سیرت النبی کریم ﷺ ..قسط 200


سیرت النبی کریم ﷺ ..قسط 200

مکہ کے کمزور مسلمانوں کا مسئلہ حل ہونا:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ واپس تشریف لا کر مطمئن ہوچکے تو ایک مسلمان جسے مکہ میں اذیتیں دی جا رہی تھیں , چھوٹ کر بھاگ آیا.. ان کا نام ابو بصیر رضی اللہ عنہ تھا.. وہ قبیلہ ثقیف سے تعلق رکھتے تھے اور قریش کے حلیف تھے.. قریش نے ان کی واپسی کے لیے دو آدمی بھیجے اور یہ کہلوایا کہ ہمارے اور آپ کے درمیان جو عہد وپیمان ہے اس کی تعمیل کیجیے..

نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابو بصیر رضی اللہ عنہ کو ان دونوں کے حوالے کردیا.. یہ دونوں انہیں ہمراہ لے کر روانہ ہوئے اور ذُوالحلیفہ پہنچ کر اترے اور کھجور کھانے لگے.. ابو بصیر رضی اللہ عنہ نے ایک شخص سے کہا.. "اے فلاں ! اللہ کی قسم ! میں دیکھتا ہوں کہ تمہاری یہ تلوار بڑی عمدہ ہے.." اس شخص نے اسے نیام سے نکال کر کہا.. "ہاں ہاں ! واللہ یہ بہت عمدہ ہے.. میں نے اس کا بارہا تجربہ کیا ہے.." ابو بصیر رضی اللہ عنہ نے کہا.. "ذرا مجھے دکھلاؤ , میں بھی دیکھوں.." اس شخص نے ابو بصیر رضی اللہ عنہ کو تلوار دے دی اور ابو بصیر رضی اللہ عنہ نے تلوار لیتے ہی اسے مار کر ڈھیر کردیا..

دوسرا شخص بھاگ کر مدینہ آیا اور دوڑتا ہوا مسجد نبوی میں گھس گیا.. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے دیکھ کر فرمایا.. "اس نے خطرہ دیکھا ہے.." وہ شخص نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس پہنچ کر بولا.. "میرا ساتھی اللہ کی قسم قتل کردیا گیا اور میں بھی قتل ہی کیا جانے والا ہوں.." اتنے میں ابو بصیر رضی اللہ عنہ آ گئے اور بولے.. "یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اللہ نے آپ کا عہد پورا کردیا.. آپ نے مجھے ان کی طرف پلٹا دیا , پھر اللہ نے مجھے ان سے نجات دے دی.."

ابو بصیر رضی اللہ عنہ چونکہ جانتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معاہدے کے پابند ہیں , اس لیے وہ مدینہ سے نکل کر ساحل سمندر پر آگئے.. ادھر ابو جندل بن سہیل رضی اللہ عنہ بھی چھوٹ بھاگے اور ابو بصیر رضی اللہ عنہ سے آ ملے.. اب قریش کا جو آدمی بھی اسلام لا کر بھاگتا , وہ ابو بصیر رضی اللہ عنہ سے آ ملتا.. یہاں تک کہ ان کی ایک جماعت اکٹھی ہوگئی..

اس کے بعد ان لوگوں کو ملک شام آنے جانے والے کسی بھی قریشی قافلے کا پتہ چلتا تو وہ اس سے ضرور چھیڑ چھاڑ کرتے اور قافلے والوں کو مار کر ان کا مال لوٹ لیتے.. قریش نے تنگ آکر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ اور قرابت کا واسطہ دیتے ہوئے یہ پیغام دیا کہ آپ انہیں اپنے پاس بلا لیں اور اب جو بھی آپ کے پاس جائے گا مامون رہے گا.. اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انھیں بلوالیا اور وہ مدینہ آگئے..

کبار قریش کا قبولِ اسلام....

اس معاہدہ ٔ صلح کے بعد ۷ھ کے اوائل میں حضرت عَمرو بن عاص ، خالد بن ولید اور عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہم مسلمان ہوگئے.. جب یہ لوگ خدمتِ نبوی میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. "مکہ نے اپنے جگر گوشو ں کو ہمارے حوالے کردیا ہے.."

اس بارے میں سخت اختلاف ہے کہ یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کس سنہ میں اسلام لائے.. اسماء الرجال کی عام کتابوں میں اسے ۸ ھ کا واقعہ بتایا گیا ہے لیکن نجاشی کے پاس حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کا واقعہ معروف ہے جو ۷ ھ کا ہے اور یہ بھی معلوم ہے کہ حضرت خالد رضی اللہ عنہ اور عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ اس وقت مسلمان ہوئے تھے جب عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ حبشہ سے واپس آئے تھے کیونکہ انہوں نے حبشہ سے واپس آکر مدینہ کا قصد کیا تو راستے میں ان دونوں سے ملاقات ہوئی اور تینوں حضرات نے ایک ساتھ خدمت نبوی میں حاضر ہوکر اسلام قبول کیا.. اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ سبھی حضرات ۷ ھ کے اوائل میں مسلمان ہوئے.. واللہ اعلم..

============>> جاری ھے..

سیرت المصطفی.. مولانا ادریس کاندھلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں