سیرت النبی کریم ﷺ..قسط 197
صلح اور دفعات صلح:
قریش نے صورتِ حال کی نزاکت محسوس کرلی , لہٰذا جھٹ سُہیل بن عَمرو کو معاملات صلح طے کرنے کے لیے روانہ کیا اور یہ تاکید کردی کہ صلح میں لازما ً یہ بات طے کی جائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سال واپس چلے جائیں.. ایسا نہ ہو کہ عرب یہ کہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے شہر میں جبراً داخل ہوگئے..
ان ہدایات کو لے کر سہیل بن عمرو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس حاضر ہوا.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے آتا دیکھ کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا.. "تمہارا کا م تمہارے لیے سہل کردیا گیا.. اس شخص کو بھیجنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ قریش صلح چاہتے ہیں.."
سُہیل نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس پہنچ کر دیر تک گفتگو کی اور بالآخر طَرفَین میں صلح کی دفعات طے ہوگئیں جو یہ تھی..
1.. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سال مکہ میں داخل ہوئے بغیر واپس جائیں گے.. اگلے سال مسلمان مکہ آئیں گے اور تین روز قیام کریں گے.. ان کے ساتھ سوار کا ہتھیار ہوگا , میانوں میں تلواریں ہوں گی اور ان سے کسی قسم کا تعرض نہیں کیا جائے گا..
2.. دس سال تک فریقین جنگ بند رکھیں گے.. اس عرصے میں لوگ مامون رہیں گے.. کوئی کسی پر ہاتھ نہیں اُٹھائے گا..
3.. جو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہدو پیمان میں داخل ہونا چاہے , داخل ہوسکے گا اور جو قریش کے عہدو پیمان میں داخل ہونا چاہے , داخل ہوسکے گا.. جو قبیلہ جس فریق میں شامل ہوگا اس فریق کا ایک جزو سمجھا جائے گا.. لہٰذا ایسے کسی قبیلے پر زیادتی ہوئی تو خود اس فریق پر زیادتی متصور ہوگی..
4.. قریش کا جو آدمی اپنے سرپرست کی اجازت کے بغیر یعنی بھاگ کر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جائے گا , محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسے واپس کردیں گے لیکن محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھیوں میں سے جو شخص پناہ کی غرض سے بھاگ کر قریش کے پاس آئے گا قریش اسے واپس نہ کریں گے..
اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بلایا کہ تحریر لکھ دیں اور یہ املا کرایا.. "بسم اللہ الرحمن الرحیم.." اس پر سہیل نے کہا.. "ہم نہیں جانتے رحمن کیا ہے..؟ آپ یوں لکھئے ,,,, باِسْمِک اللہمَّ (اے اللہ تیرے نام سے )" نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ یہی لکھو..
اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ املا کرایا.. "یہ وہ بات ہے جس پر محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مصالحت کی.." اس پر سہیل نے کہا.. "اگر ہم جانتے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں تو پھر ہم نہ تو آپ کو بیت اللہ سے روکتے اور نہ جنگ کرتے.. لیکن آپ محمد بن عبداللہ لکھوائیے.."
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. "میں اللہ کا رسول ہوں اگرچہ تم لوگ جھٹلاؤ.." پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ محمد بن عبداللہ لکھیں اور لفظ ''رسول اللہ'' مٹادیں.. لیکن حضرت علی رضی اللہ عنہ نے گوارا نہ کیا کہ اس لفظ کو مٹائیں.. لہٰذا نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود اپنے ہاتھ سے مٹادیا.. اس کے بعد پوری دستاویز لکھی گئی..
پھر جب صلح مکمل ہوچکی تو بنو خُزاعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد وپیمان میں داخل ہوگئے.. یہ لوگ درحقیقت عبدالمطلب کے زمانے ہی سے بنو ہاشم کے حلیف تھے جیسا کہ آغازِ کتاب میں گزرچکا ہے.. اس لیے اس عہدو پیمان میں داخلہ درحقیقت اسی قدیم حلف کی تاکید اور پختگی تھی.. دوسری طرف بنو بکر قریش کے عہدو پیمان میں داخل ہوگئے..
نوشتہ صلح ابھی لکھا ہی جا رہا تھا کہ سہیل کے بیٹے ابو جندل رضی اللہ عنہ اپنی بیڑیاں گھسیٹتے آ پہنچے.. وہ زیریں مکہ سے نکل کر آئے تھے.. انہوں نے یہاں پہنچ کر اپنے آپ کو مسلمانوں کے درمیان ڈال دی.. سہیل نے کہا.. "یہ پہلا شخص ہے جس کے متعلق میں آپ سے معاملہ کرتا ہوں کہ آپ اسے واپس کردیں.."
نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. "ابھی تو ہم نے نوشتہ مکمل نہیں کیا ہے.."
اس نے کہا.. "تب میں آپ سے کسی بات پر صلح کا کوئی معاملہ ہی نہ کروں گا.."
نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. "اچھا تو تم اس کو میری خاطر چھوڑ دو.."
اس نے کہا.. "میں آپ کی خاطر بھی نہیں چھوڑ سکتا.." پھر سہیل نے ابو جندل رضی اللہ عنہ کے چہرے پر چانٹا مارا اور مشرکین کی طرف واپس کرنے کے لیے ان کے کرتے کا گلا پکڑ کر گھسیٹا..
ابو جندل رضی اللہ عنہ زور زور سے چیخ کر کہنے لگے.. "مسلمانو ! کیا میں مشرکین کی طرف واپس کیا جاؤں گا کہ وہ مجھے میرے دین کے متعلق فتنے میں ڈالیں..؟"
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. "ابو جندل ! صبر کرو اور اسے باعثِ ثواب سمجھو.. اللہ تمہارے لیے اور تمہارے ساتھ جو دوسرے کمزور مسلمان ہیں , ان سب کے لیے کشادگی اور پناہ کی جگہ بنائے گا.. ہم نے قریش سے صلح کر لی ہے اور ہم نے ان کو اور انہوں نے ہم کو اس پر اللہ کا عہد دے رکھا ہے.. اس لیے ہم بدعہدی نہیں کرسکتے.."
=============>> جاری ھے..
سیرت المصطفی.. مولانا ادریس کاندھلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں