوئے کہ زمین تک پہنچ چکا ہوں , پاؤں رکھا تو نیچے گر پڑا..

چاندنی رات تھی , پنڈلی سرک گئی.. میں نے پگڑی سے اسے کس کر باندھا اور دروازے پر آکر بیٹھ گیا اور جی ہی جی میں کہا کہ آج جب تک کہ یہ معلوم نہ ہوجائے کہ میں نے اسے قتل کرلیا ہے , یہاں سے نہیں نکلوں گا.. چنانچہ جب مرغ نے بانگ دی تو موت کی خبر دینے والا قلعے کی فصیل پر چڑھا اوربلند آواز سے پکارا کہ میں اہلِ حجاز کے تاجر ابو رافع کی موت کی اطلاع دے رہا ہوں..

اب میں اپنے ساتھیوں کے پاس پہنچا اور کہا.. "بھاگ چلو.. اللہ نے ابو رافع کو کیفر کردار تک پہنچا دیا.."

چنانچہ میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے واقعہ بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. "اپنا پاؤں پھیلاؤ.." میں نے اپنا پاؤں پھیلایا.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پر اپنا دست مُبارک پھیرا اور ایسا لگا گویا کوئی تکلیف تھی ہی نہیں.. (صحیح بخاری ۲/۵۷۷)

========>>> جاری ھے..

سیرت المصطفی.. مولانا ادریس کاندھلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں