سیرت النبی کریم ﷺ..قسط 199


سیرت النبی کریم ﷺ..قسط 199

صلح حدیبیہ: حضور ﷺ کی شاندارسیاسی بصیرت کا ایک نمونہ

صلح حدیبیہ کی مسلمانوں کی فتح عظیم تھی کیونکہ قریش نے اب تک مسلمانوں کا وجود تسلیم نہیں کیا تھا اور انہیں نیست ونابود کرنے کا تہیہ کیے بیٹھے تھے.. انہیں انتظار تھا کہ ایک نہ ایک دن یہ قوت دم توڑ دے گی.. اس کے علاوہ قریش جزیرۃ العرب کے دینی پیشوا اور دنیاوی صدر نشین ہونے کی حیثیت سے اسلامی دعوت اور عام لوگوں کے درمیان پوری قوت کے ساتھ حائل رہنے کے لیے کوشاں رہتے تھے.. اس پس منظر میں دیکھیے تو صلح کی جانب محض جھک جانا ہی مسلمانوں کی قوت کا اعتراف اور اس بات کا اعلان تھا کہ اب قریش اس قوت کو کچلنے کی طاقت نہیں رکھتے.. پھر تیسری دفعہ کے پیچھے صاف طور پر یہ نفسیاتی کیفیت کارفرما نظر آتی ہے کہ قریش کو دنیاوی صدر نشینی اور دینی پیشوائی کا جو منصب حاصل تھا اسے انہوں نے بالکل بھُلا دیا تھا اور اب انہیں صرف اپنی پڑی تھی.. ان کو اس سے کوئی سروکار نہ تھا کہ بقیہ لوگوں کا کیا بنتا ہے یعنی اگر سارے کا سارا جزیرۃ العرب حلقہ بگوش ِ اسلام ہوجائے تو قریش کو اس کی کوئی پروا نہیں اور وہ اس میں کسی طرح کی مداخلت نہ کریں گے..

کیا قریش کے عزائم اور مقاصد کے لحاظ سے یہ ان کی شکستِ فاش نہیں ہے..؟ اور مسلمانوں کے مقاصد کے لحاظ سے یہ فتحِ مبین نہیں ہے..؟ آخر اہلِ اسلام اور اعدائے اسلام کے درمیان جو خونریز جنگیں پیش آئی تھیں ان کا منشاء اور مقصد اس کے سوا کیا تھا کہ عقیدے اور دین کے بارے میں لوگوں کو مکمل آزادی اور خود مختاری حاصل ہوجائے یعنی اپنی آزاد مرضی سے جو شخص چاہے مسلمان ہو اور جو چاہے کافر رہے.. کوئی طاقت ان کی مرضی اور ارادے کے سامنے روڑا بن کر کھڑی نہ ہو.. مسلمانوں کا یہ مقصد تو ہرگز نہ تھا کہ دشمن کے مال ضبط کیے جائیں , انہیں موت کے گھاٹ اتارا جائے اور انہیں زبردستی مسلمان بنایا جائے.. اس صلح کے ذریعے مسلمانوں کا مذکورہ مقصد اپنے تمام اجزا اور لوازم سمیت حاصل ہو گیا اور اس طرح حاصل ہوگیا کہ بسا اوقات جنگ میں فتحِ مبین سے ہم کنارہونے کے باوجود حاصل نہیں ہو پاتا..

پھر اس آزادی کی وجہ سے مسلمانوں نے دعوت وتبلیغ کے میدان میں نہایت زبردست کامیابی حاصل کی.. چنانچہ مسلمان افواج کی تعداد جو اس صلح سے پہلے تین ہزار سے زائد کبھی نہ ہوسکی تھی وہ محض دو سال کے اندر فتح مکہ کے موقع پر دس ہزار ہوگئی..

دفعہ نمبر 2 بھی درحقیقت اس فتح ِ مبین کا ایک جزو ہے کیونکہ جنگ کی ابتدا مسلمانوں نے نہیں بلکہ مشرکین نے کی تھی.. جہاں تک مسلمانوں کی طلایہ گردیوں اور فوجی گشتوں کا تعلق ہے تو مسلمانوں کا مقصود ان سے صرف یہ تھا کہ قریش اپنے احمقانہ غرور میں اللہ کی راہ روکنے سے باز آ جائیں اور مساویانہ بنیاد پر معاملہ کرلیں یعنی ہر فریق اپنی اپنی ڈگر پر گامزن رہنے کے لیے آزاد رہے.. اب غور کیجیے کہ دس سالہ جنگ بند رکھنے کا معاہدہ آخر اس غرور اور اللہ کی راہ میں رکاوٹ سے باز آنے ہی کا توعہد ہے.. جو اس بات کی دلیل ہے کہ جنگ کا آغاز کرنے والا کمزور اور بے دست وپا ہو کر اپنے مقصد میں ناکام ہوگیا..

جہاں تک پہلی دفعہ کا تعلق ہے تو یہ بھی درحقیقت مسلمانوں کی ناکامی کے بجائے کامیابی کی علامت ہے کیونکہ یہ دفعہ درحقیقت اس پابندی کے خاتمے کا اعلان ہے جسے قریش نے مسلمانوں پر مسجد حرام میں داخلے سے متعلق عائد کر رکھی تھی.. البتہ اس دفعہ میں قریش کے لیے بھی تشفی کی اتنی سی بات تھی کہ وہ اس ایک سال مسلمانوں کو روکنے میں کامیاب رہے مگر ظاہر ہے کہ یہ وقتی اور بے حیثیت فائدہ تھا..

اس کے بعد اس صلح کے سلسلے میں یہ پہلو بھی قابل غور ہے کہ قریش نے مسلمانوں کو یہ تین رعایتیں دے کر صرف ایک رعایت حاصل کی جو دفعہ ۴ میں مذکور ہے لیکن یہ رعایت حد درجہ معمولی اور بے وقعت تھی اور اس میں مسلمانوں کا کوئی نقصان نہ تھا کیونکہ یہ معلوم تھا کہ جب تک مسلمان رہے گا , اللہ ، رسول اور مدینۃ الاسلام سے بھاگ نہیں سکتا.. اس کے بھاگنے کی صرف ایک ہی صورت ہوسکتی ہے کہ وہ مرتد ہوجائے.. خواہ ظاہراً خواہ در پردہ.. اور ظاہر ہے کہ جب مُرتد ہوجائے تو مسلمانوں کو اس کی ضرورت نہیں بلکہ اسلامی معاشرے میں اس کی موجودگی سے کہیں بہتر ہے کہ وہ الگ ہوجائے اور یہی وہ نکتہ ہے جس کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اس ارشاد میں اشارہ فرمایا تھا..

''جو ہمیں چھوڑ کران مشرکین کی طرف بھاگا اسے اللہ نے دور (یا برباد) کردیا..'' (صحیح مسلم باب صلح الحدیبیہ ۲/۱۰۵)

باقی رہے مکے کے وہ باشندے جو مسلمان ہوچکے تھے یا مسلمان ہونے والے تھے تو ان کے لیے اگرچہ اس معاہدے کی رو سے مدینہ میں پناہ گزین ہونے کی گنجائش نہ تھی لیکن اللہ کی زمین تو بہر حال کشادہ تھی.. کیا حبشہ کی زمین نے ایسے نازک وقت میں مسلمانوں کے لیے اپنی آغوش وا نہیں کردی تھی جب مدینہ کے باشندے اسلام کا نام بھی نہ جانتے تھے..؟ اسی طرح آج بھی زمین کا کوئی ٹکڑا مسلمانوں کے لیے اپنی آغوش کھول سکتا تھا اور یہی بات تھی جس کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اس ارشاد میں اشارہ فرمایا تھا..

''ان کا جو آدمی ہمارے پاس آئے گا , اللہ اس کے لیے کشادگی اور نکلنے کی جگہ بنادے گا.."

پھر اس قسم کے تحفظات سے اگرچہ نظر بظاہر قریش نے عزّو وقار حاصل کیا تھا مگر یہ درحقیقت قریش کی سخت نفسیاتی گھبراہٹ ، پریشانی ، اعصابی دباؤ اور شکستگی کی علامت ہے.. اس سے پتہ چلتا ہے کہ انہیں اپنے بُت پرست سماج کے بارے میں سخت خوف لاحق تھا اور وہ محسوس کررہے تھے کہ ان کا یہ سماجی گھروندا ایک کھائی کے ایسے کھوکھلے اور اندر سے کٹے ہوئے کنارے پر کھڑا ہے جو کسی بھی دم ٹوٹ گرنے والا ہے.. لہٰذا اس کی حفاظت کے لیے اس طرح کے تحفظات حاصل کر لینا ضروری ہیں..

دوسری طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس فراخ دلی کے ساتھ یہ شرط منظور کی کہ قریش کے یہاں پناہ لینے والے کسی مسلمان کو واپس نہ طلب کریں گے وہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے سماج کی ثابت قدمی اور پختگی پر پورا پورا اعتماد تھا اور اس قسم کی شرط آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے قطعا ً کسی اندیشے کا سبب نہ تھی..

==============>> جاری ھے..

سیرت المصطفی.. مولانا ادریس کاندھلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں