سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 122
قریش کا تجارتی قافلہ اور مسلمانوں کی بدر روانگی:
سریّہ عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ بعض اعتبارات سے بڑی اہمیت کے حامل ہے، اس لئے کہ ان کے دوران مسلمانوں کی جانب سے پہلا قتل ہوا، پہلے قیدی ملے، پہلی غنیمت ملی، امیر لشکر کو پہلی بار امیر المؤمنین کا خطاب ملا اور انہوں نے اپنی طرف سے پہلا اجتہاد کیا، بعد میں خلفائے راشدین میں سب سے پہلے حضرت عمر رضی اللہ عنہ امیرالمؤمنین کے لقب سے پکارے گئے۔ (مصباح الدین شکیل، سیرت احمد مجتبیٰ)
حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ غزوۂ بدر اور دوسری تمام لڑائیاں جو قریش کے ساتھ ہوئیں، ان سب کا سبب یہی عمرو بن الحضرمی کا قتل تھا جو عبداللہ حضرمی کا بیٹا تھا، گرفتار ہونے والے بھی بااثر لوگ تھے، طبری کے بیان کے مطابق جنگ بدر اور دوسری لڑائیاں جو مسلمانوں اور کافروں کے درمیان ہوئیں، ان سب کا سبب عمرو بن عبداللہ الحضرمی کا قتل تھا۔
یہ چند سرایاء اور غزوات جو غزوہ بدر سے پہلے ہوئے، ان میں سے کسی میں بھی لوٹ مار اور قتل و غارت گری کی نوبت نہیں آئی جب تک کہ مشرکین نے کرز بن جابر فہری کی قیادت میں لوٹ مار نہیں کی، اب تک مسلمانوں نے جو مہمیں روانہ کیں ان کا مقصد حفاظت خود اختیاری تھا، لیکن لوٹ مار کی ابتداء مشرکین نے اپنے طرف سے کی۔
قریش نے ہجرت کے ساتھ ہی مدینہ پرحملہ کی تیاریاں شروع کر دی تھیں، عبداللہ بن اُبی کو خط لکھ بھیجا کہ یا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قتل کر دو، یا ہم آکر ان کے ساتھ تمہارا بھی فیصلہ کر دیتے ہیں، قریش کی چھوٹی چھوٹی ٹکڑیاں مدینہ کی طرف گشت لگاتی رہتی تھیں، کرز بن جابر فہری مدینہ کی چراگاہوں تک آکر غارت گری کر گیا تھا، حضرت ذر رضی اللہ عنہ (حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے) کو شہید کر دیا گیا تھا۔
حملہ کے لئے سب سے ضروری چیز مصارف جنگ کا بندوست تھا، اس لئے اب کے موسم میں قریش کا جو کاروان تجارت شام کو روانہ ہوا، اس سروسامان سے روانہ ہوا کہ مکہ کی تمام آبادی نے جس کے پاس جو رقم تھی، کل کی کل دے دی، نہ صرف مرد بلکہ عورتیں جو کاروبارتجارت میں بہت کم حصہ لیتی تھیں، ان کا بھی ایک ایک فرد اس میں شریک تھا، قافلہ ابھی شام کے لئے روانہ نہیں ہوا تھا کہ عمرو بن عبداللہ الحضرمی کے قتل کا واقعہ پیش آ گیا جس نے قریش کی آتش غضب کو اور بھڑکا دیا، اسی اثنا میں یہ غلط خبر مکہ معظمہ میں پھیل گئی کہ مسلمان قافلہ لوٹنے کے لئے آ رہے ہیں، قریش کے غیظ و غضب کا بادل بڑے زور و شور سے اٹھا اور تمام عرب پر چھا گیا۔
غزوۂ عشیرہ کے ذکر میں آ چکا کہ قریش کا ایک قافلہ مکے سے شام جاتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گرفت سے بچ نکلا تھا، یہی قافلہ جب شام سے پلٹ کر مکہ واپس آنے والا تھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے طلحہ بن عبیداللہ اور سعید بن زید رضی اللہ عنہما کو اس کے حالات کا پتا لگا نے کے لیے شمال کی جانب روانہ فرمایا، یہ دونوں صحابی مقامِ حوراء تک تشریف لے گئے اور وہیں ٹھہرے رہے، جب ابوسفیان قافلہ لے کر وہاں سے گزرا تو یہ نہایت تیز رفتاری سے مدینہ پلٹے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس کی اطلاع دی۔
اس قافلے میں اہل مکہ کی بڑی دولت تھی، یعنی ایک ہزار اونٹ تھے جن پر کم ازکم پچاس ہزار دینار (دوسو ساڑھے باسٹھ کلو سونے) مالیت کا سازوسامان بار کیا ہو ا تھا، درآں حالیکہ اس کی حفاظت کے لیے صرف چالیس آدمی تھے۔
اہل مدینہ کے لیے یہ بڑا زرّین موقع تھا، جبکہ اہل مکہ کے لیے اس مالِ فراواں سے محرومی بڑی زبردست فوجی، سیاسی اور اقتصادی مار کی حیثیت رکھتی تھی، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمانوں کے اندر اعلان فرمایا کہ یہ قریش کا قافلہ مال ودولت لیے چلا آرہا ہے، اس کے لیے نکل پڑو۔
لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی پر روانگی ضروری نہیں قرار دی، بلکہ اسے محض لوگوں کی رغبت پر چھوڑ دیا، کیونکہ اس اعلان کے وقت یہ توقع نہیں تھی کہ قافلے کے بجائے لشکر قریش کے ساتھ میدانِ بدر میں ایک نہایت پُر زور ٹکر ہوجائے گی اور یہی وجہ ہے کہ بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مدینے ہی میں رہ گئے، ان کا خیال تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ سفر آپ کی گزشتہ عام فوجی مہمات کی طرح ہی ہوگا اور اسی لیے اس غزوے میں شریک نہ ہونے والوں سے کوئی باز پرس نہیں کی گئی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم روانگی کے لیے تیار ہوئے تو آپ کے ہمراہ کچھ اُوپر تین سو افراد تھے (یعنی 313 یا 314 یا 317 ) جن میں سے 82 یا 83 یا 84 مہاجر تھے اور بقیہ انصار، پھر انصار میں سے 61 قبیلہ اَوس سے تھے اور 170 قبیلہ خزرج سے، اس لشکر نے غزوے کا نہ کوئی خاص اہتمام کیا تھا نہ مکمل تیاری، چنانچہ پورے لشکر میں صرف دو گھوڑے تھے، (ایک حضرت زُبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کا اور دوسرا حضرت مقداد بن اسود کندی رضی اللہ عنہ کا) اور ستر اونٹ جن میں سے ہر اونٹ پر دو یا تین آدمی باری باری سوار ہوتے تھے، ایک اونٹ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت مرثدبن ابی مرثد غنوی رضی اللہ عنہ کے حصے میں آیا تھا، جن پر تینوں حضرات باری باری سوار ہوتے تھے۔
مدینہ کا انتظام اور نماز کی امامت پہلے پہل حضرت ابنِ اُمِّ مکتوم رضی اللہ عنہ کو سونپی گئی، لیکن جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مقام رَوْحاء تک پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابو لبابہ بن عبدالمنذر رضی اللہ عنہ کو مدینہ کا منتظم بنا کر واپس بھیج دیا۔
لشکر کی تنظیم اس طرح کی گئی کہ ایک جیش مہاجرین کا بنایا گیا اور ایک انصار کا، مہاجرین کا علَم حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو دیا گیا اور انصار کا علَم حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو اور جنرل کمان کا پرچم جس کا رنگ سفید تھا، حضرت مصعب بن عمیر عبدری رضی اللہ عنہ کو دیا گیا، میمنہ کے افسر حضرت زُبیر بن عوام رضی اللہ عنہ مقرر کیے گئے اور مَیْسَرہ کے افسر حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ اور جیسا کہ ہم بتاچکے ہیں پورے لشکر میں صرف یہی دونوں بزرگ شہسوار تھے، ساقہ کی کمان حضرت قیس بن ابی صَعْصَعہ رضی اللہ عنہ کے حوالے کی گئی اور سپہ سالارِ اعلیٰ کی حیثیت سے جنرل کمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود سنبھالی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس نامکمل لشکر کو لے کر روانہ ہوئے تو مدینے کے دہانے سے نکل کر مکہ جانے والی شاہراہ عام پر چلتے ہوئے بئر روحاء تک تشریف لے گئے، پھر وہاں سے آگے بڑھے تو مکے کا راستہ بائیں جانب چھوڑ دیا اور داہنے جانب کترا کر چلتے ہوئے نازیہ پہنچے، (منزل مقصود بدر تھی ) پھر نازیہ کے ایک گوشے سے گزر کر وادی رحقان پار کی، یہ نازیہ اور درۂ صفراء کے درمیان ایک وادی ہے، اس وادی کے درۂ صفراء سے گزرے، پھر درہ سے اتر کر وادی صفراء کے قریب جا پہنچے اور وہاں سے قبیلہ جہینہ کے دو آدمیوں یعنی بسیس بن عمر اور عدی بن ابی الزغباء کو قافلے کے حالات کا پتا لگانے کے لیے بدر روانہ فرمایا۔
==================>> جاری ہے ۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں