سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 283


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 283

طواف و سعی:

آنحضرت ﷺ نے وضو فرما کر احرام کی چادر کو بغل سے نکالا، حجر اسود کو بوسہ دیا، طواف شروع کیا تو تین چکر دوڑ کے ساتھ اور چار چکر معمولی رفتار کے ساتھ مکمل فرمائے ، ہر چکر میں حجر اسود کا استلام (بوسہ دینا ) کیا اور رکن یمانی کوچھوا ، حجر اسود کے استلام کے سلسلہ میں یہ روایت ہے کہ جب آپﷺ حجر اسود کے سامنے آئے تو محجن ( ایک عصا جس کا سر ٹیڑھا تھا ) سے اشارہ فرمائے اور محجن کے سر کو بوسہ دئیے، کبھی ہاتھ سے چھو کر ہاتھ کو بوسہ دیتے ، کبھی لبِ مبارک کو سنگ اسود پر رکھ کر بوسہ دیتے ، اُم المومنین حضرت اُم سلمہؓ بیماری کی وجہ سے طواف نہ کرسکتی تھیں ، فرمایا تم سوار ہوکر لوگوں کے پیچھے طواف کرو، جب آپﷺ مقام ابراہیم پر تشریف لائے تو سورۂ بقرہ کی آیت نمبر ۱۲۵ پڑھی:

(ترجمہ) " مقام ابراہیم کو نماز پڑھنے کی جگہ بناؤ " ( سورۂ بقرہ : ۱۲۵ )

مقام ابراہیم پر آپﷺ نے دو رکعت نماز ادا فرمائی ، پہلی رکعت میں سورۂ کافرون اور دوسری رکعت میں سورۂ احد کی تلاوت فرمائی، نماز کے بعد حجر اسود کو بوسہ دیا ، کوہ صفا کی جانب واقع دروازہ باب بنی مخزوم سے باہر تشریف لے گئے اور سورۂ بقرہ کی آیت ۱۵۸ تلاوت فرمائی۔

(ترجمہ ) " بے شک صفا و مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں" ( سورۂ بقرہ : ۱۵۸ )

ارشاد فرمایا:

ہم طواف اسی پہاڑ ی سے شروع کرتے ہیں ، صفا کی پہاڑی پر چڑھ کر بیت اللہ کی طرف رخ کیا اور اللہ تعالیٰ کی توحید و کبریائی بیان فرمائی، پھر دعا مانگی اور یہ عمل تین بار دُہرایا ، صفا سے مروہ کی طرف سعی شروع کی ، ابن سعد کا بیان ہے کہ آپﷺ نے سواری پر سعی کی لیکن قسطلانی نے لکھا ہے کہ آپﷺ نے پہلے پیدل سعی فرمائی اور جب ہجوم بڑھ گیا تو اونٹنی پر سوار ہوگئے ، مروہ کی پہاڑیوں پر پہنچ کر وہی عمل کیا جو صفا پر کیا تھا، ساتویں چکر پر مروہ پر پہنچ کر آپﷺ نے فرمایا :

جس شخص کے ساتھ قربانی کا جانور نہ ہو اب وہ احرام کھول دے ، حضرت سراقہؓ بن جعشم نے کھڑے ہوکر عرض کیا ، یہ( حج تمتع ) ہمیشہ کے لئے ہے یا اسی سال کے لئے ، آپﷺ نے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں داخل کرتے ہوئے دو مرتبہ فرمایا ، قیامت تک کے لئے، عمرہ ایام حج میں داخل ہوگیا، حج تمتع کرنے والوں میں جن کو قربانی کا جانور میسر نہ ہو ان کے لئے ہدایت فرمائی کہ وہ ایام حج میں تین روزے رکھیں اور باقی سات روزے اپنے گھر وں کو جا کر رکھیں ، ایام جاہلیت میں حج کے مہینوں میں عمرہ کرنا گناہ سمجھا جاتا تھا ، ذی الحجہ کے مہینہ میں عمرہ کرنے کا حکم دیا تو بہت لوگوں کو یہ بات عجیب معلوم ہوئی۔

سعی ختم ہونے کے بعد مروہ سے اتر کر آپﷺ نے مکہ کے باہر چار دن یعنی اتوار ، پیر ، منگل اور چہارشنبہ قیام فرمایا، اسی دوران نماز یں قصرکر کے ادا فرمائیں۔
زمانہ قدیم سے حج کے موسم میں مکہ کے قریب عکاظ ، مجنّہ اور ذرالمجاز میں بازار لگا کرتے تھے اور خوب تجارت ہوتی تھی، صحابہ ؓ کرام نے ان دنوں تجارت کو گناہ سمجھا تو اللہ تعالیٰ نے اس غلط فہمی کو دور فرمایا اور سورۂ بقرہ کی آیت ۱۹۸ نازل ہوئی :

( ترجمہ) "اگر موسم حج میں اپنے رب کا فضل تلاش کرو ( یعنی تجارت) تو تم پر کوئی گناہ نہیں"

==================>> جاری ہے ۔۔۔

*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں