سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 96


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 96

قباء سے روانگی اور مدینہ میں داخلہ:

قبا میں چودہ روز قیام کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے 22 ربیع الاول 14 نبوت مطابق 8 اکٹوبر 622ء بروز جمعہ کوچ کا ارادہ ظاہر فرمایا، عمرو بن عوف رضی اللہ عنہ کے قبیلہ والوں نے عرض کیا: "یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کیا ہم سے کوئی خطا سر زد ہوئی جس کی وجہ سے آپ ہم سے ناراض ہو کر یہاں سے تشریف لے جارہے ہیں؟ ہمارے ماں باپ آپ پر قربان، آپ یہیں قیام فرمائیے۔"

اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مجھے آگے جانے کا حکم ہوا ہے۔" چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے روانہ ہوئے، جب قبیلہ بنی سالم بن عوف کے محلہ میں پہنچے تو نماز جمعہ کا وقت ہو چکا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں مختصر قیام کرکے مسجد غیب میں نماز جمعہ ادا فرمائی جو بعد میں مسجد جمعہ کے نام سے مشہور ہوئی۔

یہ تاریخِ اسلام کا پہلا جمعہ تھا جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت میں ادا ہوا، جس میں شرکاء کی تعداد (100) تھی، نماز سے قبل آپ نے جمعہ کا خطبہ ارشاد فرمایا، اس خطبہ میں آپ نے اللہ کی اطاعت اور اس کی فرماں برداری پر زور دیا اور نیک عملی کی زندگی بسر کرنے کی تلقین کی، اس خطبہ میں اہل مکہ کے مظالم کی شکایت کے متعلق ایک حرف بھی نہ تھا، نماز سے فارغ ہونے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری آگے بڑھی۔ (سیرت طیبہ)

جمعہ کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لے گئے اور اسی دن سے اس شہر کا نام یثرب کے بجائے "مدینة الرسول" (شہر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پڑگیا جسے مختصراً مدینہ کہا جاتا ہے، یہ نہایت تابناک تاریخی دن تھا، گلی کوچے تقدیس وتحمید کے کلمات سے گونج رہے تھے اور انصار کی بچیاں خوشی ومسرت سے ان اشعار کے نغمے بکھیر رہی تھیں۔

*طلـع البـــــدر عـلـیـنـــــــــا مـــــــن ثنیــات الـوداع*
*وجــب الشکـــــر علینــــــــا مـــــا دعــا للــــــہ داع*
*أیــہــا الـــمـبـعــوث فـیـنـــا جـئـت بـالأمـر الـمـطاع*

*ان پہاڑوں سے جو ہیں سوئے جنوب چودھویں کا چاند ہے ہم پر چڑھا،*
*کیسا عمدہ دین اور تعلیم ہے، شکر واجب ہے ہمیں اللہ کا،*
*ہے اطاعت تیرے حکم کی بھیجنے والا ہے تیرا کبریا۔*

انصار اگرچہ بڑے دولت مند نہ تھے، لیکن ہرایک کی یہی آرزو تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے یہاں قیام فرمائیں، چنانچہ آپ انصار کے جس مکان یا محلے سے گزرتے وہاں کے لوگ آپ کی اونٹنی کی نکیل پکڑلیتے اور عرض کرتے کہ تعداد وسامان اور ہتھیار وحفاظت فرشِ راہ ہیں، تشریف لائیے، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے کہ اونٹنی کی راہ چھوڑدو، یہ اللہ کی طرف سے مامور ہے، چنانچہ اونٹنی مسلسل چلتی رہی اور اس مقام پر پہنچ کر بیٹھی جہاں آج مسجد نبوی ہے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نیچے نہیں اترے، یہاں تک کہ وہ اٹھ کر تھوڑی دور گئی، پھرمڑ کر دیکھنے کے بعد پلٹ آئی اور اپنی پہلی جگہ بیٹھ گئی، اس کے بعد آپ نیچے تشریف لائے۔

یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ننہیال والوں یعنی بنو نجار کا محلہ تھا، آپ کے پردادا ہاشم نے اس قبیلہ کی خاتون سلمیٰ بن عمرو سے نکاح کیا تھا جن سے عبدالمطلب پیدا ہوئے تھے، یہ اونٹنی کے لیے محض توفیق الٰہی تھی، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ننہیال میں قیام فرماکر ان کی عزت افزائی کرنا چاہتے تھے، اب بنونجار کے لوگوں نے اپنے اپنے گھر لے جانے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض معروض شروع کی، لیکن ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے لپک کر کجاوہ اٹھا لیا اور اپنے گھر لے کر چلے گئے، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے: "آدمی اپنے کجاوے کے ساتھ ہے۔" ادھر حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ نے آکر اونٹنی کی نکیل پکڑ لی، چنانچہ یہ اونٹنی انہی کے پاس رہی۔ (زاد المعاد 2/55 , ابن ہشام 1/494.495)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ کے مکان تشریف لے گئے جو دو منزلہ تھا، حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے خواہش کی کہ اوپری منزل میں قیام فرمائیں، لیکن لوگوں سے ملاقات میں آسانی کی غرض سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نیچے کی منزل میں رہنا پسند فرمایا اور حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ اوپری منزل میں رہنے لگے، دونوں میاں بیوی کو یہ احساس تکلیف دہ رہتا کہ کہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے عین نیچے نہ ہوں، اس لئے دونوں کونوں میں پہنچ جاتے اور جاگتے رہتے، جب دونوں نے اپنی حالت حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرکے خواہش کی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اوپری منزل میں منتقل ہو جائیں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم اوپری منزل میں اقامت پزیر ہوئے۔

دوران قیام حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے دونوں وقت کا کھانا حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ لے جاتے اور جو کچھ بچ رہتا، دونوں میاں بیوی کھاتے، صحیح مسلم کی روایت کے مطابق ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانا تناول نہیں فرمایا اور وہ واپس آگیا، یہ دیکھتے ہی حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ بے چین ہو کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور تناول طعام نہ کرنے کی وجہ دریافت کی، آپ نے فرمایا کہ کھانے میں لہسن تھا، حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ کیا لہسن حرام ہے؟ تو آپ نے فرمایا: "نہیں، بلکہ میں اس کی بو اس وجہ سے نہیں پسند کرتا کہ مجھ پر وحی نازل ہوتی ہے، اس لئے پیاز اور لہسن کی بو سے احتیاط کرتا ہوں۔" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لوگوں کی حالت مجھ جیسی نہیں ہے، اس لئے تم اسے کھا سکتے ہو۔"
(ابن ہشام بحوالہ سیرت احمد مجتبٰی)

حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے مکان میں قیام کے دوران حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ کو دو اونٹ اور پانچ سو درہم دے کر مکہ روانہ کیا تاکہ اہل و عیال کو لے آئیں، چند دنوں کے بعد آپ کی زوجہ محترمہ ام المومنین حضرت سَوْدَہ اور آپ کی دونوں صاحبزایاں حضرت فاطمہ اور حضرت ام کلثوم اور حضرت اسامہ بن زید اور ام ایمن رضی اللہ عنہم بھی آگئیں، ان سب کو حضرت عبداللہ بن ابی بکر رضی اللہ عنہ آل ابی بکر کے ساتھ جن میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بھی تھیں، لے کر آئے تھے، البتہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک صاحبزادی حضرت زینب رضی اللہ عنہا، حضرت ابوالعاص (رضی اللہ عنہ) کے پاس باقی رہ گئیں، حضرت ابو العاص ابھی تک ایمان نہیں لائے تھے، انہوں نے آنے نہیں دیا اور وہ جنگِ بدر کے بعد تشریف لاسکیں۔ (زاد المعاد ۲/۵۵)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم مدینہ آئے تو یہ اللہ کی زمین میں سب سے زیادہ وبا خیز جگہ تھی، وادئ بطحان سڑے ہوئے پانی سے بہتی تھی، ان کا یہ بھی بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو بخار آگیا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر اس کی خبر دی تو آپ نے فرمایا: "اے اللہ! ہمارے نزدیک مدینہ کو اسی طرح محبوب کر دے، جیسے مکہ محبوب تھا یا اس سے بھی زیادہ اور مدینہ کی فضا صحت بخش بنا دے اور اس کے صاع اور مُد (غلے کے پیمانوں) میں برکت دے اوراس کا بخار منتقل کرکے جحفہ پہنچا دے۔ " (صحیح بخاری)

اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سن لی، چنانچہ آپ کو خواب میں دکھلایا گیا کہ ایک پراگندہ سر کالی عورت مدینہ سے نکلی اور مہیعہ یعنی جحفہ میں جا اتری، اس کی تعبیر یہ تھی کہ مدینہ کی وباء جحفہ منتقل کردی گئی اور اس طرح مہاجرین کو مدینہ کی آب وہوا کی سختی سے راحت مل گئی۔

یہاں تک حیاتِ طیبہ کی ایک قسم اور اسلامی دعوت کا ایک دَور (یعنی مکی دَور) پورا ہوجاتا ہے۔ آئندہ اختصار (اقساط) کے ساتھ مدنی دور پیش کیا جارہا ہے۔
وباللہ التوفیق۔

==================> جاری ہے ۔۔۔

الرحیق المختوم مولانا صفی الرحمن مبارکپوری۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں