سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 181


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 181

حضرت سعد بن معاذ ؓ کا فیصلہ:

حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ غزوہ خندق میں ایک تیر لگنے سے شدید زخمی ہو گئے تھے، جن کے علاج کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت رفیدہ رضی اللہ عنہا کے خیمہ میں بھجوا دیا تھا جو مسجد نبوی سے قریب ہی تھا، حضرت رفیدہ اسلمی رضی اللہ عنہا بنو نجار کی ایک صالح خاتون تھیں جو بیماروں اور زخمیوں کا علاج کرتی تھیں، اس غرض کے لئے ایک خیمہ لگایا گیا تھا، جسے شفا خانے کی حیثیت حاصل تھی۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم روزانہ ان کی مزاج پرسی کے لئے تشریف لے جاتے تھے، چنانچہ انہیں ایک سواری میں وہاں لایا گیا، جب قریب پہنچے تو ان کے قبیلے کے لوگوں نے انہیں دونوں جانب سے گھیر لیا اور کہنے لگے: "سعد! اپنے حلیفوں کے بارے میں اچھائی اور احسان سے کام لیجئے گا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو اسی لیے حَکم بنایا ہے کہ آپ ان سے حسن سلوک کریں۔"

مگر وہ چپ چاپ تھے، کوئی جواب نہ دے رہے تھے، جب لوگوں نے گزارش کی بھر مار کردی تو بولے: "اب وقت آ گیا ہے کہ سعد کو اللہ کے بارے میں کسی ملامت گر کی پروا نہ ہو۔"

اس کے بعد جب حضرت سعد رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "اپنے سردار کی جانب اٹھ کر بڑھو۔"

لوگوں نے بڑھ کر جب انہیں اتار لیا تو کہا: "اے سعد! یہ لوگ آپ کے فیصلے پر اپنے قلعوں سے اترے ہیں۔"

حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: "کیا میرا فیصلہ ان پر نافذ ہوگا؟"
لوگوں نے کہا: "جی ہاں!"
انہوں نے کہا: "مسلمانوں پر بھی؟"
لوگوں نے کہا: "جی ہاں!"
انہوں نے پھر کہا: "اور جو یہاں ہیں ان پر بھی؟" ان کا اشارہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فرود گاہ کی طرف تھا، مگر اجلال وتعظیم کے سبب چہرہ دوسری طرف کر رکھا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "جی ہاں! مجھ پر بھی۔"

حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: "تو ان کے متعلق میرا فیصلہ یہ ہے کہ مردوں کو قتل کر دیا جائے، عورتوں اور بچوں کو قیدی بنا لیا جائے اور اموال تقسیم کردیے جائیں۔"

حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے جو فیصلہ کیا وہ تورات کے مطابق تھا، تورات، کتاب تثنیہ اصحاح ۲ آیت ۱۰ میں ہے:

"جب تو کسی شہر سے جنگ کرنے کو اس کے نزدیک پہنچے تو پہلے اسے صلح کا پیغام دینا اور اگر وہ تجھ کو صلح کا جواب دے اور اپنے پھاٹک تیرے لئے کھول دے تو وہاں کے سب باشندے تیرے باج گزار بن کر تیری خدمت کریں اور اگر وہ تجھ سے صلح نہ کرے، بلکہ لڑنا چاہے تو اس کا محاصرہ کرنا اور جب خداوند تیرا خدا اسے تیرے قبضہ میں کردے تو وہاں کے ہر مرد کو تلوار سے قتل کرڈالنا اور عورتوں کو اور بال بچوں اور چوپایوں، شہر کے سب مال اور لوٹ کو اپنے لئے رکھ لینا۔"

بنو قریظہ کے متعلق مخالفین اسلام نے بہت شدت کے ساتھ ظلم و بے رحمی کا اعتراض کیا ہے، اس سخت فیصلے کی وجہ کیا تھی؟ اس کو جاننے کے لیے حسب ذیل امور پیش نظر رکھنے چاہیے:

1: جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تو پہلے ہی سال آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہود سے دوستانہ معاہدہ کیا، جس میں بنو قریظہ بھی شریک تھے اور اس معاہدہ کے بعد مسلمان اور بنو قریظہ حلیف کی حیثیت سے مل جل کر رہتے تھے۔

2: اس معاہدہ کے ذریعہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بنو قریظہ اور یہود کے دوسرے قبائل کو پوری پوری مذہبی آزادی دی تھی اور جان و مال کی حفاظت کا اقرار کیا گیا تھا۔

3: حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بنو قریظہ پر یہ خصوصی اکرام فرمایا تھا کہ اس معاہدہ میں سماجی زندگی میں ان کو دوسرے یہود کے مساوی اور برابر کردیا تھا، حالانکہ اس سے پہلے وہ مرتبہ میں وہ بنو نضیر سے کم تھے، یعنی بنو نضیر کا کوئی آدمی بنو قریظہ کے کسی آدمی کو قتل کردیتا تو بنو نضیر کو آدھا خوں بہا دینا پڑتا تھا، بر خلاف اس کے بنو قریظہ پورا خوں بہا ادا کرتے تھے، چنانچہ معاہدہ کے بعد جب دیت کا ایک معاملہ پیش آیا تو انہوں نے زیادہ خوں بہا دینے سے انکار کردیا اور بنو نضیر کو یہ کہلا بھیجا کہ "ہم اب تک زیادہ دیت صرف تمھارے ظلم اور خوف کی وجہ سے دیتے رہے ہیں، اب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آنے کے بعد تو زیادہ دیت نہیں دے سکتے۔" (کیونکہ اب ظلم و زیادتی کا خوف نہیں رہا)۔

4: جب قریش نے ان کو معاہدہ شکنی پر آمادہ کیا تو وہ تیار ہوگئے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے تجدید معاہدہ کرنا چاہا، بنو نضیر نے انکار کیا اور جلاوطن کردئیے گئے، لیکن بنو قریظہ نے نئے سرے سے معاہدہ کرلیا، چنانچہ ان کو امن دے دیا گیا، بنو قینقاع جیسے دولت مند اور بہادر قبیلہ نے فتنہ انگیزی کی، چنانچہ 2 ھ میں ان کا محاصرہ کیا گیا اور ان کا اخراج عمل میں آیا۔

5: باوجود معاہدہ ہونے کے عین غزوہ خندق کے موقع پر انہوں نے معاہدہ کی خلاف ورزی کی اور اعلانیہ کفار کے ساتھ جنگ میں شریک ہوئے۔

6: بنو نضیر جب جلا وطن ہوئے تو ان کے رئیسِ اعظم حیٔ بن اخطب، ابو رافع، سلام بن ابی الحقیق خیبر جاکر آباد ہوگئے، جنگ احزاب انہی کی کوششوں کا نتیجہ تھا، قبائل عرب میں دورہ کرکے تمام ملک میں آگ لگا دی اور قریش کے ساتھ مل کر مدینہ پر حملہ آور ہوئے، اس وقت تک بنو قریظہ معاہدہ پر قائم تھے، لیکن حیی بن اخطب نے ان کو بہکا کر معاہدہ کی خلاف ورزی کروائی، غزوۂ احزاب میں ان کا کردار بڑا گھناؤنا تھا، اگر ان کی مدد سے دشمن کامیاب ہو جاتا تو مسلمان کا صفایا ہوجاتا کہ پورے عرب نے مسلمانوں پر حملہ کر رکھا ہے۔

حلیف ہونے کے ناتے بنو قریظہ کا یہ فرض تھا کہ وہ مسلمانوں کی مدد کرتے یا کم از کم غیر جانبدار رہتے، انہوں نے اس نازک موقع پر اپنا عہد توڑ کر مسلمانوں پر حملے کی تیاری شروع کر دی، اگر قدرتی آفت کے نتیجے میں کفار کا لشکر واپس نہ ہوتا تو مسلمان دو طرف سے حملے کی لپیٹ میں آ کر تہہ تیغ ہو جاتے۔

اس سلسلے میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کوئی اعتراض کیا جانا بنتا بھی نہیں کہ اس اس عہد شکنی کی سزا انہیں ان کے اپنے مقرر کردہ جج نے انہی کے اپنے قانون کے مطابق دی۔

بنو قریظہ کی اس تباہی کے ساتھ بنو نضیر کا شیطان اور جنگ احزاب کا ایک بڑا مجرم حیی بن اخطب بھی اپنے کیفر کردار کو پہنچ گیا، یہ شخص اُم المومنین حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا جن سے غزوہ خیبر کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نکاح کیا، کا باپ تھا۔

بنو نجار کی ایک خاتون کے متعلق حضرت ام المنذر سلمیٰ بنت قیس رضی اللہ عنہا نے گزارش کی کہ سموأل قرظی کے لڑکے رفاعہ کو ان کے لیے ہبہ کردیا جائے، ان کی بھی گزارش منظور ہوئی اور رفاعہ کو ان کے حوالے کردیا گیا، انہوں نے رفاعہ کو زندہ رکھا اور وہ بھی اسلام لا کر شرفِ صحبت سے مشرف ہوئے، چند اور افراد نے بھی اسی رات ہتھیار ڈالنے کی کارروائی سے پہلے اسلام قبول کرلیا تھا، لہٰذا ان کی بھی جان ومال اور ذریت محفوظ رہی۔

ارباب سِیَر نے مقتولین کی تعد 600 سے زائد بیان کی ہے، لیکن صحاح میں 400 ہے، ان میں صرف ایک عورت تھی، اس نے حضرت خَلاّد بن سُوید رضی اللہ عنہ پر چَکیّ کا پاٹ پھینک کر انہیں قتل کردیا تھا، اسی کے بدلے اسے قتل کیا گیا، گرفتار ہونے والی عورتوں اور بچوں کی تعداد 750 تھی۔

جب بنو قریظہ کا کام تمام ہوچکا تو بندہ صالح حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی اس دعا کی قبولیت کے ظہور کا وقت آگیا، جس کا ذکر غزوۂ احزاب کے دوران آچکا ہے، چنانچہ ان کا زخم پھوٹ گیا، اس وقت وہ مسجد نبوی میں تھے، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے لیے وہیں خیمہ لگوادیا تھا، تاکہ قریب ہی سے ان کی عیادت کرلیا کریں۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ زخم ان کے سینے سے پھوٹ کر بہا، مسجد میں بنو غفار کے بھی چند خیمے تھے، وہ یہ دیکھ کر چونکے کہ ان کی جانب خون بہہ کر آرہا ہے، انہوں نے کہا: "خیمہ والو! یہ کیا ہے جو تمہاری طرف سے ہماری طرف آرہا ہے؟" دیکھا تو حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے زخم سے خون کی دھار رواں تھی، پھر اسی سے ان کی موت واقع ہوگئی۔ ( صحیح بخاری ۲/۵۹۱)

امام ترمذی نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے ایک حدیث روایت کی ہے اور اسے صحیح بھی قرار دیا ہے کہ جب حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کا جنازہ اٹھایا گیا تو منافقین نے کہا: "ان کا جنازہ کس قدر ہلکا ہے؟" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "اسے فرشتے اٹھائے ہوئے تھے۔" ( جامع ترمذی ۲/۲۲۵)

بنو قریظہ کے محاصرے کے دوران ایک مسلمان شہید ہوئے، جن کا نام خَلاّد بن سُوَیْد رضی اللہ عنہ ہے، یہ وہی صحابی ہیں جن پر بنوقریظہ کی ایک عورت نے چکی کا پاٹ پھینک مارا تھا، ان کے علاوہ حضرت عکاشہ رضی اللہ عنہ کے بھائی ابو سنان بن محصن رضی اللہ عنہ نے محاصرے کے دوران وفات پائی۔

یہ غزوہ ذی قعدہ میں پیش آیا، پچیس روز تک محاصرہ قائم رہا، اللہ نے اس غزوہ اور غزوہ ٔ خندق کے متعلق سورۂ احزاب میں بہت سی آیات نازل فرمائیں اور دونوں غزووں کی اہم جزئیات پر تبصرہ فرمایا۔ مومنین ومنافقین کے حالات بیان فرمائے، دشمن کے مختلف گروہوں میں پھوٹ اور پست ہمتی کا ذکر فرمایا اور اہل کتاب کی بدعہدی کے نتائج کی وضاحت کی۔

==================>> جاری ہے ۔۔۔

سیرت المصطفی.. مولانا ادریس کاندھلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری.۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں