سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 106


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 106

اسلامی تعاون کا عہد:

مذکورہ بھائی چارے کی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اور عہد وپیمان کرایا، جس کے ذریعے ساری جاہلی کشاکش اور قبائلی کشمکش کی بنیاد ڈھادی اور دور جاہلیت کے رسم ورواج کے لیے کوئی گنجائش نہ چھوڑی۔ ذیل میں اس پیمان کو اس کی دفعات سمیت مختصراً پیش کیا جارہا ہے :

"یہ تحریر ہے محمد نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی جانب سے قریشی، یثربی اور ان کے تابع ہوکر ان کے ساتھ لاحق ہونے اور جہاد کرنے والے مومنین اور مسلمانوں کے درمیان کہ :

یہ سب اپنے ماسوا انسانوں سے الگ ایک امت ہیں، مہاجرینِ قریش اپنی سابقہ حالت کے مطابق باہم دیت کی ادائیگی کریں گے اور مومنین کے درمیان معروف اور انصاف کے ساتھ اپنے قیدی کا فدیہ دیں گے اور انصار کے تمام قبیلے اپنی سابقہ حالت کے مطابق باہم دیت کی ادائیگی کریں گے اور ان کا ہر گروہ معروف طریقے پر اور اہلِ ایمان کے درمیان انصاف کے ساتھ اپنے قیدی کا فدیہ ادا کرے گا اور اہلِ ایمان اپنے درمیان کسی بیکس کو فدیہ یا دیت کے معاملے میں معروف طریقے کے مطابق عطا ونوازش سے محروم نہ رکھیں گے۔

اور سارے راست باز مومنین اس شخص کے خلاف ہوں گے جو ان پرزیادتی کرے گا یا ان کے درمیان ظلم اور گناہ اور زیادتی اور فساد کی راہ کا جویا ہوگا اور یہ کہ ان سب کے ہاتھ اس شخص کے خلاف ہوں گے، خواہ وہ ان میں سے کسی کا لڑکا ہی کیوں نہ ہو، کوئی مومن کسی مومن کو کافر کے بدلے قتل کرے گا اورنہ ہی کسی مومن کے خلاف کسی کافر کی مدد کرے گا اور اللہ کا ذِمّہ (عہد) ایک ہوگا، ایک معمولی آدمی کا دیا ہوا ذمہ بھی سارے مسلمانوں پر لاگو ہوگا۔

جو یہود ہمارے پیروکار ہوجائیں، ان کی مدد کی جائے گی اور وہ دوسرے مسلمانوں کے مثل ہوں گے، نہ ان پر ظلم کیا جائے گا اور نہ ان کے خلاف تعاون کیا جائے گا، مسلمانوں کی صلح ایک ہوگی، کوئی مسلمان کسی مسلمان کو چھوڑ کر قتال فی سبیل اللہ کے سلسلے میں مصالحت نہیں کرے گا، بلکہ سب کے سب برابری اور عدل کی بنیاد پر کوئی عہد وپیمان کریں گے، مسلمان اس خون میں ایک دوسرے کے مساوی ہوں گے جسے کوئی فی سبیل اللہ بہائے گا۔

کوئی مشرک قریش کی کسی جان یا مال کو پناہ نہیں دے سکتا اور نہ کسی مومن کے آگے اِس کی حفاظت کے لیے رکاوٹ بن سکتا ہے۔

جو شخص کسی مومن کو قتل کرے گا اور ثبوت موجود ہوگا، اس سے قصاص لیا جائے گا، سوائے اس صورت کے کہ مقتول کا ولی راضی ہوجائے اور یہ کہ سارے مومنین اس کے خلاف ہوں گے، ان کے لیے اس کے سوا کچھ حلال نہ ہوگا کہ اس کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں۔

کسی مومن کے لیے حلال نہ ہوگا کہ کسی ہنگامہ برپا کرنے والے (یا بدعتی) کی مدد کرے اور اسے پناہ دے اور جو اس کی مدد کرے گا یا اسے پناہ دے گا، اس پر قیامت کے دن اللہ کی لعنت اور اس کا غضب ہوگا اور اس کا فرض ونفل کچھ بھی قبول نہ کیا جائے گا۔

تمہارے درمیان جو بھی اختلاف رُونما ہوگا اسے اللہ عزوجل اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی طرف پلٹایا جائے گا۔" (ابن ہشام 1/502.503)*

==================> جاری ہے ۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں