سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 175


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 175

خندق کھدائی کے دوران نبوت کی چند نشانیوں کا ظہور:

صحیح بخاری کی ایک روایت ہے کہ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اندر سخت بھُوک کے آثار دیکھے تو بکری کا ایک بچہ ذبح کیا اور ان کی بیوی نے ایک صاع (تقریباً ڈھائی کلو) جَو پیسا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے رازداری کے ساتھ خفیہ طور پر گزارش کی کہ اپنے چند رُفقاء کے ہمراہ تشریف لائیں، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام اہلِ خندق کو جن کی تعداد ایک ہزار تھی، ہمراہ لے کر چل پڑے اور سب لوگوں نے اسی ذرا سے کھانے سے شکم سیر ہوکر کھایا، پھر بھی گوشت کی ہانڈی اپنی حالت پر برقرار رہی اور بھری کی بھری جوش مارتی رہی اور گوندھا ہوا آٹا اپنی حالت پر برقرار رہا، اس سے روٹی پکائی جاتی رہی۔
(صحیح بخاری ۲/۵۸۸ ، ۵۸۹)

حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کی بہن خندق کے پاس دو سیر کھجور لے کر آئیں کہ ان کے بھائی اور ماموں کھالیں گے، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس سے گزریں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے وہ کھجور مانگ لی اور ایک کپڑے کے اوپر بکھیر دی، پھر اہلِ خندق کو دعوت دی، اہل خندق اسے کھاتے گئے اور وہ بڑھتی گئی، یہاں تک کہ سارے اہل خندق کھا کھا کر چلے گئے اور کھجور تھی کہ کپڑے کے کناروں سے باہر گررہی تھی۔ (ابن ہشام ۲/۲۱۸)

بیس دن میں تین ہزار مبارک ہاتھوں سے خندق کی کھدوائی مکمل ہوئی، انہیں ایام میں ان دونوں واقعات سے کہیں بڑھ کر ایک اور واقعہ پیش آیا، خندق کی کھدوائی کے دوران ایک جگہ سفید رنگ کی گول چٹان برآمد ہوئی جو اس قدر سخت تھی کہ کدالیں ٹوٹ گئیں، آخر حضرت سلمان رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں پہنچے اور صورت حال بیان کی۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود تشریف لائے، بھوک کی وجہ سے شکم مبارک پر پتھر بندھے ہوئے تھے، حضرت سلمان رضی اللہ عنہ سے کدال لی اور بسم اللہ کہہ کر ضرب لگائی، ایک چمک کے ساتھ ایک تہائی چٹان ٹوٹ گئی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ اکبر کا نعرہ بلند فرمایا، سب نے بھی اللہ اکبر کا نعرہ لگایا، دوسری ضرب سے مزید تہائی حصہ گر گیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا، تیسری ضرب میں چٹان پاش پاش ہو گئی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا اور سب نے بھی ساتھ دیا، فرمایا:

"پہلی چمک میں مجھے ملک شام کی کنجیاں عطا کی گئیں، میں نے حیرہ کے سرخ محلات کو دیکھا، دوسری ضرب کی روشنی میں فارس کی چابیاں عطا ہوئیں اور میں نے مدائن کے قصر ابیض کو دیکھا، تیسری ضرب پر مدائن کی کنجیاں ملیں اور میں صفاء کے محلوں کو یہاں سے دیکھ رہا ہوں، جبریل نے مجھے خبر دی کہ میری اُمت ان شہروں کو فتح کرے گی۔"

پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کو مدائن کے محلات کی تفصیل بتلائی، حضرت سلمان رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: "اس ذات کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نبی بنا کر بھیجا ہے! قصر ابیض ایسا ہی ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔"
(سنن نسائی ۲/۵۶ , ابن ہشام ۲/۲۱۹)

اس سلسلہ میں جدید تحقیق جو ڈاکٹر محمد حمیداللہ نے کی، اسے اپنی کتاب "سیاسی وثیقہ جات" میں درج کیا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت ابو سفیان نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایک خط لکھا تھا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کا جواب بھی دیا تھا، ابو سفیان کا خط یہ تھا:

"من جانب ابو سفیان بن حرب بخدمت محمد بن عبداللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باسمک اللہم۔

اپنے بتوں لات، عزّیٰ، منات، نائلہ اور ہبل کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں اپنے ہمراہ وہ بے کراں لشکر لے کر آ رہا ہوں جو مدینہ کی اینٹ سے اینٹ بجا سکتا ہے، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوصلے دیکھ لئے، مقابلے کی تاب نہ لا کر شہر کے ارد گرد خندق کھدوائی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو یہ طریقہ جانتے نہ تھے، اگر اس مرتبہ ہم مدینہ سے ناکام واپس لوٹے تو جس طرح اُحد میں ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پامال کیا تھا اور آپ کے لشکریوں کی گرفت سے ہم اپنی عورتوں کو بچا لائے، کسی وقت اُحد کی مانند پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نرغہ میں لے کے پیس دیں گے۔"

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس یہ خط پہنچا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ کو اپنے خیمہ میں لے جا کر ان سے سنا اور مندرجہ ذیل جواب لکھوایا:

"من جانب محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بنام ابو سفیان بن حرب

واضح ہو کہ تمہارا خط ملا، میں جانتا ہوں کہ تم سدا سے اللہ تعالیٰ کے خلاف غرور میں مبتلا ہو، یہ جو تم نے مدینہ پر ایسا حملہ کرنے کا ذکر کیا ہے جس میں تمہارے ہمراہ لشکر جرار ہو گا اور کہتے ہو کہ تمہاری فوج مدینہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دے گی تو یہ اللہ کی مرضی پر منحصر ہے، وہ اگر چاہے تو آپ لوگوں سے لات و عزّیٰ کا نام لینے کی طاقت سلب کر سکتا ہے اور یہ جو تم نے لکھا ہے کہ مجھے خندق کھودنے کا طریقہ یاد نہ تھا تو یہ طریقہ مجھے اللہ تعالیٰ نے اس وقت القا فرمایا جب تمہارا اور تمہارے ہمراہیوں کا غیض و غضب یہاں تک آ پہنچا کہ تم لوگ مدینہ کی اینٹ سے اینٹ بجا نے پر تل گئے، سنو! تمہاری خام امیدوں کا پورا ہونا تو کجا، وقت آگیا ہے کہ لات و عزّیٰ، منات اور نائلہ ایک ایک کے ٹکڑے کر دئیے جائیں۔"

اس غزوہ میں یہ نئی بات تھی جس نے کفار کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا، بدر میں صف بندی، اُحد میں میدان جنگ کا انتخاب اور اب خندق کے ذریعہ حفاظت کا انوکھا طریقہ۔
(شاہ مصباح الدین شکیل۔ "سیرت احمد مجتبیٰ")

==================>> جاری ہے ۔۔۔

سیرت المصطفی.. مولانا ادریس کاندھلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں