سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 265


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 264

غزوۂ تبوک سے پیچھے رہ جانے والے:

یہ غزوہ اپنے مخصوص حالات کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک سخت آزمائش بھی تھا۔ جس سے اہل ِ ایمان اور دوسرے لوگوں میں تمیز ہوگئی۔ اور اس قسم کے موقع پر اللہ کا دستور بھی یہی ہے۔ ارشاد ہے :

مَّا كَانَ اللَّـهُ لِيَذَرَ‌ الْمُؤْمِنِينَ عَلَىٰ مَا أَنتُمْ عَلَيْهِ حَتَّىٰ يَمِيزَ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ ۗ (۳: ۱۷۹)

''اللہ مومنین کو اسی حالت پر چھوڑ نہیں سکتا جس پر تم لوگ ہو یہاں تک کہ خبیث کو پاکیزہ سے علیحدہ کردے۔ ''

چنانچہ اس غزوہ میں سارے کے سارے مومنین صادقین نے شرکت کی اور اس سے غیر حاضری نفاق کی علامت قرار پائی۔ چنانچہ کیفیت یہ تھی کہ اگر کوئی پیچھے رہ گیا تھا اور اس کا ذکر رسول اللہﷺ سے کیا جاتا تو آپ فرماتے کہ اسے چھوڑو۔ اگر اس میں خیر ہے تو اللہ اسے جلد ہی تمہارے پاس پہنچا دے گا اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر اللہ نے تمہیں اس سے راحت دے دی ہے۔ غرض اس غزوے سے یا تو وہ لوگ پیچھے رہے جو معذور تھے یا وہ لوگ جو منافق تھے۔ جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول سے ایمان کا جھوٹا دعویٰ کیا تھا اور اب جھوٹا عذر پیش کرکے غزوہ میں شریک نہ ہونے کی اجازت لے لی تھی اور پیچھے بیٹھ رہے تھے۔ یا سرے سے اجازت لیے بغیر ہی بیٹھے رہ گئے تھے۔ ہاں ! تین آدمی ایسے تھے جو سچے اور پکے مومن تھے۔ اور کسی وجہ جواز کے بغیر پیچھے رہ گئے تھے۔ انہیں اللہ نے آزمائش میں ڈالا اور پھر ان کی توبہ قبول کی۔

اس کی تفصیل یہ ہے کہ واپسی پر رسول اللہﷺ مدینہ میں داخل ہوئے تو حسبِ معمول سب سے پہلے مسجد نبوی میں تشریف لے گئے۔ وہاں دو رکعت نماز پڑھی۔ پھر لوگوں کی خاطر بیٹھ گئے۔ ادھر منافقین نے جن کی تعداد اسی سے کچھ زیادہ تھی، ( واقدی نے ذکر کیا ہے کہ یہ تعداد منافقین انصار کی تھی۔ ان کے علاوہ بنی غفار وغیرہ اعراب میں سے معذرت کرنے والوں کی تعداد بھی بیاسی تھی۔ پھر عبد اللہ بن اُبی اور اس کے پیروکار ان کے علاوہ تھے۔ اور ان کی بھی خاصی بڑی تعداد تھی۔ (دیکھئے : فتح الباری ۸/۱۱۹)) آ آکر معذرتیں شروع کردیں۔ اور قسمیں کھانے لگے۔ آپ نے ان سے ان کا ظاہر قبول کرتے ہوئے بیعت کرلی اور دعائے مغفرت کی، اور ان کا باطن اللہ کے حوالے کردیا۔

باقی رہے تینوں مومنین صادقین ... یعنی کعب بن مالک، مرارہ بن ربیع اور ہلال بن اُمیہ ... تو انہوں نے سچائی اختیار کرتے ہوئے اقرار کیا کہ ہم نے کسی مجبوری کے بغیر غزوے میں شرکت نہیں کی تھی مدینہ واپس ہونے کے بعد رسول اکرم ﷺ نے صحابہؓ سے فرمایا! " ان تینوں میں سے کسی ایک کے ساتھ بھی تم کلام نہ کرنا"

حضرت کعبؓ بن مالک فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک نبطی نے جو شام کے علاقہ کا تھا انہیں شاہِ غسّان کا ایک خط لاکر دیا جس میں لکھا تھا …" امابعد! ہمیں معلوم ہوا ہے کہ تمہارے ساتھی (نبی کریمﷺ) نے سرد مہری کی ہے اور ﷲ نے تمہیں ذلت و تباہی کی جگہ نہیں رکھا، اس لئے تم یہاں آکر مجھ سے ملو، میں تمہارے لئے معاش اور روزی میں حصہ رسدی کا انتظام کروں گا" حضرت کعبؓ گو معتوب نبوی تھے مگر انھوں نے اس خط کو تنور میں ڈال دیا، حضرت کعبؓ آگے فرماتے ہیں…’‘ جب پچاس راتوں میں سے چالیس گزر گئیں تو حضور اکرم ﷺ کا قاصد ان کے پاس آیا اور کہا حضور اکرم ﷺ تمہیں اس بات کا حکم دیتے ہیں کہ اپنی بیوی سے علیحدگی اختیار کرلو، انہوں نے پوچھا کیا بیوی کو طلاق دے دوں؟ کہا … نہیں بلکہ اس سے الگ رہو اور اس کے قریب مت جاؤ۔ (ابن ہشام)

حضور ﷺ کے قاصد نے ان کے دونوں ساتھیوں مرارہؓ بن ربیع اور ہلال بن اُمیہ کو بھی یہی پیغام پہنچایا، حضور اکرم ﷺ کے حکم کے مطابق تمام لوگوں نے ان تین صحابہؓ کے ساتھ سلام و کلام کے علاوہ ان کے ہاتھوں خرید و فروخت ترک کر دی تھی، جب اس مقاطعہ کو پچاس دن مکمل ہوئے تو اﷲ تعالیٰ نے رحم فرماکر ان کو معاف کردیا اور ان کی توبہ قبول فرمائی، سورۂ توبہ کی آیت ۱۱۸ نازل ہوئی جس میں فرمایا گیا :

(ترجمہ)

" اور ان تین شخصوں پر بھی (مہربانی کی) جن کا معاملہ ملتوی رکھا گیا تھا یہاں تک کہ زمین باوجود اس قدر وسیع ہونے کے ان پر تنگ ہوگئی اور وہ خود بھی اپنی جان سے تنگ ہوگئے اور انھوں نے سمجھ لیا کہ ﷲ کی گرفت سے انھیں کہیں پناہ نہیں مل سکتی مگر یہ کہ اسی کی طرف رجوع کیا جائے، پھر ﷲ نے ان پر مہربانی کی تاکہ وہ توبہ کریں، بلاشبہ ﷲ ہی توبہ قبول کرنے والا (اور) مہربان ہے۔ (سورۂ توبہ :۱۱۸)

اس حکم کے نازل ہونے کے بعد تینوں صحابہ کرامؓ بے حد خوش ہوئے، لوگوں نے آکر انہیں بشارت دی، جو لوگ معذوری کی وجہ سے غزوہ میں شرکت نہ کرسکے تھے ان کے بارے میں ﷲ تعالیٰ نے ارشار فرمایا :

( جہاد میں نہ جانے کا ) نہ تو ضعیفوں پر کچھ گناہ ہے اور نہ بیماروں پر اور نہ ان پر جن کے پاس خرچ کرنے کو کچھ نہیں جبکہ یہ لوگ اللہ اور اس کے رسول کے خیرخواہ ہیں، اور نہ ان لوگوں پر ( کسی طرح کا الزام ہے ) جو کہ تمہارے پاس آئے کہ تم ان کو سواری دو (اور ) تم نے کہا کہ میرے پاس کوئی چیز نہیں ہے کہ تم کو سوار کروں تو اس حال میں وہ لوٹ گئے کہ غم سے کہ ان کے پاس اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کو کچھ نہ تھا، ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے " ( سورہ توبہ :۹۲)

==================>> جاری ہے ۔۔۔

*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں