سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 279


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 279

دعوت کی کامیابی اور اس کے اثرات:

اب ہم رسول اللہﷺ کی حیات مبارکہ کے آخری ایام کے تذکرہ تک پہنچ رہے ہیں۔ لیکن اس تذکرہ کے لیے رہوار قلم کو آگے بڑھانے سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ذرا ٹھہر کر آپﷺ کے اس جلیل الشان عمل پر ایک اجمالی نظر ڈالیں، جو آپ کی زندگی کا خلاصہ ہے۔ اور جس کی بناء پر آپﷺ کو تمام نبیوں اور پیغمبروں میں یہ امتیازی مقام حاصل ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے سر پر اوّلین وآخرین کی سیادت کا تاج رکھ دیا۔ آپﷺ سے کہا گیا کہ:

يَا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ ﴿١﴾ قُمِ اللَّيْلَ إِلَّا قَلِيلًا ﴿٢﴾ (۷۳: ۱،۲)

''اے چادر پوش ! رات میں کھڑا ہو مگر تھوڑ ا''

اور

يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ‌ ﴿١﴾ قُمْ فَأَنذِرْ‌ ﴿٢﴾ (۷۴: ۱، ۲)

''اے کمبل پوش ! اٹھ اور لوگوں کو سنگین انجام سے ڈرا دے۔''

پھر کیا تھا؟ آپﷺ اٹھ کھڑے ہوئے۔ اور اپنے کاندھے پر اس روئے زمین کی سب سے بڑی امانت کا بارِ گراں اٹھائے مسلسل کھڑے رہے۔ یعنی ساری انسانیت کا بوجھ ، سارے عقیدے کا بوجھ ، اورمختلف میدان میں جنگ وجہاد اور تگ وتاز کا بوجھ۔

آپؑ نے اس انسانی ضمیر کے میدان میں جنگ وجہاد اورتگ وتاز کا بوجھ اٹھایا جو جاہلیت کے اوہام و تصورات کے اندر غرق تھا۔ جسے زمین اور اس کی گونا گوں کشش کے بار نے بوجھل کر رکھا تھا۔ جو شہوات کی بیڑیوں اور پھندوں میں جکڑا ہوا تھا۔ اور جب اس ضمیر کو اپنے بعض صحابہ کی صورت میں جاہلیت اور حیات ِ ارضی کے تہہ در تہہ بوجھ سے آزاد کر لیا تو ایک دوسرے میدان میں ایک دوسرا معرکہ، بلکہ معرکوں پر معرکے شروع کردیے۔ یعنی دعوت ِ الٰہی کے وہ دشمن جو دعوت اور اس پر ایمان لانے والوں کے خلاف ٹوٹے پڑ رہے تھے ، اور اس پاکیزہ پودے کو پنپنے ، مٹی کے اندر جڑ پکڑنے ، فضا میں شاخیں لہرانے ، اور پھلنے پھولنے سے پہلے اس کی نمود گاہ ہی میں مار ڈالنا چاہتے تھے۔ ان دشمنانِ دعوت کے ساتھ آپ نے پیہم معرکہ آرائیاں شروع کیں۔ اور ابھی آپﷺ جزیرۃ العرب کے معرکوں سے فارغ نہ ہوئے تھے کہ رُوم نے اس نئی امّت کو دبوچنے کے لیے اس کی سرحدوں پر تیاریاں شروع کردیں۔

پھر ان تمام کارروائیوں کے دوران ابھی پہلا معرکہ ... یعنی ضمیر کا معرکہ ... ختم نہیں ہوا تھا۔ کیونکہ یہ دائمی معرکہ ہے۔ اس میں شیطان سے مقابلہ ہے۔ اور وہ انسانی ضمیر کی گہرائیوں میں گھس کر اپنی سرگرمیاں جاری رکھتا ہے۔ اور ایک لحظہ کے لیے ڈھیلا نہیں پڑتا۔ محمدﷺ دعوت الی اللہ کے کام میں جمے ہوئے تھے۔ اور متفرق میدان کے پیہم معرکوں میں مصروف تھے۔ دنیا آپﷺ کے قدموں پر ڈھیر تھی۔ مگر آپﷺ تنگی وترشی سے گزر بسر کررہے تھے۔ اہلِ ایمان آپﷺ کے گرداگرد امن وراحت کا سایہ پھیلا رہے تھے۔ مگر آپﷺ جہد ومشقت اپنائے ہوئے تھے۔ مسلسل اور کڑی محنت سے سابقہ تھا۔ مگر ان سب پر آپﷺ نے صبر جمیل اختیار کر رکھا تھا۔ رات میں قیام فرماتے تھے۔ اپنے رب کی عبادت کرتے تھے۔ اس لئے قرآن کی آیات ٹھہر ٹھہر کر قراءت کرتے تھے۔ اور ساری دنیا سے کٹ کر اس کی طرف متوجہ ہوجاتے تھے، جیساکہ آپﷺ کو حکم دیا گیا تھا۔
(سید قطبؒ فی ظلال القرآن ۲۹/۱۶۸، ۱۶۹)

اس طرح آپﷺ نے مسلسل اور پیہم معرکہ آرائی میں بیس برس سے اوپر گزار دیے۔ اور اس دوران آپﷺ کو کوئی ایک معاملہ دوسرے معاملے سے غافل نہ کرسکا۔ یہاں تک کہ اسلامی دعوت اتنے بڑے پیمانے پر کامیاب ہوئی کہ عقلیں حیران رہ گئیں۔ سارا جزیرۃ العرب آپﷺ کے تابع فرمان ہوگیا۔ اس کے افق سے جاہلیت کا غبار چھٹ گیا۔ بیمار عقلیں تندرست ہوگئیں۔ یہاں تک کہ بتوں کو چھوڑ بلکہ توڑ دیا گیا۔ اور توحید کی آوازوں سے فضا گونجنے لگی۔ اور ایمانِ جدید سے حیات پائے ہوئے صحرا کا شبستانِ وجود اذانوں سے لرز نے لگا۔ اور اس کی پہنائیوں کو اللہ اکبر کی صدائیں چیر نے لگیں۔ قراء، قرآن مجید کی آیتیں تلاوت کرتے اور اللہ کے احکام قائم کرتے ہوئے شمال وجنوب میں پھیل گئے۔

بکھری ہوئی قومیں اور قبیلے ایک ہوگئے۔ انسان ، بندوں کی بندگی سے نکل کر اللہ کی بندگی میں داخل ہوگیا۔ اب نہ کوئی قاہر ہے نہ مقہور ، نہ مالک ہے نہ مملوک ، نہ حاکم ہے نہ محکوم ، نہ ظالم ہے نہ مظلوم ، بلکہ سارے لوگ اللہ کے بندے اور آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ ایک دوسرے سے محبت رکھتے ہیں اور اللہ کے احکام بجالاتے ہیں۔ اللہ نے ان سے جاہلیت کا غرور ونخوت اور باپ دادا پر فخر کا خاتمہ کردیا ہے۔ اب عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر ، گورے کو کالے پر ، کالے کو گورے پر کوئی برتری نہیں۔ برتری کا معیار صرف تقویٰ ہے۔ ورنہ سارے لوگ آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے تھے۔

غرض اس دعوت کی بدولت عربی وحدت ، انسانی وحدت ، اور اجتماعی عدل وجود میں آگیا۔ نوعِ انسانی کو دنیاوی مسائل اور اخروی معاملات میں سعادت کی راہ مل گئی۔ بالفاظ دیگر زمانے کی رفتار بدل گئی ، روئے زمین متغیر ہوگیا۔ تاریخ کا دھارا مڑ گیا، اور سوچنے کے انداز بدل گئے۔

اس دعوت سے پہلے دنیا پر جاہلیت کی کار فرمائی تھی۔ اس کا ضمیر متعفن تھا اور روح بدبو کررہی تھی۔ قدریں اور پیمانے مُختل تھے۔ ظلم اور غلامی کا دَور دورہ تھا۔ فَاجرانہ خوش حالی اور تباہ کن محرومی کی موج نے دنیا کو تہ وبالا کر رکھا تھا۔ اس پر کفر وگمراہی کے تاریک اور دبیز پردے پڑے ہوئے تھے۔ حالانکہ آسمانی مذاہب واَدْیان موجود تھے۔ مگر ان میں تحریف نے جگہ پالی تھی۔ اور ضُعف سرایت کر گیا تھا۔ اس کی گرفت ختم ہوچکی تھی اور وہ محض بے جان وبے روح قسم کے جامد رسم ورواج کا مجموعہ بن کر رہ گئے تھے۔

جب اس دعوت نے انسانی زندگی پر اپنا اثر دکھایا تو روحِ انسان کو وہم و خرافات ، بندگی وغلامی ، فساد وتعفن اور گندگی وانار کی سے نجات دلائی۔ اور معاشرہ ٔ انسانی کو ظلم وطغیانی ، پراگندگی وبر بادی ، طبقاتی امتیازات ، حکام کے استبداد اور کاہنوں کے رسوا کن تسلط سے چھٹکارا دلایا۔ اور دنیا کو عفّت ونظافت ، ایجادات وتعمیر ، آزادی وتجدّد ، معرفت ویقین ، وثوق وایمان ، عدالت و کرامت اور عمل کی بنیادوں پر زندگی کی بالید گی ، حیات کی ترقی ، اور حقدار کی حق رسائی کے لیے تعمیر کیا۔ (سید قطب درمقدمہ ماذا خسر العالم بانحطاط المسلمین ص ۱۴)

ان تبدیلیوں کی بدولت جزیرۃ العرب نے ایک ایسی بابرکت اٹھان کا مشاہدہ کیا۔ جس کی نظیر انسانی وجود کے کسی دور میں نہیں دیکھی گئی۔ اور اس جزیرے کی تاریخ اپنی عمر کے ان یگانہ ٔ روز گار ایام میں اس طرح جگمگائی کہ اس سے پہلے کبھی نہیں جگمگائی تھی۔

==================>> جاری ہے ۔۔۔

*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں