ظالم فرعون پر اللہ کا عذاب اورعبرت ونصیحت
تحریر: مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر،شمالی طائف(مسرہ) سعودی عرب
ظلم اندھیرا ہے ، فساد فی الارض ہے اور کرہ ارض پردنیا کا سب سے بڑا گناہ ہے ۔ اللہ تعالی شرک کے علاوہ اپنے نفسوں پراور اللہ کےحق میں ہوئے ظلم وزیادتی کو چاہے تو معاف کرسکتا ہے مگربندوں کے حق میں ظلم وزیادتی کرنے والوں کوہرگز معاف نہیں کرے گا ۔ بھلے دنیا کی عدالتوں میں ایسے ظالموں کے لئے کوئی سزا نہیں مگرخالق کائنات کی عدالت سے دنیا کی سزامقرر ہوتی ہے اور ضرور اسے مل کررہتی ہے ، آخرت میں تو الگ سے سزا مقرر ہےہی ۔انسانی تاریخ ظالموں کی عبرتناک سزاؤں سے بھری پڑی ہے ، میں یہاں قرآن مقدس کے حوالے سے دنیا کے ظالم ترین انسان فرعون کے ظلم واستبداد اور اس پر اللہ کے قہر وعذاب کا ذکرکرنا چاہتا ہوں جس میں دنیا والوں کے لئے عبرت ونصیحت ہے مگر کم ہی لوگ نصیحت حاصل کرتے ہیں ،
اللہ کا فرمان ہے : فَالْيَوْمَ نُنَجِّيكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُونَ لِمَنْ خَلْفَكَ آيَةً ۚ وَإِنَّ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ آيَاتِنَا لَغَافِلُونَ (یونس:92)
ترجمہ: سوآج ہم صرف تیری لاش کو نجات دیں گے تاکہ تو ان کے لئے نشان عبرت ہو جو تیرے بعد ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ بہت سے آدمی ہماری نشانیوں سے غافل ہیں۔
بنی اسرائیل جس کی طرف موسی علیہ السلام بھیجے گئے ، دراصل یعقوب علیہ السلام کی بارہ اولاد سے چلنے والی بارہ قبائلی نسلیں ہیں جو مصر میں تھیں ۔ اللہ نے بنی اسرائیل کو بہت ساری نعمتوں سے نوازا تھا ، ان کو پوری دنیا پر برتری اور حکومت عطا فرمائی تھی ،
اللہ تعالی کا فرمان ہے :يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ (البقرة:47)
ترجمہ: اے اولاد یعقوب میری اس نعمت کو یاد کرو جو میں نے تم پر انعام کی اور میں نے تمہیں تمام جہانوں پر فضیلت دی ۔
مصرمیں قبطیوں کی بھی قوم تھی جس سے فرعون یعنی بادشاہ ہوا کرتا تھا، جب بنی اسرائیل نے اللہ کے احکام کی نافرمانی کی ، حد سے تجاوز کیا تو اللہ نے ان پر چارصدیوں تک ظالم فراعنہ کو مسلط کردیا۔ فرعون نے بنی اسرائیل کو اپنا غلام بنارکھا تھااور ان میں سے کوئی یہاں سے بھاگ بھی نہیں سکتا تھا۔ دوبارہ اللہ نے نبی اسرائیل پر مہربانی کی اور موسی علیہ السلام کو ان کی طرف نبی بناکر بھیجا اور آپ کی بدولت فرعون کے ظلم سے نجات دی ۔
موسی علیہ السلام اور فرعون کا قصہ بڑا طویل ہے ۔ سورہ قصص، سورہ شعراء اور دیگر متعدد مقامات پر اس کی تفاصیل مذکور ہیں ، میں قرآن اور تفاسیرکے حوالے سے مختصر طورپر یہاں موسی علیہ السلام کا قصہ اور بنی اسرائیل کا فرعون کے ظلم سے نجات بیان کردیتا ہوں ۔ موسی علیہ السلام کی پیدائش سے پہلے نجومیوں اور کاہنوں نے فرعون کو خبردی کہ بنی اسرائیل میں ایک لڑکا پیداہونے والا ہے جو اس کی حکومت وسلطنت کا خاتمہ کرنے والا ہے ۔ اس وجہ سے فرعون بنی اسرائیل کا ہرلڑکا قتل کروانا شروع کردیا، قتل کی وجہ جب خدمت گزار نبی اسرائیلیوں کی کمی ہونےلگی تو پھرایک سال لڑکوں کو قتل کروانا شروع کیا اور ایک سال چھوڑ دیا کرتا تھا۔ موسی کےبڑے بھائی ہارون کی پیدائش قتل والے سال سے پہلے اور موسی علیہ السلام کی پیدائش قتل والے سال ہوئی ۔ اللہ نے موسی علیہ السلام کی ماں کی طرف وحی کی کہ اسے تابوت میں رکھ کر دریا میں بہادواور کوئی غم نہ کرو، ساتھ ہی یہ وعدہ بھی کیا کہ اس بچے کو اس کے پاس دوبارہ لوٹائے گا اور اسے پیغمبر بھی بنائے گا۔ ماں نے اللہ کے حکم کی تعمیل کی اور بیٹی کو لوگوں کی نظروں سے دورہوکراسے دیکھتے رہنے کی تاکید کی ۔ قدرت کا کرشمہ کہ اس تابوت پہ فرعون کے حواریوں کی نظر پڑتی ہے وہ اسے دربار میں لے آتے ہیں ، لڑکا دیکھ کرفرعون نے قتل کا حکم دیا مگر فرعون کی بیوی نے یہ کہہ کر بچا لیا کہ شاید یہ ہمارے کسی کام آئے یا اسے ہم اپنا بیٹا بنالیں ۔قدرت نے بچے کو ماں کا ہی دودھ پلایا کیونکہ اس نے کسی کا دودھ پیا ہی نہیں۔ فرعون جسے اپنے ہلاک کرنے والے کی تلاش تھی ، اس کے قتل کے درپے تھا اور اس کام کے لئے سیکڑوں لڑکوں کا قتل کرواچکا تھا اس وقت وہ اپنے محل میں اسی کی پرورش کر رہا تھا۔ یہ بھی قدرت کا عظیم کرشمہ ہے۔ جوانی تک وہاں پلے بڑھے ، ایک روز انہوں نے ایک قبطی کو بنی اسرائیل پر ظلم کرتے دیکھا ، پہلے اسے منع کیا،باز نہ آنے پر ایک مکا رسید کردیا اور قبطی اسی وقت مرگیا ۔ اس ڈرسے کہ کہیں فرعون قبطی کو قتل کرنے کے جرم میں ہمیں نہ قتل کروادے وہ مدین چلے گئے ۔ وہاں ایک کنواں پر لوگوں کو جانور سیراب کرتے دیکھا، ان میں دولڑکیاں بھی تھیں جو کافی دیر سے انتظار کرہی تھیں ،موسی علیہ السلام نے وجہ پوچھی تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم سب سے آخر میں اپنے جانور کو پلائیں گے ۔ موسی علیہ السلام نے پانی پلانے پر ان کی بغیراجرت مددکی، لڑکیاں گھر جاکر اپنے والد کو آپ کے بارے میں بتایا اور امانتدار وقوی ہونے کی صفت بتاکراپنے یہاں کام پر رکھنے کی صلاح دی۔ باپ نے موسی علیہ السلام کو طلب کیا اور آٹھ سال خدمت کرنے پر اپنی ایک بیٹی سے نکاح کا وعدہ کیا ،اگر دس سال پورے کریں تو یہ احسان ہوگا۔ موسی علیہ السلام راضی ہوگئے ۔ جب خدمت کرتے کرتے مدت پوری ہوگئی تو بوڑھے باپ نے آپ سے ایک بیٹی کا نکاح کردیا۔ اب موسی علیہ السلام اپنے اہل و مال کے ساتھ واپس لوٹ رہے تھے کہ راستے میں آگ کی تلاش میں ایک جگہ ٹھہر گئے ۔ بیوی کو انتظار کرنے کہا اور خوداس جگہ آگ لینے چلے گئے جہاں سے روشنی نظر آرہی تھی ۔ وہاں پہنچنے پر اللہ نے موسی علیہ السلام سے کلام کیا اور آپ کو نبوت سے سرفرازفرماکر فرعون کی طرف جاکر اسے نرمی سے تبلیغ کرنے کا حکم دیا۔ اللہ نے آپ کو بطور معجزہ نو نشانیاں عطا فرمائی ۔ موسی علیہ السلام کے اندر ایک خوف تو یہ تھا کہ انہوں نے قبطی کومار دیا تھا اور دوسرا خوف یہ تھا کہ فرعون بڑا ظالم تھا،وہ رب ہونے کا دعویدار ہےساتھ ہی آپ کی زبان میں لکنت بھی تھی اس لئے اللہ سے چارباتوں کی دعا کی،اللہ فرماتا ہے:
قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي، وَيَسِّرْ لِي أَمْرِي، وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّن لِّسَانِي، يَفْقَهُوا قَوْلِي، وَاجْعَل لِّي وَزِيرًا مِّنْ أَهْلِي، هَارُونَ أَخِي، اشْدُدْ بِهِ أَزْرِي، وَأَشْرِكْهُ فِي أَمْرِي(طہ:25-32)
ترجمہ: موسی نے کہا اے میرے پروردگار!(1)میرا سینہ میرے لئے کھول دے (2)اور میرے کام کو مجھ پر آسان کردے (3)اور میری زبان کی گرہ بھی کھول دے تاکہ لوگ میری بات اچھی طرح سمجھ سکیں (4)اور میرا وزیر میرے کنبہ میں سے کردے یعنی میرے بھائی ہارون کو، تو اس سے میری کمر کس دے اور اسے میرا شریک کار کردے۔
دونوں بھائی موسی اور ہارون علیھما السلام نے فرعون کو ر ب العالمین کا پیغام سنایااور اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کی طرف بلایا مگر اس نے سرکشی کی اور نبوت کی نشانیاں طلب کی ۔ موسی علیہ السلام نے اپنے نبی ہونے کا معجزہ پیش کیا، لاٹھی کا سانپ بن جانا، بغل میں ہاتھ لگانے سے اس میں چمک پیدا ہونا۔ فرعون نے جادوگری کہہ کراس کا بھی انکار کیا ۔ پھر فرعون نے اپنے ماہر جاگردوں سے موسی علیہ السلام کا مقابلہ کروایا ، مقابلے میں پہلے فرعون کے جادوگروں نے اپنی لاٹھیاں اور رسیاں زمین پر پھیکی اور آخر میں موسی علیہ السلام نے اپنی لاٹھی پھینکیں جو اژدھا بن کر جادوگروں کے تمام آلات نگل گیا ، یہ منظر دیکھ سارے جادوگر موسی اور ہارون کے رب پر ایمان لے آئے ۔فرعون اب بھی ایمان نہ لایا اور خود کو ہی معبود کہلواتا رہا۔ لوگوں سے کہتا "اناربکم الاعلی( یعنی میں تم سب کا سب سے بڑا معبود ہوں )۔ یہ فرعون کا سب سے بڑا گناہ تھا۔ اس کےعلاوہ قرآن نے فرعون کوسرکشی کرنے والا، بنی اسرائیل پر ظلم وستم ڈھانے والا، ان کا قتل کرنے والا اور فساد مچانے والا کہا ہے ، اللہ فرماتا ہے :
إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِي الْأَرْضِ وَجَعَلَ أَهْلَهَا شِيَعًا يَسْتَضْعِفُ طَائِفَةً مِّنْهُمْ يُذَبِّحُ أَبْنَاءَهُمْ وَيَسْتَحْيِي نِسَاءَهُمْ ۚ إِنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ (القصص:4)
ترجمہ:یقیناً فرعون نے زمین میں سرکشی کر رکھی تھی اور وہاں کے لوگوں کو گروہ گروہ بنا رکھا تھا اور ان میں سے ایک فرقہ کو کمزور کررکھا تھا اور ان کے لڑکوں کو تو ذبح کر ڈالتا تھا اور ان کی لڑکیوں کو زندہ چھوڑ دیتا تھا بیشک و شبہ وہ تھا ہی مفسدوں میں سے ۔
اس کے علاوہ رسول کی تکذیب کرنے والے فرعون اور اس کے لشکر کو قرآن نے کہیں ظالم قوم کہا، کہیں فاسق قوم کہا، کہیں قاہر تو کہیں سرکش وباغی اور کہیں متکبرکہا۔ ایک طرف فرعوں اپنے ان مظالم کی وجہ سے اللہ کی عدالت سے دردناک عذاب کا مستحق تھا ہی ،دوسری طرف موسی علیہ السلام نے اس کی ہلاکت کی اللہ سے دعا بھی مانگ لی ، اللہ فرماتاہے:
وَقَالَ مُوسَىٰ رَبَّنَا إِنَّكَ آتَيْتَ فِرْعَوْنَ وَمَلَأَهُ زِينَةً وَأَمْوَالًا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا رَبَّنَا لِيُضِلُّوا عَن سَبِيلِكَ ۖ رَبَّنَا اطْمِسْ عَلَىٰ أَمْوَالِهِمْ وَاشْدُدْ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُوا حَتَّىٰ يَرَوُا الْعَذَابَ الْأَلِيمَ (یونس:88)
ترجمہ:اور موسیٰ نے عرض کیا کہ اے ہمارے رب! تو نے فرعون کو اور اس کے سرداروں کو سامان زینت اور طرح طرح کے مال دنیاوی زندگی میں دیئے اے ہمارے رب! ( اسی واسطے دیئے ہیں کہ ) وہ تیری راہ سے گمراہ کریں ۔ اے ہمارے رب! انکے مالوں کو نیست و نابود کر دے اور ان کے دلوں کو سخت کردے سو یہ ایمان نہ لانے پائیں یہاں تک کہ دردناک عذاب کو دیکھ لیں ۔
پھر کیا تھا، دنیا میں ہی فرعون اور اس کے لشکروں پر اللہ کی طرف سے قسم قسم کا عذاب آنا شروع ہوگیا۔ قحط سالی، پھلوں کی کمی،طوفان،ٹڈیاں،گھن کا کیڑا ، مینڈک اور خون کا عذاب آیاحتی کے ان کے ساختہ پرداختہ کارخانے اور اونچی اونچی عمارتوں کو بھی درہم برہم کردیاگیا، فرعون موسی علیہ السلام سے عذاب ہٹانے کے بدلے بنی اسرائیل کی آزادی کا وعدہ کرتا مگر کبھی نبھاتا نہیں ۔
فرعون اور اس کے لشکروں پر دنیا کا سب سے بڑا عذاب یہ آیا کہ جب موسی علیہ السلام بنی اسرائیل کو لیکر ایک دن اچانک بھاگ نکلے اور فرعون مع لشکر ان کا پیچھا کیا ، دریا کے پاس پہنچ کر موسی علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے پانی پر لاٹھی ماری اور بارہ راستے بن گئے ، اس طرح موسی علیہ السلام اور ان کی قوم ان راستوں سے پار نکل کرہمیشہ کے لئے فرعونی ظلم وستم سے نجات پاگئے اور جب فرعون اور اس کا لشکر دریا عبور کرنے لگے تو اللہ نے پانی کو آپس میں ملاکر ڈبودیا اور سب کو ایک آن میں موت کی نیند سلا دیا۔ اللہ کا فرمان ہے :
وَإِذْ فَرَقْنَا بِكُمُ الْبَحْرَ فَأَنجَيْنَاكُمْ وَأَغْرَقْنَا آلَ فِرْعَوْنَ وَأَنتُمْ تَنظُرُونَ(البقرة:50)
ترجمہ: اور جب ہم نے تمہارے لئے دریا چیر دیا اور تمہیں اس سے پار کرا دیا اور فرعونیوں کو تمہاری نظروں کے سامنے اس میں ڈبو دیا۔
ترمذی(3108) کی صحیح حدیث میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ذکر کیا کہ جب فرعون ڈوبنے لگا تو جبرائیل علیہ السلام فرعون کے منہ میں مٹی ٹھونسنے لگے، اس ڈر سے کہ وہ کہیں «لا إلٰہ إلا اللہ» نہ کہہ دے تو اللہ کو اس پر رحم آ جائے۔
فرعون کو اس کے ظلم کے بدلے دنیا میں مختلف قسم کی سزا ملی ، دردناک طریقے سے غرق آب بھی کیا گیا،مرتے وقت فرشتےاس کے منہ میں دریا کی مٹی ٹھونس رہے تھے، مظلوم کے سامنے ظالم فرعون کوکیفرکردار تک پہنچایا گیا یعنی اس کو ڈبوکرمارا گیا، مرکربھی قیامت تک(عالم برزخ میں) فرعون اور اس کی آل کو عذاب ملتا رہے گااور قیامت میں بھی سخت ترین عذاب دیا جائے گا، اللہ کا فرمان ہے :
النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا ۖ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ (غافر:46)
ترجمہ: آگ ہے جس کے سامنے یہ ہر صبح شام لائے جاتے ہیں اور جس دن قیامت قائم ہوگی (فرمان ہوگا کہ) فرعونیوں کو سخت ترین عذاب میں ڈالو ۔
اس پورے واقعہ سے ایک اہم نصیحت ملتی ہے کہ اللہ نے موسی علیہ السلام اور آپ پر ایمان لانے والوں دنیا کے سب سے ظالم حکمران سے نجات دی حتی کہ فرعون کی بیوی آسیہ بھی ایمان لے آتی ہے ، فرعون سے نجات اور جنت میں گھر کے لئے اللہ سے دعا کرتی ہے۔
ظالم فرعون کی ہلاکت وتباہی کے متعلق اللہ نے فرمایا کہ دیکھو ظالم کیا انجام ہوا؟
فَأَخَذْنَاهُ وَجُنُودَهُ فَنَبَذْنَاهُمْ فِي الْيَمِّ ۖ فَانظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الظَّالِمِينَ (القصص:40)
ترجمہ: بالآخر ہم نے اسے اوراس کے لشکروں کو پکڑ لیا اور دریا برد کر دیا اب دیکھ لے کہ ان گنہگاروں کا انجام کیسا کچھ ہوا؟
ایک دوسری جگہ اللہ نے کہا کہ دیکھو فساد پھیلانے والے کا انجام کیا ہوا؟
ثُمَّ بَعَثْنَا مِن بَعْدِهِم مُّوسَىٰ بِآيَاتِنَا إِلَىٰ فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِ فَظَلَمُوا بِهَا ۖ فَانظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِينَ (الاعراف:103)
ترجمہ: پھر ان کے بعد ہم نے موسیٰ کو اپنے دلائل دے کر فرعون اور اس کے امرا کے پاس بھیجا ، مگر ان لوگوں نے ان کا بالکل حق ادا نہ کیا ۔ سو دیکھئے ان مفسدوں کا کیا انجام ہوا۔
نصیحت سے متعلق ایک آخری بات عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اللہ نے فرعون کی لاش محفوظ رکھنے کا وعدہ کیا ہے تاکہ بعد والوں کے لئے نصیحت رہے ، فرمان الہی ہے :
فَالْيَوْمَ نُنَجِّيكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُونَ لِمَنْ خَلْفَكَ آيَةً ۚ وَإِنَّ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ آيَاتِنَا لَغَافِلُونَ (یونس:92)
ترجمہ: سوآج ہم صرف تیری لاش کو نجات دیں گے تاکہ تو ان کے لئے نشان عبرت ہو جو تیرے بعد ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ بہت سے آدمی ہماری نشانیوں سے غافل ہیں۔
اس آیت کے تناظر میں مصر کے میوزیم میں موجود ممی کی ہوئی لاش کو اکثرلوگ فرعون موسی کہتے ہیں ، واضح رہے کہ یہ محض ایک سائنسی تحقیق ہے اس لئے اس لاش کو حتمی طور پر فرعون کی لاش نہیں کہا سکتا ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں