سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 113


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 113

حضرت سلمان فارسی ؓ کا قبول اسلام:

حضرت سلمان فارسی جو ایران کے رہنے والے تھے اور تلاش حق میں سرگرداں تھے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدینہ تشریف آوری کے پانچ روز بعد مدینہ تشریف لائے اور اسلام قبول کیا۔

ان کا مجوسی نام "ماہ بہ" تھا، وہ ایران کے ایک موضع "جئے" کے رہنے والے تھے، بعض نے دام ہرمز لکھا ہے، بچپن ہی سے مذہب کی طرف جھکاؤ تھا، آخر آتش کدہ کے خادم خاص بن گئے، آگ کو ذرا سی دیر کے لئے بھی بجھنے نہ دیتے تھے۔

الله تعالیٰ جس کے نصیب میں ہدایت لکھ دیتا ہے تو اس کے لیے ہدایت کا راستہ آسان فرما دیتا ہے اور ہدایت کی توفیق انہی لوگوں کو ملتی ہے جو راہ حق کے متلاشی ہوں اور تعصب اور تنگ نظری سے پاک ہوں، حضرت سلمان فارسی کا باپ پیشہ کے اعتبار سے کاشت کار تھا اور مذہباً آتش پرست تھا، ان کے باپ نے ایک مرتبہ ان کو اپنی زرعی زمینوں کی دیکھ بھال کے لیے بھیجا، راستہ میں عیسائیوں کی عبادت گاہ تھی، یہ اس کے اندر چلے گئے اور ان کے طریقہٴ عبادت کو دیکھ کر متاثر ہوئے۔

وہ لوگ نماز پڑھ رہے تھے، (حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات کچھ نہ کچھ اس وقت تک زندہ ہوں گی، بعد میں تو عیسائیوں نے عبادت گاہوں کو موسیقی اور شرکیہ عقائد پھیلانے کا مرکز بنالیا) سلمان فارسی رضی الله عنہ شام تک وہیں رہے، واپس آ کر باپ کو پورا حال سنایا اور کہا کہ ان کا دین ہمارے دین سے بہتر ہے، باپ نے تردید کی اور بیٹے کو سمجھانے کی کوشش کی، لیکن یہ اصرار کرتے رہے کہ آتش پرستی سے عیسائیوں کا دین بہتر ہے۔

جب باپ کو خدشہ ہوا کہ یہ آبا واجداد کا مذہب چھوڑ دیں گے تو اس نے ان کو گھر میں قید کر دیا، کسی طرح حضرت سلمان فارسی رضی الله عنہ گھر سے فرار ہو کر ایک قافلہ کے ساتھ شامل وہاں چلے گئے جو عیسائیوں کے دین کا مرکز تھا، وہ عیسائیوں کے سب سے بڑے مذہبی پیشوا کے پاس رہنے لگے۔

حضرت سلمان فارسی رضی الله عنہ فرماتے ہیں: "یہ شخص بد دیانت اور دنیا پرست نکلا، لوگوں کو صدقہ وخیرات کی ترغیب دلاتا اور جو اموال صدقہ کی مد میں آتے، وہ خود رکھ لیتا اور مسکینوں کو کچھ نہ دیتا۔" اس کی موت کے بعد حضرت سلمان رضی الله عنہ نے اس کے ماننے والوں کو اس کی حقیقت بتائی اور اس کے گھر میں رکھے ہوئے سونے چاندی سے بھرے ہوئے سات مٹکے دکھائے تو وہ لوگ بڑے برہم ہوئے اور ان کے دل سے اس پادری کی وہ وقعت نکل گئی، انہوں نے اس کو دفن بھی نہ کیا بلکہ اس کی لاش کو سولی پر چڑھا دیا اور پتھر مار مار کر چورا کر دیا۔

اس کے بعد دوسرا پادری اس منصب پر فائز ہوا، حضرت سلمان رضی الله عنہ فرماتے ہیں: "یہ دوسرا شخص اس پہلے شخص سے بہت افضل تھا اور دنیا سے بے رغبت تھا، مجھے اس سے محبت ہو گئی اور ایک عرصہ تک اس کے ساتھ گرجا میں رہا، موت کے وقت اس نے وصیت کی کہ اب تم فلاں شخص کے پاس چلے جاؤ کیوں کہ اس کے سوا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات پر عمل کرنے والا کوئی اور میرے علم میں نہیں ہے جو شہر موصل میں رہتا تھا، میں تلاش کرتا ہوا اس تک جا پہنچا، یہ شخص بھی عابد وزاہد تھا، میں اس کے ساتھ رہنے لگا۔"

جب اس شخص کی وفات کا وقت آیا تو اس نے کسی اور کا پتہ بتا دیا جو شہر نصیبین میں رہتا تھا، حضرت سلمان فارسی اس کے پاس رہتے رہے، پھر اس کی بھی موت آگئی اور وہ شہر عموریا کے کسی عابد کا پتہ بتا گیا، حضرت سلمان فارسی رضی الله عنہ اس کے پاس رہنے لگے اور کمانے کا مشغلہ بھی اختیار کر لیا اور کچھ مال بھی جمع ہو گیا، جب اس عموریا والے پادری کو موت نے آ گھیرا تو حضرت سلمان فارسی نے اس سے دریافت کیا اب بتائیے میں آپ کے بعد کہاں جاؤں؟ اس پر اس نے جواب دیا:

"بیٹا! اب تو میرے علم میں کوئی بھی ایسا آدمی نہیں جو حضرت عیسی علیہ السلام کے دین پر پوری طرح قائم ہو، اب تم الله کے آخری نبی کی آمد کا انتظار کرو، ان کے تشریف لانے کا زمانہ قریب آچکا ہے، وہ عرب میں تشریف لائیں گے اور ایک ایسے شہر کی طرف ہجرت کریں گے جس کے دونوں طرف کنکریلی زمین ہوگی اور اس شہر میں کھجوروں کے باغات ہوں گے، ان کی ایک نشانی یہ ہو گی کہ ہدیہ قبول فرمائیں گے اور صدقہ نہ کھائیں گے اور ان کی نبوت کی ایک علامت یہ ہو گی کہ ان کے دونوں کاندھوں کے درمیان مہر نبوت ہوگی، لہٰذا تم عرب چلے جاؤ۔"

یہ کہہ کر اس پادری نے آخرت کا راستہ لیا اور حضرت سلمان فارسی عرب پہنچنے کی تدبیریں سوچنے لگے۔

عرب کے کچھ لوگ تجارت کے لیے عموریا پہنچ گئے، حضرت سلمان فارسی رضی الله عنہ نے ان سے کہا کہ مجھے اپنے ساتھ عرب لے چلو، میں تمہیں معاوضہ کے طور پر یہ بکریاں اور گائیں دوں گا،" وہ لوگ انہیں ساتھ لے چلے اور وادی القر'ی پہنچ کر انہوں نے دھوکہ کیا اور حضرت سلمان فارسی رضی الله عنہ کو اپنا غلام ظاہر کرکے فروخت کر ڈالا، خریدنے والے شخص نے مدینہ کے ایک یہودی کے ہاتھ ان کو فروخت کر دیا جو قبیلہ بنو قریظہ کا فرد تھا، وہ انہیں مدینہ لے گیا۔

حضرت سلمان فارسی فرماتے ہیں کہ "مدینہ کو دیکھتے ہی میں سمجھ گیا کہ یہی وہ شہر ہے جہاں نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہجرت فرما کر تشریف لائیں گے۔"

حضرت سلمان فارسی رضی الله عنہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انتظار میں ایک ایک دن گن رہے تھے کہ وہ مبارک گھڑی آپہنچی اور سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ معظمہ سے ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لے آئے، حضرت سلمان فارسی رضی الله عنہ حاضر ہوئے اور پادری کی بتائی ہوئی تمام علامات دیکھ لیں، جب مہر نبوت دیکھنے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے بیٹھے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی چادر مبارک اٹھا دی، حضرت سلمان فارسی رضی الله عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دونوں کندھوں کے درمیان مہر نبوت دیکھ لی اور اسلام قبول کر لیا۔

اسلام تو قبول کر لیا، لیکن یہودی کی غلامی سے آزادی کا مسئلہ تھا، اس نے کہا کہ تمہاری آزادی کے لیے یہ شرط ہے کہ تم تین سو کھجوروں کے پودے لگاؤ، جب وہ تمام درخت پھل دے دیں اور تم چالیس اوقیہ یعنی تقریباً پونے سات سیر سونا ادا کر دو تو تمہیں غلامی سے چھٹکارا مل سکتا ہے۔

حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس باغ میں جا کر اپنے مبارک ہاتھوں سے 300 پودے لگا دیے اور پھر یہ معجزہ ہوا کہ سارے درختوں نے اسی سال پھل دے دیا، جب کہ کھجور کے پودے میں پانچ سال میں پھل آتا ہے۔

رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس انڈے کے برابر کہیں سے سونا آگیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت سلمان فارسی کو بلا کر فرمایا: "یہ لے جاؤ اور تمہارے ذمہ جو سونا واجب الادا ہے، وہ ادا کرو۔"

حضرت سلمان رضی الله عنہ نے عرض کیا: "یا رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! اتنے تھوڑے سے سونے میں چالیس اوقیہ کا وزن کیسے پورا ہوگا؟"

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "یقین رکھو! الله تعالیٰ تمہیں اسی سے سبک دوش فرما دے گا۔"

چنانچہ ایسا ہی ہوا، جب اس یہودی نے سونے کی اس ڈلی کو تولا تو پورا وزن نکلا اور ان کو آزادی مل گئی، حضرت سلمان فارسی رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد سے میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں رہنے لگا اور غزوہٴ خندق میں شریک ہوا، یہ تمام تفصیل حضرت سلمان فارسی کی زبانی جمع الفوائد ، شمائل ترمذی اور طبقات ابن سعد سے نقل کی گئی ہے۔

==================>> جاری ہے ۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں