سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 269


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 269

حضور ﷺ کے غزوات پر ایک نظر:

نبیﷺ کے غزوات، سرایا اور فوجی مہمات پر ایک نظر ڈالنے کے بعد کوئی بھی شخص جو جنگ کے ماحول، پس منظر وپیش منظر اور آثار ونتائج کا علم رکھتا ہو یہ اعتراف کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ نبیﷺ دُنیا کے سب سے بڑے اور باکمال فوجی کمانڈر تھے۔ آپﷺ کی سوجھ بوجھ سب سے زیادہ درست اور آپﷺ کی فراست اور بیدارمغزی سب سے زیادہ گہری تھی۔

آپﷺ جس طرح نبوت ورسالت کے اوصاف میں سیّد الرسل اور اعظم الانبیاء تھے ، اسی طرح فوجی قیادت کے وصف میں بھی آپ یگانۂ روزگار اور نادر عبقریت کے مالک تھے۔ چنانچہ آپﷺ نے جو بھی معرکہ آرائی کی اس کے لیے ایسے حالات وجہات کا انتخاب فرمایا جوحزم وتدبر اور حکمت وشجاعت کے عین مطابق تھے۔ کسی معرکے میں حکمت عملی، لشکر کی ترتیب اور حساس مراکز پر اس کی تعیناتی، موزوں ترین مقام جنگ کے انتخاب اور جنگی پلاننگ وغیرہ میں آپﷺ سے کبھی کوئی چوک نہیں ہوئی۔ اور اسی لیے اس بنیاد پر آپ ﷺ کو کبھی کوئی زک نہیں اٹھانی پڑی۔ بلکہ ان تمام جنگی معاملات ومسائل کے سلسلے میں آپﷺ نے اپنے عملی اقدامات سے ثابت کردیا کہ دنیا ، بڑے بڑے کمانڈروں کے تعلق سے جس طرح کی قیادت کا علم رکھتی ہے، آپﷺ اس سے بہت کچھ مختلف ایک نرالی ہی قسم کی کمانڈرانہ صلاحیت کے مالک تھے۔ جس کے ساتھ شکست کا کوئی سوال ہی نہ تھا۔

اس موقع پر یہ عرض کردینا بھی ضروری ہے کہ اُحد اور حنین میں جو کچھ پیش آیا اس کا سبب رسول اللہﷺ کی کسی حکمتِ عملی کی خامی نہ تھی بلکہ اس کے پیچھے حنین میں کچھ افرادِ لشکر کی بعض کمزوریاں کار فرما تھیں اور اُحد میں آپﷺ کی نہایت اہم حکمت عملی اور لازمی ہدایات کو نہایت فیصلہ کن لمحات میں نظر انداز کردیا گیا تھا۔

پھر ان دونوں غزوات میں جب مسلمانوں کو زک اٹھانے کی نوبت آئی تو آپﷺ نے جس عبقریت کا مظاہرہ فرمایا وہ اپنی مثال آپﷺ تھی۔ آپ دشمن کے مد مقابل ڈٹے رہے اور اپنی نادرۂ روزگار حکمت عملی سے اسے یاتو اس کے مقصد میں ناکام بنادیا - جیسا کہ اُحد میں ہوا - یا جنگ کا پانسہ اس طرح پلٹ دیا کہ مسلمانوں کی شکست، فتح میں تبدیل ہوگئی- جیسا کہ حنین میں ہوا- حالانکہ اُحد جیسی خطرناک صورت حال اور حنین جیسی بے لگام بھگدڑ سپہ سالاروں کی قوتِ فیصلہ سلب کرلیتی ہے۔ اور ان کے اعصاب پر اتنا بدترین اثر ڈالتی ہے کہ انہیں بچاؤ کے علاوہ اور کوئی فکر نہیں رہ جاتی۔

یہ گفتگو تو ان غزوات کے خالص فوجی اور جنگی پہلو سے تھی۔ باقی رہے دوسرے گوشے تو وہ بھی بے حد اہم ہیں۔ آپﷺ نے ان غزوات کے ذریعے امن وامان قائم کیا۔ فتنے کی آگ بجھائی۔ اسلام وبُت پرستی کی کشمکش میں دشمن کی شوکت توڑ کر رکھ دی۔ اور انہیں اسلامی دعوت وتبلیغ کی راہ آزاد چھوڑنے اور مصالحت کرنے پر مجبور کردیا۔

اسی طرح آپﷺ نے ان جنگوں کی بدولت یہ بھی معلوم کرلیا کہ آپ کا ساتھ دینے والوں میں سے کون سے لوگ مخلص ہیں اور کون سے لوگ منافق ؟ جو نہاں خانۂ دل میں غدر وخیانت کے جذبات چھپائے ہوئے ہیں۔

پھر آپﷺ نے محاذ آرائی کے عملی نمونوں کے ذریعے مسلمان کمانڈروں کی ایک زبردست جماعت بھی تیار کر دی، جنہوں نے آپ کے بعد عراق و شام کے میدانوں میں فارس و روم سے ٹکر لی۔ اور جنگی پلاننگ اور تکنیک میں ان کے بڑے بڑے کمانڈروں کو مات دی۔

اسی طرح رسول اللہﷺ نے ان غزوات کی بدولت مسلمانوں کے لیے رہائش، کھیتی، پیشے اور کام کا انتظام فرمایا۔ بے خانماں اور محتاج پناہ گزینوں کے مسائل حل فرمائے۔ ہتھیار، گھوڑے، ساز و سامان اور اخراجات جنگ مہیا کیے۔ اور یہ سب کچھ اللہ کے بندوں پر ذرہ برابر ظلم و زیادتی اور جور و جفا کیے بغیر حاصل کیا۔

آپﷺ نے ان اسباب و وجوہ اور اغراض و مقاصد کو بھی تبدیل کر ڈالا جن کے لیے دور جاہلیت میں جنگ کے شعلے بھڑکا کرتے تھے۔ یعنی دور جاہلیت میں جنگ نام تھی لوٹ مار اور قتل و غارت گری کا، ظلم و زیادتی اور انتقام و تشدد کا، کمزوروں کو کچلنے، آبادیاں ویران کرنے اور عمارتیں ڈھانے کا ، عورتوں کی بے حرمتی کرنے اور بوڑھوں، بچوں اور بچیوں کے ساتھ سنگدلی سے پیش آنے کا، کھیتی باڑی اور جانوروں کو ہلاک کرنے اور زمین میں تباہی و فساد مچانے کا۔ مگر اسلام نے اس جنگ کی روح تبدیل کر کے اسے ایک مقدس جہاد میں بدل دیا۔ جسے نہایت موزوں اور معقول اسباب کے تحت شروع کیا جاتا ہے۔ اوراس کے ذریعے ایسے شریفانہ مقاصد اور بلند پایہ اغراض حاصل کیے جاتے ہیں جنہیں ہر زمانے اور ہر ملک میں انسانی معاشرہ کے لیے باعث اعزاز تسلیم کیا گیا ہے۔

کیونکہ اب جنگ کا مفہوم یہ ہوگیا کہ انسان کو قہر و ظلم کے نظام سے نکال کر عدل و انصاف کے نظام میں لانے کی مسلح جد و جہد کی جائے۔ یعنی ایک ایسے نظام کو جس میں طاقتور کمزور کو کھارہا ہو، الٹ کر ایک ایسا نظام قائم کیا جائے جس میں طاقتور کمزور ہو جائے جب تک کہ اس سے کمزور کا حق نہ لیا جائے۔ اسی طرح اب جنگ کا معنی یہ ہوگیا کہ ان کمزور مردوں، عورتوں اور بچوں کو نجات دلائی جائے جو دعائیں کرتے رہتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ! ہمیں اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں۔ اور ہمارے لیے اپنے پاس سے ولی بنا، اور اپنے پاس سے مدد گاربنا۔ نیز اس جنگ کا معنی یہ ہوگیا کہ اللہ کی زمین کو غدر وخیانت، ظلم وستم اور بدی وگناہ سے پاک کر کے اس کی جگہ امن وامان، رافت ورحمت، حقوق رسانی اور مروت وانسانیت کا نظام بحال کیا جائے۔

==================>> جاری ہے ۔۔۔

*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں