سیرت النبی کریم ﷺ..قسط 198


سیرت النبی کریم ﷺ..قسط 198

مسلمانوں کا غم اور حضرت عمرؓ کا مناقشہ:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معاہدہ صلح لکھوا کر فارغ ہوچکے تو فرمایا.. "اٹھو اور اپنے اپنے جانور قربان کردو.." کوئی بھی نہ اٹھا.. سبھی بوجوہ سخت غم والم جیسے ایک سکتے کے عالم میں تھے.. حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بات تین مرتبہ دہرائی مگر پھر بھی کوئی نہ اٹھا تو آپ اُم سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے اور لوگوں کے اس طرزِ عمل کا ذکر کیا..

ام المومنین رضی اللہ عنہا نے کہا.. "یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایسا چاہتے ہیں تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے جایئے اور کسی سے کچھ کہے بغیر چُپ چاپ اپنا جانور ذبح کردیجیے اور اپنے حجام کو بلا کر سر منڈا لیجئے.." اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باہر تشریف لائے اور کسی سے کچھ کہے بغیر یہی کیا یعنی اپنا ہَدی کا جانور ذبح کردیا اور حجام بلا کر سرمنڈا لیا..

جب لوگوں نے دیکھا تو خود بھی اٹھ کر اپنے اپنے جانور ذبح کردیے اور اس کے بعد باہم ایک دوسرے کا سر مونڈنے لگے.. کیفیت یہ تھی کہ معلوم ہوتا تھا فرطِ غم کے سبب ایک دوسرے کو قتل کردیں گے.. اس موقعہ پر گائے اور اونٹ سات سات آدمیوں کی طرف سے ذبح کیے گئے.. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابوجہل کا ایک اونٹ ذبح کیا جس کی ناک میں چاندی کا ایک حلقہ تھا.. اس کا مقصد یہ تھا کہ مشرکین جل بھن کر رہ جائیں.. پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سرمنڈانے والوں کے لیے تین بار مغفرت کی دعا کی اور قینچی سے کٹانے والوں کے لیے ایک بار..

اس کے بعد کچھ مومنہ عورتیں آگئیں.. ان کے اولیاء نے مطالبہ کیا کہ حدیبیہ میں جو صلح مکمل ہوچکی ہے اس کی روسے انہیں واپس کیا جائے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ مطالبہ اس دلیل کی بنا پر مسترد کردیا کہ عورتیں اس معاہدے میں سرے سے داخل ہی نہ تھیں.. پھر اللہ تعالیٰ نے اسی سلسلے میں یہ آیت بھی نازل فرمائی..

''اے اہل ایمان جب تمہارے پاس مومنہ عورتیں ہجرت کرکے آئیں تو ان کا امتحان لو.. اللہ ان کے ایمان کو بہتر جانتا ہے.. پس اگر انہیں مومنہ جانو تو کفار کی طرف نہ پلٹاؤ.. نہ وہ کفار کے لیے حلال ہیں اور نہ کفار ان کے لیے حلال ہیں.. البتہ ان کے کافر شوہروں نے جو مہر ان کو دیے تھے اسے واپس دے دو.. (پھر ) تم پر کوئی حرج نہیں کہ ان سے نکاح کر لو جب کہ انہیں ان کے مہر ادا کرو اور کافرہ عورتوں کو اپنے نکاح میں نہ رکھو..'' (۶۰: ۱۰ )

اس آیت کے نازل ہونے کے بعد جب کوئی مومنہ عورت ہجرت کرکے آتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی روشنی میں اس کا امتحان لیتے کہ ''اے نبی ! جب تمہارے پاس مومن عورتیں آئیں اور اس بات پر بیعت کریں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کریں گی ، چوری نہ کریں گی ، زنا نہ کریں گی ، اپنی اولاد کو قتل نہ کریں گی , اپنے ہاتھ  پاؤں کے درمیا ن سے کوئی بہتان گھڑ کر نہ لائیں گی اور کسی معروف بات میں تمہاری نافرمانی نہ کریں گی تو ان سے بیعت لے لو اور ان کے لیے اللہ سے دعائے مغفرت کرو.. یقینا اللہ غفور رحیم ہے..'' (۶۰: ۱۲)

چنانچہ جو عورتیں اس آیت میں ذکر کی ہوئی شرائط کی پابندی کا عہد کرتیں , آپ ان سے فرماتے کہ میں نے تم سے بیعت کر لی ، پھر انہیں واپس نہ پلٹا تے..

اس حکم کے مطابق مسلمانوں نے اپنی کافرہ بیویوں کو طلاق دے دی.. اس وقت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی زوجیت میں دو عورتیں تھیں جو شرک پر قائم تھیں.. آپ نے ان دونوں کوطلاق دے دی..

معاہدۂ صلح کی دفعات میں دو باتیں بظاہر اس قسم کی تھیں کہ ان کی وجہ سے مسلمانوں کو سخت غم والم لاحق ہوا.. ایک یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بتایا تھا کہ آپ بیت اللہ تشریف لے جائیں گے اور اس کا طواف کریں گے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم طواف کیے بغیر واپس ہورہے تھے.. دوسرے یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور حق پر ہیں اور اللہ نے اپنے دین کو غالب کرنے کا وعدہ کیا ہے.. پھر کیا وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قریش کا دباؤ قبول کیا اور دب کر صلح کی..؟

یہ دونوں باتیں طرح طرح کے شکوک وشبہات اور گمان و وسوسے پیدا کر رہی تھیں.. ادھر مسلمانوں کے احساسات اس قدر مجروح تھے کہ وہ صلح کی دفعات کی گہرائیوں اور مآل پر غور کرنے کے بجائے حُزن وغم سے نڈھال تھے.. اور غالباً سب سے زیادہ غم حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو تھا.. چنانچہ انہوں نے خدمت ِ نبوی میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ "اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! کیا ہم لوگ حق پر اور وہ لوگ باطل پر نہیں ہیں..؟"

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. "کیوں نہیں..؟"

انہوں نے کہا.. "کیا ہمارے مقتولین جنت میں اور ان کے مقتولین جہنم میں نہیں ہیں..؟"

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمنے فرمایا.. "کیوں نہیں.."

انہوں نے کہا.. "تو پھر کیوں ہم اپنے دین کے بارے میں دباؤ قبول کریں اور ایسی حالت میں پلٹیں کہ ابھی اللہ نے ہمارے اور ان کے درمیان فیصلہ نہیں کیا ہے..؟"

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. "خطاب کے صاحبزادے ! میں اللہ کا رسول ہوں اور اس کی نافرمانی نہیں کرسکتا.. وہ میری مدد کرے گا اور مجھے ہرگز ضائع نہ کرے گا.."

انہوں نے کہا.. "کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم سے یہ بیان نہیں کیا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیت اللہ کے پاس تشریف لائیں گے اور اس کا طواف کریں گے..؟"

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. "کیوں نہیں.. لیکن کیا میں نے یہ بھی کہا تھا کہ ہم اسی سال آئیں گے..؟"

انہوں نے کہا.. "نہیں.."

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. "تو بہرحال تم بیت اللہ کے پاس آؤگے اور اس کا طواف کرو گے.."

اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے اور ان سے وہی بات کہی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہی تھی اور انہوں نے بھی ٹھیک وہی جواب دیا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیا تھا اور اخیر میں اتنا اور اضافہ کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رکاب تھامے رہو , یہاں تک کہ موت آجائے کیونکہ اللہ کی قسم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حق پر ہیں..

اس کے بعد إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِينًا (۴۸: ۱) کی آیات نازل ہوئیں جس میں اس صلح کو فتح ِ مبین قراردیا گیا ہے.. اس کا نزول ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو بلایا اور پڑھ کر سنایا.. اس سے ان کے دل کو سکون ہوگیا اور واپس چلے گئے..

بعد میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اپنی تقصیر کا احساس ہوا تو سخت نادم ہوئے.. خود ان کا بیان ہے کہ میں نے اس روز جو غلطی کی تھی اور جو بات کہہ دی تھی اس سے ڈر کر میں نے بہت سے اعمال کیے.. برابر صدقہ وخیرات کرتا رہا , روزے رکھتا اور نماز پڑھتا رہا اور غلام آزاد کرتا رہا.. یہاں تک کہ اب مجھے خیر کی امید ہے..

================>> جاری ھے..

سیرت المصطفی.. مولانا ادریس کاندھلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں