سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 104


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 104

مسجد نبویﷺ کی تعمیر:

ہم بیان کر چکے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینے میں بنو النجار کے یہاں جمعہ 12 ربیع الاول 1ھ مطابق 28 ستمبر 622ء کو حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے مکان کے سامنے نزول فرمایا تھا اور اسی وقت فرمایا تھا کہ ان شاء اللہ یہیں منزل ہوگی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے گھر منتقل ہوگئے تھے، اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پہلا قدم یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجدِ نبوی کی تعمیر شروع کی اور اس کے لیے وہی جگہ منتخب کی جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی بیٹھی تھی۔

اس زمین کے مالک دو یتیم بچے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے یہ زمین قیمتاً خریدی اور بنفسِ نفیس مسجد کی تعمیر میں شریک ہوگئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اینٹ اور پتھر ڈھوتے تھے، اس زمین میں مشرکین کی چند قبریں بھی تھیں، کچھ ویرانہ بھی تھا، کھجور اور غَرْقَد کے چند درخت بھی تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین کی قبریں ہٹوا دیں، ویرانہ ختم کرا دیا اور کھجوروں اور درختوں کو کاٹ کر قبلے کی جانب لگا دیا۔

اس وقت قبلہ بیت المقدس تھا، دروازے کے بازو کے دونوں پائے پتھر کے بنائے گئے، دیواریں کچی اینٹ اور گارے سے بنائی گئیں، چھت پر کھجور کی شاخیں اور پتے ڈلوا دیئے گئے اور کھجور کے تنوں کے کھمبے بنا دیے گئے، زمین پر ریت اور چھوٹی چھوٹی کنکریاں (چھریاں) بچھا دی گئیں، تین دروازے لگائے گئے، قبلے کی دیوار سے پچھلی دیوار تک ایک سو ہاتھ لمبائی تھی، چوڑائی بھی اتنی یا اس سے کچھ کم تھی، بنیاد تقریباً تین ہاتھ گہری تھی۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسجد کے بازو میں چند مکانات بھی تعمیر کیے، جن کی دیواریں کچی اینٹ کی تھیں اور چھتیں کھجور کے تنوں کی کڑیاں دے کر کھجور کی شاخ اور پتوں سے بنائی گئی تھی، یہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کے حجرے تھے، ان حجروں کی تعمیر مکمل ہوجانے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے مکان سے یہیں منتقل ہوگئے۔ (صحیح بخاری ۱ /۷۱ ، ۵۵۵ ، ۵۶۰، زاد المعاد ۲/۵۶)

مسجد محض ادائے نماز ہی کے لیے نہ تھی، بلکہ یہ ایک یونیورسٹی تھی جس میں مسلمان اسلامی تعلیمات وہدایات کا درس حاصل کرتے تھے اور ایک محفل تھی جس میں مدتوں جاہلی کشاکش ونفرت اور باہمی لڑائیوں سے دوچار رہنے والے قبائل کے افراد اب میل محبت سے مل جل رہے تھے، نیز یہ ایک مرکز تھا جہاں سے اس ننھی سی ریاست کا سارا نظام چلایا جاتا تھا اور مختلف قسم کی مہمیں بھیجی جاتی تھیں، علاوہ ازیں اس کی حیثیت ایک پارلیمنٹ کی بھی تھی جس میں مجلسِ شوریٰ اور مجلسِ انتظامیہ کے اجلاس منعقد ہوا کرتے تھے۔

ان سب کے ساتھ ساتھ یہ مسجد ہی ان فقراء مہاجرین کی ایک خاصی بڑی تعداد کا مسکن تھی جن کا وہاں پر نہ کوئی مکان تھا، نہ مال اور نہ اہل وعیال۔

پھر اوائل ہجرت ہی میں اذان بھی شروع ہوئی، یہ ایک لاہوتی نغمہ تھا جو روزانہ پانچ بار اُفق میں گونجتا تھا اور جس سے پورا عالمِ وجود لرز اٹھتا تھا، یہ روزانہ پانچ مرتبہ اعلان کرتا تھا کہ اللہ کے سوا کوئی ہستی لائق عبادت نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے پیغمبر ہیں، یہ اللہ کی کبریائی کو چھوڑ کر ہر کبریائی کی نفی کرتا تھا اور اس کے بندے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین کو چھوڑ کر اس وجود سے ہر دین کی نفی کرتا تھا۔

اسے خواب میں دیکھنے کا شرف ایک صحابی حضرت عبداللہ بن زید بن عبدربہ رضی اللہ عنہ کو حاصل ہوا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے برقرار رکھا اور یہی خواب حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بھی دیکھا۔ تفصیل جامع ترمذی، سنن ابی داؤد، مسند احمد اور صحیح ابنِ خزیمہ میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔

==================> جاری ہے ۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں