سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 178


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 178

بنوقریظہ کی بدعہدی:

ایک طرف مسلمان محاذ جنگ پر ان مشکلات سے دوچار تھے تو دوسری طرف سازش اور دسیسہ کاری کے سانپ اپنے بلوں میں حرکت کر رہے تھے اور اس کوشش میں تھے کہ مسلمانوں کے جسم میں اپنا زہر اتار دیں۔

چنانچہ بنو نضیر کا مجرم اکبر "حیی بن اخطب" بنو قریظہ کے دیار میں آیا اور ان کے سردار "کعب بن اسد قرظی" کے پاس حاضر ہوا، یہ کعب بن اسد وہی شخص ہے جو بنوقریظہ کی طرف سے عہد وپیمان کرنے کا مجاز ومُختار تھا اور جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ معاہدہ کیا تھا کہ جنگ کے مواقع پر آپ کی مدد کرے گا۔ (جیسا کہ پچھلے صفحات میں گزر چکا ہے)

حُیی نے آکر اس کے دروازے پر دستک دی تو اس نے دروازہ اندر سے بند کرلیا، مگر حیی اس سے ایسی ایسی باتیں کرتا رہا کہ آخر کار اس نے دروازہ کھول ہی دیا، حیی نے کہا: "اے کعب! میں تمہارے پاس زمانے کی عزت اور چڑھا ہوا سمندر لے کر آیا ہوں، میں نے قریش کو اس کے سرداروں اور قائدین سمیت لا کر رومہ کے مجمع الاسیال میں اتار دیا ہے اور بنو غطفان کو ان کے قائدین اور سرداروں سمیت احد کے پاس ذنب نقمی میں خیمہ زن کردیا ہے، ان لوگوں نے مجھ سے عہد وپیمان کیا ہے کہ وہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اس کے ساتھیوں کا مکمل صفایا کیے بغیر یہاں سے نہ ٹلیں گے۔"

کعب نے کہا: "اللہ کی قسم! تم میرے پاس زمانے کی ذلت اور برسا ہوا بادل لے کر آئے ہو جو صرف گرج چمک رہا ہے، مگر اس میں کچھ رہ نہیں گیا ہے، حیی! تجھ پر افسوس! مجھے میرے حال پر چھوڑ دے، میں نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے صدق ووفا کے سوا کچھ نہیں دیکھا ہے۔"

مگر حیی اس کو مسلسل چوٹی اور کندھے میں بٹتا اور لپیٹتا رہا، یہاں تک کہ اسے رام کر ہی لیا، البتہ اسے اس مقصد کے لیے یہ عہد وپیمان کرنا پڑا کہ اگر قریش نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ختم کیے بغیر واپسی کی راہ لی تو میں بھی تمہارے ساتھ تمہارے قلعے میں داخل ہوجاؤں گا، پھر جو انجام تمہارا ہوگا وہی میرا بھی ہو گا، حیی کے اس پیمانِ وفا کے بعد کعب بن اسد نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کیا ہوا عہد توڑ دیا اور مسلمانوں کے ساتھ طے کی ہوئی ذمے داریوں سے بری ہو کر ان کے خلاف مشرکین کی جانب سے جنگ میں شریک ہوگیا۔ (ابن ہشام ۲/۲۲۰ - ۲۲۱)

اس کے بعد بنو قریظہ کے یہود عملی طور پر جنگی کارروائیوں میں مصروف ہوگئے، یہود کی عہد شکنی کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معلوم ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فوراً اس کی تحقیق کی طرف توجہ فرمائی، تاکہ بنو قریظہ کا موقف واضح ہوجائے اور اس کی روشنی میں فوجی نقطۂ نظر سے جو اقدام مناسب ہو، اختیار کیا جا ئے۔

چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس خبر کی تحقیق کے لیے حضرت سعد بن معاذ، سعد بن عبادہ، عبداللہ بن رواحہ اور خوات بن جبیر رضی اللہ عنہم کو روانہ فرمایا اور ہدایت کی کہ جاؤ دیکھو! بنی قریظہ کے بارے میں جو کچھ معلوم ہوا ہے وہ واقعی صحیح ہے یا نہیں، اگرصحیح ہے تو واپس آکر صرف مجھے بتا دینا اور وہ بھی اشاروں اشاروں میں، لوگوں کے بازو مت توڑنا اور اگر وہ عہد وپیمان پر قائم ہیں تو پھر لوگوں کے درمیان اعلانیہ اس کا ذکر کردینا۔

جب یہ لوگ بنو قریظہ کے قریب پہنچے تو انہیں انتہائی خباثت پر آمادہ پایا، انہوں نے اعلانیہ گالیاں بکیں، دشمنی کی باتیں کیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اہانت کی، کہنے لگے: "اللہ کا رسول کون؟ ہمارے اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان کوئی عہد ہے نہ پیمان۔"

یہ سن کر وہ لوگ واپس آگئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پہنچ کر صورت حال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے صرف اتنا کہا: "عضل وقارہ۔" مقصود یہ تھا کہ جس طرح عضل وقارہ نے اصحابِ رجیع کے ساتھ بدعہدی کی تھی، اسی طرح یہود بھی بدعہدی پر تُلے ہوئے ہیں، باوجود یکہ ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اخفائے حقیقت کی کوشش کی، لیکن عام لوگوں کو صورتحال کا علم ہوگیا اور اس طرح ایک خوفناک خطرہ ان کے سامنے مجسم ہوگیا۔

درحقیقت اس وقت مسلمان نہایت نازک صورت حال سے دوچار تھے، پیچھے بنو قریظہ تھے جن کا حملہ روکنے کے لیے ان کے اور مسلمانوں کے درمیان کوئی نہ تھا، آگے مشرکین کا لشکر ِجرار تھا جنہیں چھوڑ کر ہٹنا ممکن نہ تھا، پھر مسلمان عورتیں اور بچے تھے جو کسی حفاظتی انتظام کے بغیر بدعہد یہودیوں کے قریب ہی تھے۔

اسی زمانہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پھوپھی اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی سگی بہن حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کی بہادری اور ہمت کا واقعہ قابل ذکر ہے۔

واقعہ یہ ہوا کہ جنگ کے زمانہ میں مسلمانوں کی عورتیں اور بچے حضرت حسّان بن ثابت رضی اللہ عنہ (جو حضور ﷺ کے درباری شاعر تھے) کے قلعہ میں بھیج دئیے گئے جو بنو قریظہ کے قریب تھا، حضرت صَفِیّہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں:

"ہمارے پاس سے ایک یہودی گزرا اور قلعے کا چکر کاٹنے لگا، قرینہ سے معلوم ہو گیا کہ یہ کوئی جاسوس ہے، یہ اس وقت کی بات ہے جب بنو قریظہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کیا ہوا عہد وپیمان توڑ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے برسر پیکار ہوچکے تھے اور ہمارے اور ان کے درمیان کوئی نہ تھا جو ہمارا دفاع کرتا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسلمانوں سمیت دشمن کے مدِمقابل پھنسے ہوئے تھے، اگر ہم پر کوئی حملہ آور ہوجاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہیں چھوڑ کر آ نہیں سکتے تھے، اس لیے میں نے کہا: "اے حسان! یہ یہودی جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں، قلعے کا چکر لگا رہا ہے اور مجھے اللہ کی قسم! اندیشہ ہے کہ یہ باقی یہود کو بھی ہماری کمزوری سے آگاہ کردے گا، ادھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ اس طرح پھنسے ہوئے ہیں کہ ہماری مدد کو نہیں آسکتے، لہٰذا آپ جائیے اور اسے قتل کردیجیے۔"

حضرت حسّان رضی اللہ عنہ زبان کے مجاہد تھے، ہاتھ کے مجاہد نہ تھے، جواب دیا: "واللہ! آپ جانتی ہیں کہ میں اس کام کا آدمی نہیں۔"

حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: "اب میں نے خود اپنی کمر باندھی، ایک لاٹھی لی اور پاس پہنچ کر اس زور سے یہودی کے سر پر رسید کی کہ اس کا بھیجہ نکل گیا، اس کے بعد قلعے میں واپس آئی اور حسان سے کہا: "حسان! میں عورت ذات ہوں، غیر مرد کا بدن نہیں چھو سکتی، ذرا اس کافر کے ہتھیار تو اتار لاؤ۔"

حضرت حسّان رضی اللہ عنہ بولے: "اے عبدالمطلب کی بیٹی! مجھے ہتھیاروں کا کیا کرنا ہے؟" یہ جواب سن کر حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا پھر گئیں اور اس یہودی کے ہتھیار اتار لائیں اور اس کا سر کاٹ کر یہودیوں کی طرف پھینک دیا۔ ( ابن ہشام ۲/ ۲۲۸)

حقیقت یہ ہے کہ مسلمان بچوں اور عورتوں کی حفاظت پر حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے اس جانبازانہ کارنامے کا بڑا گہرا اور اچھا اثر پڑا، اس کارروائی سے غالباً یہود نے سمجھا کہ ان قلعے اور گڑھیوں میں بھی مسلمان کا حفاظتی لشکر موجود ہے، حالانکہ وہاں کوئی لشکر نہ تھا، اسی لیے یہود کو دوبارہ اس قسم کی جرأت نہ ہوئی، البتہ وہ بُت پرست حملہ آوروں کے ساتھ اپنے اتحاد اور انضمام کا عملی ثبوت پیش کرنے کے لیے انہیں مسلسل رسد پہنچاتے رہے، حتیٰ کہ مسلمانوں نے ان کی رسد کے بیس اونٹوں پر قبضہ بھی کرلیا۔

==================>> جاری ہے ۔۔۔

سیرت المصطفی.. مولانا ادریس کاندھلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں