سیرت النبی کریم ﷺ ..قسط 189
غزوہ احزاب وقریظہ کے بعد جنگی مہمات:
3: غزوہ بنو لحیان اور سریہ خبط:
بنو لحیان وہی ہیں جنہوں نے مقام رجیع میں دس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو دھوکے سے گھیر کر آٹھ کو شہید کردیا تھا اور دو کو اہل ِ مکہ کے ہاتھوں فروخت کردیا تھا جہاں وہ بے دردی سے شہید کر دیئے گئے تھے.. لیکن چونکہ ان کا علاقہ حجاز کے اندر بہت دور حدودِ مکہ سے قریب واقع تھا اور اس وقت مسلمانوں اور قریش واعراب کے درمیان سخت کشاکش برپا تھی , اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس علاقے میں بہت اندر گھُس کر ''بڑے دشمن'' کے قریب چلے جانا مناسب نہیں سمجھتے تھے لیکن جب کفار کے مختلف گروہوں کے درمیان پھوٹ پڑگئی , ان کے عزائم کمزور پڑ گئے اور انہوں نے حالات کے سامنے بڑی حد تک گھٹنے ٹیک دیے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے محسوس کیا کہ اب بنو لحیان سے رجیع کے مقتولین کا بدلہ لینے کا وقت آگیا ہے..
چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ربیع الاول یا جمادی الاولیٰ ۶ ھ میں دو سو صحابہ کی معیت میں ان کا رُخ کیا.. مدینے میں حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کو اپنا جانشین بنایا اور ظاہر کیا کہ آپ ملک شام کا ارادہ رکھتے ہیں.. اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یلغار کرتے ہوئے امج اور عسفان کے درمیان بطن غران نامی ایک وادی میں جہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کو شہید کیا گیا , پہنچے اور ان کے لیے رحمت کی دعائیں کیں..
ادھر بنو لحیان کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کی خبر ہوگئی تھی , اس لیے وہ پہاڑ کی چوٹیوں پر نکل بھاگے اور ان کا کوئی آدمی گرفت میں نہ آسکا.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انک ی سرزمین میں دو روز قیام فرمایا.. اس دوران سریے بھی بھیجے لیکن بنو لحیان نہ مل سکے.. اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عسفان کا قصد کیا اور وہاں سے دس شہسوار کو کراع الغمیم بھیجا تاکہ قریش کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کی خبر ہو جائے.. اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کل چودہ دن مدینے سے باہر گزار کر مدینہ واپس آگئے..
سریہ ٔخبط:
اس سریہ کا زمانہ رجب ۸ ھ بتایا جاتا ہے مگر سیاق بتاتا ہے کہ یہ حدیبیہ سے پہلے کا واقعہ ہے.. حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین سو سواروں کی جمعیت روانہ فرمائی.. ہمارے امیر ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ تھے.. قریش کے ایک قافلہ کا پتہ لگانا تھا.. ہم اس مہم کے دوران سخت بھوک سے دوچار ہوئے.. یہاں تک کہ پتے جھاڑ جھاڑ کر کھانا پڑے.. اسی لیے اس کا نام جیش خبط پڑ گیا.. (خبط جھاڑے جانے والے پتوں کو کہتے ہیں) آخر ایک آدمی نے تین اونٹ ذبح کیے.. پھر تین اونٹ ذبح کیے.. پھر تین اونٹ ذبح کیے لیکن اس کے بعد ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے اسے منع کردیا.. پھر اس کے بعد ہی سمندر نے عنبر نامی ایک مچھلی پھینک دی جس سے ہم آدھے مہینے تک کھاتے رہے اور اس کا تیل بھی لگاتے رہے.. یہاں تک کہ ہمارے جسم ہماری طرف پلٹ آئے اور تندرست ہوگئے..
ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے اس کی پسلی کا ایک کانٹا لیا اور لشکر کے اندر سب سے لمبے آدمی اور سب سے لمبے اونٹ کو دیکھ کر آدمی کو اس پر سوار کیا اور وہ (سوار ہو کر) کانٹے کے نیچے سے گزر گیا..
ہم نے اس کے گوشت کے کچھ ٹکڑے توشہ کے طور پر رکھ لیے اور جب مدینہ پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اس کا تذکرہ کیا.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. "یہ ایک رزق ہے جو اللہ نے تمہارے لیے برآمد کیا تھا.. اس کا گوشت تمہارے پاس ہو تو ہمیں بھی کھلاؤ.." ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں کچھ گوشت بھیج دیا..
(صحیح بخاری ۲/۶۲۶۶۲۵ صحیح مسلم ۲/۱۴۵، ۱۴۶)
========>> جاری ھے..
سیرت المصطفی.. مولانا ادریس کاندھلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں